سائنس و مذہب

مصنف : محمد فہد حارث

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : فروری 2025

فكر ونظر

سائنس و مذہب

محمد فہد حارث

ہمارے مذہبی طبقے کے بیشتر افراد و گروہ اکثر اس بات پر ناراض  نظر آتے ہیں کہ ڈاکٹرز، انجینئرز، اور ہر ایرا غیرا شخص دینی علوم و شریعت کا از خود مطالعہ کرکے بغیر باقاعدہ تحصیلِ علم اورسند لیے دین پر گفتگو کرنا شروع کردیتا ہے۔ جس کے سبب لوگوں میں دین سے متعلق غلط باتیں ترویج پاتیں اور گمراہی پھیلتی ہے۔ اور یقیناً مذہبی طبقے کا یہ تحفظ اپنی جگہ بالکل بجا بھی ہے کہ دینی علوم و شریعت کا از خود مطالعہ انسان کو دین کا داعی تو بناسکتا ہے لیکن مفتی ہرگز نہیں۔ فتویٰ دینے کے لیے باقاعدہ تحصیلِ علم لازم ہے اور مفتی ہونے کے لیے جو علم و قابلیت درکار ہے، اس کے حصول کے بغیر کسی شخص کو فتویٰ دینے کا حق حاصل نہیں۔تاہم قابلِ غور بات یہ ہے کہ ہمارا یہی مذہبی طبقہ اپنے ذہنی انحطاط کے دور میں داخل ہونے کے بعد خود عصری علوم کے ساتھ یہی مشقِ ستم جاری رکھے ہوا ہے۔ جبکہ بغیر سند رکھے دین پر کلام کرنے والے لوگوں کا مذہبی کتب کا مطالعہ بعض دفعہ سندیافتہ طلبہ سے بھی زیادہ ہوتا ہے جبکہ جو دینی حضرات کھلم کھلا عصری علوم اور سائنسی تحقیقات سے ثابت نتائج پر نقد کررہے ہوتے ہیں، انہوں نے موضوعِ متعلقہ پر شاید کوئی ایک کتاب بھی پڑھ نہیں رکھی ہوتی ہے۔حد تو یہ ہے کہ عصری علوم والے ہود بھائی ہیں جو ہمہ وقت مسلمانوں کی ہر زبوں حالی کو دینی احکامات کی غلط تشریح و تعبیر اور اسلام سے چپکے رہنے سے نتھی کردیتے ہیں جبکہ ہود بھائی کا دین کا علم اتنا ہی ہے جتنا ہمارے ان مشہور محدث و عالم صاحب کا سائنس کا علم ہے جنہوں نے اپنے ایک ویڈیو میں فرمایا تھا کہ ہم سائنس پر پیشاب کرتے ہیں۔ گویا ہود بھائی ہوں یا سائنس پر پیشاب کرنے والے دینی عالم۔۔ اس حد تک تو ایک ہی سکے کے دو رخ نظر آتے ہیں۔

مذہبی طبقے کے بیشتر نہ سہی لیکن ایک معتدبہ تعداد ایسے علماء پر مشتمل ہے جو سائنس یا عصری علوم کابنیادی علم رکھے بغیر سائنس کی ہر تحقیق میں کیڑے نکالنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔ مجھے حیرت اس امر پر ہے کہ ہمارے اہل علم نے خود سے پوچھے جانے والے ہر سوال کا جواب دینا اپنے اوپر لازم کرلیا ہے پھر چاہے ان کو اسکا جواب آتا ہویا نہ  یا اس بابت ان کی تحقیق کافی و شافی ہو یا نہ ہو۔ ہمارے ہاں علماء لاادری (میں نہیں جانتا) کہنا اپنی علمی ہتک سمجھتے ہیں۔ اپنے بچپن میں میں نے کتنی ہی مسجدوں میں دیکھا ہے کہ امام صاحب کسی جدید ایجاد یا سائنس کے حوالے سے پوچھے جانے والے سوال کے جواب میں پوری کوشش کرتے تھے کہ کس طرح سے ممکن ہو اس بابت حرام کا فتویٰ یا اس میں کوئی نقص ثابت کردیا جائے چاہے  ان امام صاحب کو اس  كے متعلق بنیادی عصری علم ہو یا نہ ہو۔

