خدا قادر مطلق ہے تو شر اور ظلم كيوں

مصنف : ڈاکٹر طفیل ہاشمی

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : فروری 2025

دين و دانش

خدا قادر مطلق ہے تو شر اور ظلم كيوں

طفيل ہاشمی

ملحدین کا یہ اعتراض کہ اگر خدا ہے اور وہ رحمان و رحیم ہے اور قادر مطلق بھی تو دنیا میں اتنا ظلم، بربریت، غربت، بیماری افلاس، کیوں ہے اس اعتراض یعنی problem of evil کا تفصیلی جواب :

مسئلہ شر (Problem of Evil) اور اس کا مدلل جواب

یہ سوال فلسفہ، الہیات اور عقلیات میں ایک دیرینہ بحث ہے جس میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اگر خدا موجود ہے، وہ قادرِ مطلق (Omnipotent)، علیم(Omniscient) اور رحمان و رحیم (Benevolent) ہے، تو پھر دنیا میں ظلم، مصیبت، بیماری، افلاس اور دیگر برائیاں کیوں ہیں؟

جواب کا بنیادی خاکہ:

1. شر کی حقیقت--2. انسانی اختیار اور آزمائش--3. شر کا ایک وسیع تر مقصد--4. آخرت کی حقیقت اور عدلِ کامل--5. خیر و شر کا نسبتی (Relative) ہونا--6. خدا کی حکمت اور انسانی محدود عقل-----

1. شر کی حقیقت:

سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ "شر" (Evil) کا وجود بذاتِ خود مستقل نہیں، بلکہ یہ عدمِ خیر (Absence of Good) یا کسی مقصد کا ایک جزو ہے۔ دنیا میں جو تکالیف اور مصائب نظر آتے ہیں، وہ کئی صورتوں میں ہوتے ہیں:

طبعی شر (Natural Evil): جیسے زلزلے، طوفان، بیماری وغیرہ۔

اخلاقی شر (Moral Evil): جیسے ظلم، ناانصافی، جنگیں وغیرہ، جو انسان کے اعمال کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:> "الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا"

(الملک: 2)ترجمہ: وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرتا ہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ دنیا کا یہ نظام آزمائش کے اصول پر قائم ہے-

2. انسانی اختیار اور آزمائش:

اگر دنیا میں کوئی تکلیف نہ ہو، کوئی مشکل نہ ہو، تو انسان کو اچھے اور برے عمل کا اختیار دینے کا کوئی مطلب نہیں رہتا۔ خدا نے انسان کو آزاد ارادہ (Free Will) دیا ہے تاکہ وہ خود نیکی اور بدی میں فرق کر سکے۔اگر ہر برائی کے بعد فوراً سزا ملنے لگے یا ہر اچھے کام پر فوراً جزا ملنے لگے، تو پھر امتحان کا کوئی معنی نہیں رہے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو ایک دار الامتحان (Test) بنایا ہے اور آخرت میں مکمل انصاف ہوگا۔

> "وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ ۖ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُرْ"(الکہف: 29)

ترجمہ: اور کہہ دو کہ حق تمہارے رب کی طرف سے ہے، پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے کفر کرے۔یہی آزادیِ ارادہ، دنیا میں خیر و شر کے وجود کا سبب ہے۔

---3. شر کا ایک وسیع تر مقصد:

ہم دنیا کو محدود نظر سے دیکھتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کا علم غیر محدود ہے۔ جو چیز بظاہر شر (Evil) لگتی ہے، وہ درحقیقت خیر (Good) کا باعث بن سکتی ہے۔ مثال کے طور پر:

کسی بیماری کے نتیجے میں انسان عاجزی اختیار کرتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔

قدرتی آفات کے نتیجے میں لوگوں میں ہمدردی، بھائی چارہ اور ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

