بات كرنے كا وقت اور موقع

مصنف : ڈاكٹر عزير سرويا

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : مئی 2025

اصلاح و دعوت

بات كرنے كا وقت اور موقع

ڈاكٹر عزير سرويا(كينسر سپيشلسٹ)

کوئی بھی بات کہنے یا تاکید کرنے کا ایک وقت اور ایک موقع ہوتا ہے۔ خصوصاً کسی مذہبی نوعیت کی تاکید (جیسے نماز پڑھیں، روزے رکھیں وغیرہ) تو بہت سوچ سمجھ کر ہونی چاہیے۔

جب کلینک پر کوئی مریض ایک ڈاکٹر سے مشورہ کرنے آتا ہے تو وہ یہ سوچ کر آتا ہے کہ ڈاکٹر نے جدید سائنسی کتابیں پڑھ کر اور انہی بنیادوں پر تربیت لے کر جو کچھ سیکھا ہے وہ اس کی روشنی میں مشورہ دے گا۔ لہذا کلینک پر موقع اور ماحول فقط پروفیشنل مشورے کا ہوتا ہے۔ مثلاً میرے پاس پھیپھڑے کے کینسر کے مریض آتے ہیں۔ لبلبے جگر کے کینسر کے مریض بھی آتے ہیں۔ اول الذکر میں سگریٹ نوشی کینسر کا اکثر سبب ہوتی ہے اور بہت سے موخر الذکر کیسز میں شراب نوشی کینسر کا بڑا سبب ہوتی ہے۔ میں انہیں یہ بتاتا ہوں کہ سگریٹ یا شراب نے یہ مسئلہ پیدا کیا ہے۔ اب تک جو پی لی، وہ پی لی، اب آگے کے لیے اسے چھوڑ دیں۔ چھوڑنے کی تلقین کے ساتھ کبھی یہ وجہ نہیں بتائی کہ مذہب میں حرام ہے اس لیے کہہ رہا ہوں کہ چھوڑ دیں۔ اور چھوڑنے کی تلقین کے ساتھ کبھی ان مریضوں کو ان کی اس عادت پر مذہبی جوش و خروش کے ساتھ ملامت بھی نہیں کیا۔ وجہ یہ کہ میرے پاس لوگ جس وجہ سے اور جو سروس لینے آ رہے ہیں مجھے وہی ان کو دینی ہے۔ اگر میرے پاس وہ مذہبی حوالے سے یا فتوی لینے آ رہے ہوتے تو اور بات ہوتی۔ وہیں اکثر کینسر کے مریضوں کے علاج میں ایک موقع ایسا آتا ہے جب مریض اس نکتے پر پہنچ چکا ہوتا ہے جہاں سے کوئی واپسی ممکن نہیں ہوتی۔ ایسے میں مریضوں کے لواحقین جذباتی شکست و ریخت کا شکار ہوتے ہیں اور نہایت کمزور پوزیشن میں ہوتے ہیں۔ انہیں کسی فالتو مگر نہایت مہنگے علاج کا جھانسا دے کر لوٹا بھی جا سکتا ہے۔ اگر کوئی علاج نہ بتایا جائے تو امکان ہوتا ہے کہ وہ باہر جا کے کسی اور سے چُونا لگوانے کی خطرناک پوزیشن پر ہوتے ہیں۔ لہذا ایسی حالت میں باقی ضروری طبی ہدایات سمیت میں مسلمان مریضوں کے لواحقین کو یہ بھی کہتا ہوں کہ اب وقت آسانی کی دعا اور سرہانے بیٹھ کر قرآن پڑھنے کا ہے۔ یہ بات ایک طرح سے ان کے رِستے ہوئے زخم کو بند کرنے کا کام کرتی ہے۔ وہ سمجھ جاتے ہیں کہ اب جو بات کہہ دی گئی ہے اس کے بعد کہیں اور جانے کا اور وقت و پیسہ برباد کرنے کا ہرگز فائدہ نہیں۔ یہ بظاہر مذہبی لگنے والا مشورہ بھی ایک پروفیشنل ضرورت کے تحت پوری احتیاط میں گُوندھ کر فیملی کی بہتری کے لیے دیا گیا ہوتا ہے۔

مجھے لگتا ہے سب ڈاکٹروں کو یہی احتیاط ملحوظ رکھنی چاہیے کہ ایک تو مریضوں کو اپنے مذہبی زاویے کے مطابق دیکھ کر احساسِ جرم کا شکار بنانے کا کام نہ کریں بلکہ نرم اور پیشہ وارانہ انداز میں بری عادتوں کے چھوڑنے کی تلقین کریں۔ دوسرا یہ کہ کسی مذہبی فریضے یا عبادت کی تلقین بھی نہایت پیشہ ورانہ انداز میں کسی مخصوص ضرورت کے تحت ہی کریں اور کبھی اپنی پروفیشنل حدود سے باہر نکل کر اضافی سیاسی و مذہبی گفتگو مت کریں۔ اس بات کا ہر لمحے ادراک رکھیں کہ مریض ہمارے پاس کس قسم کے مشورے اور کون سی باتیں سننے کے لیے آیا ہے۔