Rich Dad Poor Dad كا تعارف

مصنف : تنوير گھمن

سلسلہ : کتابیات

شمارہ : فروری 2025

كتابيات

امير باپ غريب باپ

Rich Dad Poor Dad كا تعارف

تنوير گھمن

میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں كہ رابرٹ کیوساکی کی یہ کتاب آپکی آنکھیں کھول دے گی، آپکی سوچ میں ہلچل مچا دے گی۔ یہ کتاب تعلیم، نوکری، اور دولت کے درمیان تعلق کو ایک الگ زاویے سے دکھاتی ہے۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ یہ ہمارے تعلیمی نظام کے ہیرو ، ہمارے ٹاپرز اور پوزیشن ہولڈرز بعد میں کہاں جاتے ہیں ؟ اور ہمارے تعلیمی نظام کے نالائق اور نکمے بیک بینچرز کا بعد میں کیا بنتا ہے؟ اگر آپ ان سوالوں میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ کتاب آپ کے لئے ہے۔ اگر آپ جاب یا بزنس کے کلاسک چوراہے پر کھڑے سر کْھجا رہے ہیں تو یہ کتاب آپ کے لئے ہے۔ یہ کتاب روایتی تعلیمی نظام پر تنقید کرتی ہے اور یہ بتاتی ہے کہ کیوں کچھ لوگ "ملازم" بن جاتے ہیں اور کچھ "مالک"۔ اگر آپ نے کبھی سوچا ہے کہ، "میں نے تو سب کچھ صحیح کیا—اچھے نمبر لیے، اچھی نوکری کی—پھر بھی پیسے کی کمی کیوں رہتی ہے؟" تو یہ کتاب آپ کو ایک نیا زاویہ فراہم کرے گی۔

کیوساکی روایتی تعلیم کے اس جھوٹ کو بے نقاب کرتے ہیں کہ: "اچھے گریڈز لو، محفوظ نوکری تلاش کرو، اور کامیاب زندگی گزارو۔" وہ کہتے ہیں کہ ہمارا تعلیمی نظام ہمیں محض ایک "اچھا ملازم" بننا سکھاتا ہے، لیکن "مالک" بننے کے گْرنہیں بتاتا۔ مثال کے طور پر، ایک اے گریڈ انجینئر جو کالج میں ٹاپ کرتا ہے، نوکری کے لیے تیار ہو جاتا ہے، مگر اپنا کاروبار شروع کرنے یا سرمایہ کاری کرنے یا مالی خوشحالی کے بارے میں کچھ نہیں جانتا۔ دوسری طرف، سی گریڈرز، جو اسکول میں اکثرفارغ سمجھے جاتے ہیں، عملی زندگی میں اے گریڈرز سے آگے نکل جاتے ہیں ۔ ہمارے تعلیمی نظام کے ٹاپرز جب تعلیم مکمل کر کے نوکری کی تلاش میں دروازے کھٹکھٹانا شروع کرتے ہیں تب تک نکمے اور نالائق اپنا کاروبارکے مالک بن چْکے ہوتے ہیں ۔

کیوساکی لکھتے ہیں: "Schools teach you to answer questions, but not to ask them." یہی فرق اے گریڈرز اور سی گریڈرز کے درمیان ہے۔ اے گریڈرز کو فالو کرنا سکھایا جاتا ہے لیڈ کرنا نہیں ۔ وہ پیروی کرتے ہیں اور کام مکمل کرتے ہیں، جبکہ سی گریڈرز ان قواعد کو چیلنج کرتے ہیں، قوانین کو توڑتے ہیں ، سزائیں بھگتتے ہیں ، دباؤ سہتے ہیں ، مسائل کا سامنا کرتے ہیں اور مسائل کے حل تلاش کرتے ہیں جبکہ بی گریڈرز تحفظ اور استحکام چاہتے ہیں اس لیے سرکاری نوکری کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان کے لیے مستقل تنخواہ اور پنشن اہم ہوتی ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے لوگ CSS , PMS اور دیگر ایسے امتحانوں کی تیاری میں دن رات ایک کرتے ہیں ۔لیکن مصنف ان پر بھی تنقید کرتے ہیں ۔وہ لکھتے ہیں: "B Graders trade freedom for security, choosing stability over opportunity." کیوساکی خبردار کرتے ہیں کہ یہ "محفوظ" نوکریاں ایک دھوکہ ہیں۔ معاشی بحران یا پنشن کے نظام کی ناکامی کے وقت یہ ملازمتیں بھی غیر محفوظ ہو سکتی ہیں۔ سرکاری نوکری آپ کو نام نہاد استحکام تو دیتی ہے لیکن اس کے عوض آپ کو اپنی آزادی، اپنے خواب ، اپنا ٹیلنٹ اور اپنا ہنر سرکاری تجوری میں رکھ کر اسے سر بمہر کرنا پڑتا ہے۔ آپکی کہانی ختم۔