کئی آزمائشیں انسان کے صبر و حوصلے کو بڑھاتی ہیں اور اسے مزید بہتر بناتی ہیں۔

قرآن میں فرمایا گیا:> "وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَعَسَىٰ أَن تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ(البقرہ: 216)ترجمہ: اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو جبکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہو، اور ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو پسند کرو جبکہ وہ تمہارے لیے نقصان دہ ہو، اور اللہ جانتا ہے جبکہ تم نہیں جانتے۔

4. آخرت کی حقیقت اور عدلِ کامل:

دنیا میں ظلم و بربریت کے مکمل انصاف کی توقع رکھنا ایک بڑی غلط فہمی ہے، کیونکہ یہ دنیا انصاف کے لیے نہیں، بلکہ آزمائش کے لیے بنی ہے۔عدلِ کامل صرف آخرت میں ہوگا، جہاں ہر نیک عمل کا بدلہ دیا جائے گا اور ہر ظالم اپنے ظلم کا حساب دے گا۔> "أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا ٱلْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُم مَّثَلُ ٱلَّذِينَ خَلَوْا۟ مِن قَبْلِكُم ۖ مَّسَّتْهُمُ ٱلْبَأْسَآءُ وَٱلضَّرَّآءُو َزُلْزِلُوا۟ حَتَّىٰ يَقُولَ ٱلرَّسُولُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ مَعَهُۥ مَتَىٰ نَصْرُ ٱللَّهِ ۗ أَلَآ إِنَّ نَصْرَ ٱللَّهِ قَرِيب ٌ(البقرہ: 214)ترجمہ: کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں داخل ہو جاؤ گے، حالانکہ تمہیں وہ (آزمائشیں) پیش نہیں آئیں جو تم سے پہلے لوگوں کو پیش آئیں؟ ان پر سختیاں اور مصیبتیں آئیں اور وہ ہلا ڈالے گئے۔ یہاں تک کہ رسول اور ان کے ساتھ ایمان لانے والے پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟ خبردار! بے شک اللہ کی مدد قریب ہے۔

5. خیر و شر کا نسبتی (Relative) ہونا:

بعض اوقات جو چیز ایک شخص کے لیے نقصان دہ دکھائی دیتی ہے، وہ کسی اور کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پرزلزلے اور آتش فشاں زمین کی تشکیل اور زرخیزی میں مدد دیتے ہیں۔بیماریوں کے خلاف مدافعتی نظام کو مضبوط کرنے کے لیے جراثیم ضروری ہوتے ہیں۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بظاہر شر (Evil) نظر آنے والی چیزیں بھی ایک وسیع تر حکمت کے تحت وقوع پذیر ہوتی ہیں۔

6. خدا کی حکمت اور انسانی محدود عقل:

انسان کی عقل محدود ہے، اور وہ خدا کی حکمت کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا۔> "وَمَا أُوتِيتُم مِّنَ ٱلْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا"(الاسراء: 85)ترجمہ: اور تمہیں علم میں سے بہت تھوڑا ہی دیا گیا ہے۔جیسے ایک بچہ ڈاکٹر کے دیے گئے ٹیکے کو بظاہر تکلیف دہ سمجھتا ہے، لیکن حقیقت میں وہی اس کے حق میں بہتر ہوتا ہے، اسی طرح بعض آزمائشیں اور مشکلات درحقیقت انسان کے لیے خیر کا ذریعہ بنتی ہیں۔

نتیجہ:

1. شر کا وجود آزمائش اور اختیار کا لازمی تقاضا ہے۔

2. دنیا میں مکمل انصاف کی توقع رکھنا غلط ہے، یہ انصاف آخرت میں ہوگا۔

3. بظاہر شر کی شکل میں خیر بھی پوشیدہ ہو سکتا ہے۔

4. انسان کی عقل محدود ہے، اور وہ خدا کی حکمت کو مکمل طور پر نہیں سمجھ سکتا۔

لہٰذا، "مسئلہ شر" حقیقت میں خدا کی غیر موجودگی کا ثبوت نہیں بلکہ اس کے عدل، حکمت اور رحمت کا ایک پہلو ہے، جو مکمل طور پر صرف آخرت میں واضح ہوگا۔