آپ کو اس سلسلے میں ایک مزے کا واقعہ سناتا ہوں۔ ایک مذہبی گروہ میں ٹی وی یعنی ویڈیو کی حلت و حرمت کو لیکر بحث چل نکلی۔ ابتداً اس مذہبی گروہ کے ارکانِ شوریٰ کی اکثریت عالم ہونے کے ساتھ ساتھ کسی قدر عصری پڑھے لکھی اور معتدل مزاج بھی تھی تو فتویٰ یہی آیا کہ ویڈیو پر تصویر کی حرمت کا اطلاق نہیں کیا جاسکتا، پس وہ مباح ہے۔ خیر پھر کچھ یوں ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اسی مذہبی گروہ کی مجلسِ شوریٰ میں نہایت متشدد اوردینی علوم میں ناقص افراد کا زور بڑھ گیا اور پھر یہ فتویٰ صادر کروادیا گیا کہ ویڈیو حرام ہے۔ جب پوچھا گیا کہ اس کی حرمت پر نص کیا ہے تو فرمایا گیا کہ جناب ویڈیو بہت ساری جامد تصویروں کے تیزی کے ساتھ اسکرین پر چلنے سے وجود میں آتی ہے اور جب جاندار کی جامد تصویر حرام ہے تو اسکا مجموعہ تو بدرجہ اولیٰ حرام ہوگا۔ یقین کریں کہ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جامد تصویروں والی بات اگر ۱۹۶۰ء کی دہائی کے کارٹونوں کی بابت کی جاتی تو سمجھ میں بھی آتی۔ الیکٹرون ٹیوب ٹیکنالوجی، ایل سی ڈی، ایل ای ڈی اور ان جیسی جدید ٹیکنالوجیز کے ذریعے جو ویڈیو تشکیل پاتی ہے اس میں جامد تصویروں والا کوئی کانسیپٹ ہی موجود نہیں ہوتا۔دوسری بات یہ عرض ہے کہ متقدم فقہاء کے مابین یہ امر متفقہ ہے کہ اگر کسی چیز کی ہئیت بدل جائے تو اسکا حکم بھی بدل جاتا ہے، اسی کلیہ کے تناظر میں امام مالک نے نمک کی کان میں مرجانے والے کتے کے باقیات کو حلال قرار دیا کہ نمک کی تاثیر سے کتے کی لاش ایک مدت گزرنے کے بعد خودنمک بن جاتی ہے اور پھر اس پر کتے کا حکم نہیں بلکہ نمک کا حکم لاگو ہوتا ہے۔

تو بھائی! اگر ویڈیو جامد تصویروں کے تیزی سے چلانےسے بھی بنے تو اینڈ رزلٹ تصویر نہیں ویڈیو ہے پس اس پر تصویر کا حکم لاگو کرکے اسکو حرام قرار دینا نہ صرف عصری علوم سے ناواقفیت کی دلیل ہے بلکہ دینی علوم میں بھی رسوخ نہ ہونے پر شاہد ہے۔ اگر یہی روش رہی تو ایسے حضرات کو دواؤں کو بھی حرام قرار دیدینا چاہیئے کیونکہ بیشتر دواؤں پر تخلیق کے دوران کیمیائی مراحل سے گزرتے ہوئے بارہا ایسا وقت بھی آتا ہے کہ جب وہ اپنی خام حالت میں زہر ہوتی ہیں۔ اور بعدازاں کیمیائی مراحل کی تکمیل کے بعد ہی ان کی زہر کی خاصیت مفقود ہوکر دوائی جیسی موثر و صحت بخشنے والی شے وجود میں آتی ہے۔ پس زہر حرام ہوا تو دوا بھی حرام ہوجانی چاہیئے کیونکہ کبھی نہ کبھی اپنی تخلیق کے دوران وہ زہر تھی۔

جب سے اجتہاد کا دروازہ بند ہوا اور مسلم معاشرہ اپنے ذہنی انحطاط کے دور میں داخل ہوا تب سے ہم نے مذہب اورسائنس کو ایک دوسرے کا معاون یا ساتھ ساتھ چلنے والے دو علوم و نظریات سمجھنے کے بجائے ان کو ایک دوسرے کا حریف قرار دیدیا ہے اور ہر سہ فریق کے پیروکاروں کی بس یہی کوشش ہوتی ہے کہ دوسرے میں کوئی نقص یا عیب نکال دیں پھر چاہے یہ حضرات متعلقہ علوم کی ابجد سے بھی واقف نہ ہوں۔جبکہ مذہب کا ماخذ وحی ہے جو منبع علم ہے اور سائنس بھی اسی علم کی ایک شاخ ہے۔ مذہب الہامی ہوتا ہے جبکہ سائنس یا عصری علوم انسان کی سوچ و فکر کے ارتقاء، مشاہدات، تجربات ، تحقیقات اورامتحانات سے گزرنے کے بعدکے نتائج کے پروردہ ہوتے ہیں۔پس جب تک انسانی عقل اپنے مشاہدات و تجربات اور تحقیقات کے ضمن میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ارتقاء کرتی جائے گی، تب تب سائنس اور عصری علوم اپنی کاملیت کی طرف گامزن ہوتے جائیں گے۔ کسی چیز کا کاملیت کی طرف سفر اس کی ایجابیت و خوبی پر دال ہے نا کہ اس کے نقص پر۔

