كتابيات
جيفری لانگ كی كتاب اور نومسلموں كی مشكلات
طفيل ہاشمی
جیفری لانگ کی کتاب The Struggle for Islam ("الصراع من أجل الإيمان") میں بیان کردہ نکات ایک گہرے اور حساس موضوع کی نشاندہی کرتے ہیں، جو خاص طور پر نو مسلموں کی مشکلات سے متعلق ہے۔ ان کا ترجمہ اردو میں درج ذیل ہے:
"نئے مسلمان ہونے والے افراد اس بات کو لے کر مشکل میں پڑ جاتے ہیں کہ حدیث کے علم تک رسائی قرآن کے مقابلے میں ذرا مشکل ہے۔ چونکہ حدیث کے ماہرین عام طور پر دستیاب نہیں ہوتے، اس لیے بہت سے مسلمان کچھ مخصوص احادیث کو بے ترتیب انداز میں استعمال کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی سوچ یا اعمال کو جواز فراہم کرسکیں۔
یہ مسئلہ ان لوگوں کے لیے مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے جو مختلف ثقافتی پس منظر سے اسلام قبول کرتے ہیں۔ خاص طور پر اگر ان کا پس منظر یہودی یا عیسائی ہو، جنہیں انہوں نے حال ہی میں ترک کیا ہو، تو وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسے ہی ورثے کو چھوڑ کر آئے ہیں جس کے شواہد انہوں نے قبول کیے تھے۔
مزید برآں، مغربی محققین کے ان تنقیدی مطالعوں کو نظر انداز کرنا مشکل ہے جنہوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کی مقدس کتب میں انسانی مداخلت کو کامیابی سے بے نقاب کیا ہے۔ یہ مطالعے اکثر اسی قسم کے نتائج تک پہنچتے ہیں جب احادیث کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ وہ روایات جو نبی کی شخصیت سے غیر مطابقت رکھتی ہیں، یا ایسی چیزوں کو سپورٹ کرتی ہیں جو انتہائی ناقابل یقین معلوم ہوتی ہیں، ان کی کس حد تک تصدیق کی جا سکتی ہے۔اس کے باوجود، ہر مسلمان سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ تسلیم کرے کہ تمام وہ احادیث جو مسلم علماء نے صحیح قرار دی ہیں، واقعی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال اور اعمال کی صحیح نمائندگی کرتی ہیں۔
یہ صورت حال اکثر نئے مسلمان ہونے والوں کے لیے ایک غیر آرام دہ مقام پیدا کرتی ہے۔ انہیں پہلے عقل و منطق سے کام لینا پڑتا ہے، پھر انہیں ایک ایسے عقیدے کو تسلیم کرنا ہوتا ہے جس کو قبول کرنا ان کے لیے مشکل ہو سکتا ہے، کیونکہ اس عقیدے پر کسی بحث کی گنجائش نہیں چھوڑی جاتی۔اس وجہ سے، بہت سے لوگ خود کو ایک ایسی صورت حال میں پاتے ہیں جہاں انہیں سچائی کے ساتھ اپنے عہد کو نبھانے کے لیے کوئی درمیانی راہ نکالنی پڑتی ہے۔"
تجزیہ اور اہم نکات:
1. قرآن بمقابلہ حدیث: نو مسلموں کو قرآن تک رسائی آسان محسوس ہوتی ہے، لیکن حدیث کے علم کی پیچیدگی ان کے لیے مشکلات پیدا کرتی ہے۔
2. ثقافتی پس منظر کا اثر: یہودی اور عیسائی پس منظر رکھنے والے نو مسلم اپنے ماضی کے مذہبی تجربے کو احادیث کے تناظر میں دیکھتے ہیں، جو ان کے لیے الجھن کا باعث بن سکتا ہے۔
3. احادیث پر اعتراضات: وہ روایات جو نبی کی سیرت سے غیر متوقع معلوم ہوتی ہیں یا انسانی ذہن کو غیر منطقی لگتی ہیں، نو مسلموں کے ایمان کو چیلنج کر سکتی ہیں۔
4. اختیار اور بحث کی گنجائش: نو مسلموں کے لیے یہ بات مشکل ہو جاتی ہے کہ وہ تمام احادیث کو بلا اعتراض قبول کریں، خاص طور پر جب انہیں عقل و منطق کے خلاف محسوس ہو۔
دعوتِ اسلام کے لیے عملی سوالات:
1. کیا مسلمانوں کی اکثریت نو مسلموں کو قرآن کی مرکزی حیثیت اور اس کی تعلیمات کی اہمیت سمجھانے کے لیے تیار ہے؟
2. کیا ہم حدیث کے علم کو اس کے سیاق و سباق میں سمجھانے اور نو مسلموں کے ذہنی سوالات کا مدلل جواب دینے کے اہل ہیں؟
3. کیا ہمیں نو مسلموں کو مختلف مسلکی اختلافات میں الجھانے کے بجائے بنیادی اسلامی تعلیمات پر مرکوز رہنا چاہیے؟
یہ نکات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ دعوتِ اسلام کو جدید دور کے چیلنجز اور نو مسلموں کی نفسیاتی اور علمی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے ترتیب دینا چاہیے۔