دوسری طرف، سی گریڈرز (Back Benchers) وہ لوگ ہیں جو خطرات اٹھانے سے نہیں گھبراتے۔ وہ بات چیت کرنا، سچویشن کو ہینڈل کرنا، لوگوں سے ملنا جلنا جانتے ہیں ۔ وہ پیسے کو کام پر لگانے کا فن بھی جانتے ہیں۔ جب اے گریڈرز کسی کمپنی میں نوکری کے لیے انٹرویو دیتے ہیں، سی گریڈرز اس کمپنی کے شیئر خرید رہے ہوتے ہیں۔ جب اے گریڈرز پراجیکٹ مکمل کرتے ہیں، سی گریڈرز اس پراجیکٹ سے منافع کماتے ہیں۔ کیوساکی کے مطابق، "The richest people in the world don’t work for money; they make money work for them."

کیوساکی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ ہمیں Asset اور Liability کا فرق سمجھنا چاہیے۔ وہ یہ حیران کرنے والی بات کہتے ہیں کہ "آپ کا گھر آپ کا اثاثہ نہیں ہوتا۔" یہ ایک عام غلط فہمی ہے کہ گھر خریدنا آپکو امیرکرتا ہے، لیکن اگر گھر قرضوں اور دیگر اخراجات کا بوجھ بن جائے، تو یہ Liability ہے۔ اصل اثاثے وہ ہوتے ہیں جو آپ کے لیے آمدنی پیدا کرتے ہیں، جیسے کرایہ کی پراپرٹی، شیرز، سٹاک، بانڈ، کاروبار، یا سرمایہ کاری۔مثال کے طور پر، اگر آپ 50 لاکھ روپے کا ایک گھر خریدتے ہیں اور اس میں رہائش کرتے ہیں تو یہ صرف اخراجات بڑھاتا ہے اور آپکی آمدنی میں اضافہ نہیں ہوتا۔ یہ آپ کے لیے بوجھ بن جاتا ہے۔ لیکن اگر آپ وہی رقم ایک چھوٹے کاروبار میں لگائیں جو ماہانہ منافع دے، تو یہ آپ کے لیے اثاثہ بن جاتا ہے۔

کیوساکی ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ مالی آزادی کے لیے ہمیں "مالکانہ سوچ" (Ownership Mindset) اپنانی ہوگی۔ ہر چیز کو اس نظر سے دیکھیں: "کیا یہ میرے لیے پیسہ کما سکتی ہے؟" چاہے آپ کھانا پکانے کے ماہر ہیں ، گرافک ڈیزائن کے یا کوئی بھی مہارت رکھتے ہیں ۔اپنے شوق کو اثاثے میں بدلنے کی کوشش کریں۔ اس سے پیسہ بنانے کے بارے میں سوچیں ۔کنزیومر بننے کے بجائے پروڈیوسر بنیں ۔

اگر آپ واقعی اپنی زندگی میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو یہ کتاب ایک رہنما ہے۔ یہ سکھاتی ہے کہ روایتی سوچ کو چھوڑ کر تخلیقی اور عملی بننا کتنا ضروری ہے۔ یہ صرف ایک کتاب نہیں، بلکہ ایک تحریک ہے جو آپ کو اپنی زندگی کا مالک بننے کی ترغیب دیتی ہے۔ کیوساکی کے الفاظ میں: "Grades don’t determine your destiny; your mindset does." یہ جملہ ہر کتاب کے پہلے صفحے پر بڑے حروف میں پرنٹ کر دینا چاہیے ۔ یہ جملہ ہر تعلیمی ادارے کے سربراہ کے دفتر میں لکھ دینا چاہیے ۔ یہی جملہ دنیا کے سبھی والدین تک بھی پہنچا دینا چاہیے تاکہ آج کے بچے کل جب عملی زندگی میں جائیں تو وہ ان ہتھیاروں سے لیس ہوں جو عملی زندگی کی جنگیں لڑنے کے لیے ضروری ہیں ۔

میں آپکو توجہ اس طرف بھی دلانا چاہتا ہوں کہ رابرٹ کیوساکی پاکستانی نہیں امریکی مصنف ہیں اور انہوں نے یہ سارا مقدمہ ہمارے نظام تعلیم کے خلاف کھڑا نہیں کیا بلکہ وہ امریکی سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں اور وہاں کے نظام کے بارے میں بات کر رہے ہیں ۔ ہمارے حالات ، نظام اور انتظام کے بارے میں ہم خود بہتر جانتے ہیں ۔