فكر ونظر
تعصب و تنگ نظری كا نقصان
محمد فہد حارث
دینی علوم سے متعلقہ کتب کے مطالعہ کا باقاعدہ آغاز تو ۱۹۹۸ء میں ہی شروع ہوگیا تھا اور حال یہ تھا کہ صرف دو سال کے عرصہ میں اچھی خاصی کتب پڑھ ڈالی تھیں، تاہم مولانا وحید الدین خان سے میری پہلی باقاعدہ شناسائی ۲۰۱۳ء کے آواخر میں ہوئی تھی جب ان سے متعلق حافظ محمد زبیر کی کتاب "مولانا وحید الدین خان کے افکار و نظریات" پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا۔
اس سے قبل مولانا وحید الدین کی بابت بس یہی ہلکی پھلکی معلومات تھی کہ مولانا وحید الدین خان جماعتِ اسلامی کے سرگرم کارکن رہنے کے بعد فکری اختلاف ہوجانے پر اس سے علیحدہ ہوگئے تھے اور اپنے اس فکری اختلاف کی علمی وجوہات کے ضمن میں انہوں نے "تعبیر کی غلطی" نامی کتاب تحریر کرکے سید مودودی کے نظریہ سیاست پر نقد کیا تھا۔
پس مولانا وحید الدین خان کی بابت میری کوئی مثبت یا منفی کوئی رائے نہ تھی۔ اور پھر "تعبیر کی غلطی" تالیف کرنے کے جرم میں کبھی ان کی کتب پڑھنے کی طرف طبیعت بھی مائل نہ ہوسکی تھی۔ ایسے میں "مولانا وحید الدین خان کے افکار و نظریات" پر حافظ محمد زبیر صاحب کی کتاب کا مطالعہ کیا تو دل و دماغ میں یہ بات شدت سے بیٹھ گئی کہ مولانا وحید الدین خان نہ صرف منکر قرآن و منکر حدیث ہیں بلکہ ان کا ارادہ تو مہدویت کے دعوی کا بھی معلوم ہوتا تھا۔
پس یہ سمجھ لیجئے کہ مولانا وحید الدین خان کے "فتنہ" ہونے کی بابت شرح صدر ہوگیا اور اس پر مہر تصدیق مزید موقع بہ موقع ثبت ہوتی گئی جب غیر مسلموں کی طرف سے توہین قرآن و توہین رسالت کے واقعات پر مسلمانوں کے جارحانہ و احتجاجی رد عمل پر مولانا کو ساری نصیحتیں صرف مسلمانوں کو کرتے دیکھتا۔ ایسے میں دل ہی دل میں ان کو مغربی استعمار کا ایجنٹ بھی قرار دیدیا جن کی تصنیف و تالیف و بیانات کا مقصد کچھ نہیں محض مسلمانوں کو اسلامی شعار و تعلیمات سے متعلق بے حس بنانا ہے تاکہ ان کی دینی حمیت سدا کے لیے مرجائے۔
پھر کچھ ایسا ہوا کہ کورونا کے بعد پاکستان جانا ہوا تو اپنی سب سے چھوٹی بھانجی جس کی عمر اس وقت ۱۷۔۱۸ سال رہی ہوگی کے ساتھ کچھ گفت و شنید ہوئی تو اس نے بتایا کہ مختلف موضوعات پر انگریزی میں لکھی کتب کے مطالعہ کے بعد اس پر ایک وقت ایسا بھی آیا تھا کہ اللہ، رسول، دین، کتاب سب سے متعلق اس کے ذہن میں شکوک و شبہات وارد ہونے لگے تھے اور اسکا ذہن اس بات کو ماننے پر آمادہ ہوتا جارہا تھا کہ خدا کا تصویر قدیم زمانے کے انسانوں کی دقیانوسی سوچ کا مظہر ہے جو محض اس لیے تخلیق کیا گیا تھا کہ معاشرے کے ایک طبقہ یعنی پروہت و احبار حضرات کی اجارہ داری لوگوں پر قائم رہے اور وہ خدا کے نام پر اپنا کاروبار چلائے رکھیں۔
