پانی اور پيشاب ، پينے اور كرنے كی ہيئت

مصنف : محمد فہد حارث

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : اپريل 2025

دين و دانش

پانی اور پيشاب ، پينے اور كرنے كی ہيئت

محمد فہد حارث

پیشاب کرنے کے طریقے میں اصل اس عمل کے دوران خود کو نجاست سے بچانا ہے۔ پس حالات و جگہ کے تحت جس عمل میں چھینٹیں پڑنے کا احتمال کم ترین ہوگا، وہ ہئیت پیشاب کرتے ہوئے اختیار کی جائے گی۔

یہی وجہ رہی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے اور بیٹھ کر دونوں طریقوں سے یہ عمل انجام دیا۔ اس سلسلے میں بیٹھ کر پیشاب کرنے کی روایات اس وجہ سے زیادہ ہیں کیونکہ عرب میں اس زمانے میں گھروں میں بیت الخلاء کا رواج نہ تھا اور لوگ صحراوں اور ویرانوں میں خاردار جھاڑیوں یا ٹیلوں کی اوٹ میں رفع حاجت کرتے تھے، ایسے میں کھڑے ہونے کے مقابلے میں بیٹھ کر کرنے سے یہ عمل زیادہ مخفی رہتا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ کوئی نظیف الفطرت شخص نہیں چاہتا کہ رفع حاجت کرتے ہوئے اسے کوئی دیکھے۔دوسری وجہ یہ بھی رہی کہ اکثر و بیشتر پاخانہ کے ساتھ پیشاب بھی خطا ہوجاتا ہے اور ظاہر سی بات ہے کہ پاخانہ کھڑے ہوکر کرنا محال اور باعث نجاست ہوگا، اسی لیے بیٹھ کر پاخانہ کرنے میں پیشاب بھی بیٹھ کرنے کی عادت ہوتی جاتی ہے۔۔۔

پس بول و براز کے اخراج کے لیے نجاست سے اجتناب اور سہولت کو اصل حاصل ہوگی، پھر وہ کھڑے ہوکر حاصل ہو یا بیٹھ کر۔

اب دیکھیے کہ بچپن سے ہم WC کا استعمال کرتے رہے لیکن دبئی وغیرہ آکر کموڈ کے استعمال کی عادت پڑی تو WC پر بیٹھنا محال لگنے لگا اور اس پر WC کے ساتھ مسلم شاور کا تڑکا۔۔ یقین جانئے دوسروں کا تو معلوم نہیں لیکن میرے لیے تو ممکن ہی نہیں رہتا کہ WC پر اُکڑوں بیٹھ کر مسلم شاور کا استعمال کروں اور خود کو چھینٹوں سے بچا سکوں۔

اس سے ہزارہا درجہ آسان لگتا ہے کہ کموڈ سیٹ کو خشک ٹیشو سے کلیتاً خشک کرکے اس پر بیٹھ کر رفع حاجت کرلی جائے۔۔۔۔ اسی طرح اگر یورینل یونٹس کے ساتھ ایک چھوٹا نلکا لگا دیا جائے تو میرے خیال میں کموڈ کے مقابلے میں پیشاب کی چھینٹوں سے محفوظ رہنے کا زیادہ موثر طریقہ ہوسکتا ہے۔

خیر پیشاب کھڑے ہوکر کیا جائے یا بیٹھ کر، حکم یہ نہیں ہے، بلکہ حکم یہ ہے کہ پیشاب کرتے ہوئے پیشاب کی چھینٹوں سے حتی الامکان ہر صورت بچا جائے۔

جہاں تک رہی کھڑے یا بیٹھ کر پانی پینے کی شرعی حیثیت ہے تو میرے خیال میں اسکا تعلق استحباب و اباحت سے ہے۔ پانی پینے میں اصل سنت جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا دوام ملتا ہے وہ تین گھونٹ میں سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کہہ کر پانی پینا ہے۔

جہاں تک کھڑے ہوکر پانی پینے کی کراہت کی بات ہے تو حقیقت یہی ہے کہ یہ نہایت مختلف فیہ مسئلہ رہا ہے جہاں سیدنا انسؓ سے مروی ہے کہ نبیﷺ اس کو ناپسند فرماتے تھے اور بقول سیدنا ابو ہریرہؓ جو ایسا کرے تو اسے چاہیئے کہ حلق میں انگلی ڈال کر قے کردے

تو دوسری طرف سیدنا علی بالخصوص اور التزاما لوگوں کو تعلیم دینے کی غرض سے مسجد کوفہ کے دروازے پر کھڑے ہوکر یہ کہتے ہوئے پانی پیتے ہیں کہ میں ایسا جان بوجھ کر تم کو دکھانے کو کررہا ہوں تاکہ تم جان لو کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے پانی پیتے دیکھا ہے۔ اسی طرح موطا امام مالک میں تو امام مالک نے باقاعدہ سیدہ عائشہ، سیدنا عثمان اور سیدنا سعد بن ابی وقاص کے کھڑے ہوکر پانی پینے کی روایات لاکر کھڑے ہوکر پانی پینے کے جواز پر دلائل جمع کیے ہیں۔

ایسے میں معلوم تو یہی چلتا ہے کہ بیٹھ کر پانی پینا مستحب اور کھڑے ہوکر پانی پینا مباح ہے۔

البتہ کوئی بیٹھ کر پانی پینے کی عادت بنالیتا ہے تو اس پر شدت پسندی اور دین پر غلو کا طعن نہیں کیا جائے گا بالکل ویسے ہی جیسے کھڑے ہوکر پانی پینے پر طعن نہیں کرنا چاہیئے۔

مجھے اس سلسلے میں اپنے والد کا سجھاو بہت پسند تھا۔

وہ کہتے تھے کہ کھڑے ہوکر کھانا پینا جانوروں کی جبلت و عادت ہے۔ پس شرف آدمیت کے تحت خود کو حیوانوں سے ممیز کرنے واسطے انسان کوشش کرے کہ بیٹھ کر کھائے پیے کہ تہذیب و شرافت اس سے جھلکتی ہے۔

دوسری بات کا تعلق موضوع سے تو نہیں لیکن والد کی نصیحت یاد آئی تو لکھے دیتا ہوں۔ ہم لوگ جب بچپن میں اپنے اردگرد گند بلا پھیلا کر اسکو سمیٹے بغیر بیٹھ جاتے تھے تو والد صاحب بہت ناراض ہوتے اور کہتے تھے کہ

کُتّا بھی جب کسی جگہ بیٹھتا ہے تو پہلے اپنی پونچھ سے اس جگہ کو صاف کرتا ہے، تم لوگ تو پھر بھی انسان "کہلائے" جاتے ہو 😀، کم از کم بیٹھنے سے قبل اپنے آس پاس کی جگہ کو صاف تو کرلیا کرو۔