مذہب ہمیں بتاتا ہےکہ اس دنیا میں انسان کو اللہ کے حکم کے تابع رہنے کے لیے کیا اعتقادی، نظریاتی اور عملی شرائط پوری کرنی ہیں؟ جبکہ عصری علوم اور سائنس ہمیں وہ سہولت کاری مہیا کرتے ہیں جن کے ذریعے ہم اپنے زندگی کے اس سفر کو نہ صرف آسان بناتے ہیں بلکہ اس سہولتکاری میں روز افزوں اضافہ بھی کرتے جاتے ہیں۔ تاکہ نسلِ انسانی کی بقا اور افزائش کا سلسلہ آسانی کے ساتھ رہتی دنیا تک چلتا رہے۔پس یہ ممکن ہی نہیں کہ سائنس و مذہب میں کوئی بیر یا تناقص ہو۔ سائنس کا دائرہ عمل بالکل الگ ہے اورمذہب کا دائرہ عمل بالکل جداگانہ۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے کوئی تعارض بنتا ہی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ جو بات کہی جاسکتی ہے کہ وہ یہ ہے کہ مذہب کی بیان کی گئی بعض باتوں تک سائنس کی رسائی اور تحقیق ابھی تک ارتقاء پذیر ہے جبکہ بعض باتوں کو سائنس نے بھی سندِ جواز فراہم کردی ہے۔ ایسے میں کسی بھی معاملے کو لیکر مذہبی طبقے کا سائنس یا عصری علوم کی مقابلے بازی پر اترآنا اور اسکو نیچا دکھانے کے لیے فقہی موشگافیوں کے خیالی گھوڑے دوڑانا، جامد و انحطاط پذیر ذہنیت کی علامت ہے۔ مذہب مبنی بر وحی ہونے کے سبب کامل و مکمل ہے جبکہ جب تک یہ دنیا رہے گی سائنس اور عصری علوم ترقی کرتے رہیں گے۔

شریعت کا متفقہ اصول ہے کہ حالات و ظروف کی تبدیلی سے احکام بھی تبدیل ہوجاتے ہیں اور حالات و ظروف بدلنے کی ایک بہت بڑی اور دیرپا وجہ نت نئی ایجادات اور عصری علوم کی مسلسل ترقی ہے۔پس ہمیں فکری انحطاط کے دور میں پروان چڑھنے والی اس ذہنیت سے باھر آنا پڑے گا جہاں بیشتر جدید سائنسی ایجادات یا خیالات کے لیے ہمارے اہل علم کے پاس "حرام" اور "نہ" کی گردان ہوتی ہے اور کچھ عرصہ گزرتا نہیں کہ جب یہی ایجادات معاشرے میں اس قدر رچ بس جاتی ہے کہ کل تک جس کو "شیطان کی آواز یا دھوکے کی آواز" کہہ کر مسجدوں میں لانے سے روکا گیا، آج اس کے بغیر شاید ہی کسی مسجد کا وجود ہو۔ تو بہت مناسب ہے کہ مذہبی ہو یا دنیوی تعلیم یافتہ طبقہ، ہر دو طبقے اپنے اپنے دائرہ عمل میں فتویٰ دینے کا کام کریں تو بہتر ہے۔ اور ساتھ یہ بھی کوشش کریں کہ کسی مسئلے كے بارے ميں  عجلت میں فتویٰ صادر کرنے کے بجائے اس سلسلے میں تمام متعلقہ بنیادی علوم میں رسوخ یا کم از کم راسخ مطالعہ پیدا کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ کیا جائے۔

اس سلسلے میں اسلام قیو اے ویب سائٹ جو سعودی سلفی عالم صالح المنجد کے فتاویٰ پر مشتمل اور ان کے زیر نگرانی چل رہی ہے، نے نہایت ہی عمدہ مثال قائم کی کہ جب ان سے بٹ کوائن کی بابت سوال کیا گیا تو بجائے اس کو کلیتاً حرام قرار دینے کے، فقط یہ کہہ دیا گیا کہ "اس کرنسی کا ماخذ و مصدر فی الحال نامعلوم ہے اور یہ کرنسی پراسراریت، مسائل، ڈر اور خطروں سے گھری محسوس ہوتی ہے۔ پس ہم آپ کو مشورہ نہیں دیں گے کہ آپ اس کرنسی میں اس وقت تک انویسٹ کریں جب تک اس کی حقیقی صورت واضح نہ ہوجائے اور یہ معلوم چل جائے کہ اس کا ماخذ و مصدر کون ہے۔ ابھی تک ہمارے اوپر اس کرنسی کی حقیقی صورتحال واضح نہیں ہے، پس ہم اس بابت کوئی بھی فتویٰ دینے سے قاصر ہیں"۔(فتویٰ نمبر ۳۶۰۶۸۸)

یہ ہے کہ وہ باریک و مہین لکیر جو عصری علوم اور دینی علوم کو ایک دوسرے سے جدا بھی کرتی ہے اور ان کو ساتھ ساتھ چلاتی بھی ہے اور ہمارے اہل علم کو اسی لکیر کی حساسیت کا خیال کرتے ہوئے سائنس و مذہب کے باہمی تعلق کو دیکھنے اور اس سلسلے میں فتویٰ سازی کرنے کی ضرورت ہے۔