اسی طرح جب خدا کا وجود ہی مشکوک ٹھہرگیا تو پھر قرآن کہاں سے منزل من اللہ ہوسکتا تھا، وہ بھی پراگندہ سوچوں میں کلام محمد بن عبداللہ ٹھہرا۔ چونکہ ہمارے معاشرے میں دین سے متعلق سوالات کرنے کی ہمیشہ حوصلہ شکنی کی جاتی رہی ہے بالخصوص وہ سوالات جو تحت الشعور میں کلبلاتے الحاد کی سہولتکاری کررہے ہوتے ہیں، ہمارے ہاں ان کو گستاخی رب و رسول باور کروا کر اس پر ایکسٹریم ری ایکشن دیا جاتا ہے، پس بچوں کی ہمت ہی نہیں ہوتی کہ وہ ذہن میں کلبلاتے ان سوالات کا ذکر بڑوں سے کریں کہ وہاں سے بات سمجھانے کے بجائے سوالات "نہ سوچنے" کی تنبیہ کی جائے گی کیونکہ ایسے خیالات "ک ف ریہ" جو ہوتے ہیں۔
خیر آمدم برسر مطلب! بھانجی نے بھی اپنے ذہن کی اس پراگندہ خیالی کا ذکر کسی بڑے سے نہ کیا کہ بلا وجہ ڈانٹ سننے کو ملے گی اور فتویٰ الگ لگ جائے گا۔ ایسے میں وہ کافی پریشان رہتی تھی تو اس نے اس بات کا ذکر اپنی ایک دوست سے کیا۔ بھانجی کی دوست نے اس کو مولانا وحید الدین خان کی کتب پڑھنے کا مشورہ دیا اور قسمت کی خوبی دیکھیے کہ مولانا کی کتب کے انگریزی تراجم بھی موجود تھے پس بھانجی نے "مذہب اور جدید چیلنج" سے لیکر "عقلیاتِ اسلام" اور مولانا کی دیگر کئی پڑھ ڈالیں۔
بھانجی کا کہنا تھا کہ جیسے جیسے وہ مولانا وحید الدین خان کی کتب پڑھتی جاتی، اس کے ذہن سے اللہ، رسول، دین، کتاب سے متعلق ہر غلط فہمی رفع ہوتی جاتی۔ بقول اس کے مولانا نے اس قدر ٹھوس علمی اور عقلی بنیادوں پر مذہب کا مقدمہ پیش کیا ہے کہ ان کی اس طور کی کتابیں ہمارے کالجز اور یونیورسٹیز کے نصاب میں شامل ہونی چاہیئے جہاں اس وقت الحاد اور دین بیزاری اپنے عروج پر نظر آتی ہے۔
مولانا وحید الدین خان کی بابت بھانجی کا یہ تبصرہ سن کر مجھے تھوڑا جھٹکا لگا کہ کہیں یہ "فتنہ پرور شخص" میری بھانجی کا ذہن اپنی لچھے دار تحریروں سے مسموم نہ کردے۔ پس سوچا کہ دل پر جبر کرکے مولانا کو پڑھنا شروع کرتے ہیں۔
بس یقین جانئے کہ مولانا وحید الدین خان کی ایک کے بعد ایک کتاب پڑھتا گیا اور ان کے لیے دل سے دعائیں نکلتی گئیں۔ ان کے نظریات و افکار اور کئی اپروچز سے اختلاف ہنوز برقرار رہا لیکن دل میں ان کے لیے جو سوء ظن تھا وہ کلیتاً رفع ہوگیا۔
اس تجربے سے مجھے ایک چیز کا نہایت شدت سے احساس ہوا کہ ہر عالم کا ایک علمی، فکری، تالیفی مزاج ہوتا ہے۔ جس کو صرف وہی قاری سمجھ سکتا ہے جو اس عالم کی کتب کو پہلے سے کوئی ذہن بنائے بالاستیعاب پڑھ چکا ہو۔ جیسے جیسے آپ عالم کو پڑھتے جاتے ہیں، آپ اس کے مزاج شناسا ہوتے جاتے ہیں اور پھر آپ کو اس عالم کے نظریات، افکار اور اس کی دینی اپروچ کو درست سمجھنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔
البتہ جو لوگ تعصب کے سبب محض تنقید کی عینک لگا کر کسی عالم کی کتابوں کی سرسری ورق گردانی کرتے ہیں، وہ اس عالم کے علمی مزاج سے آشنا ہی نہیں ہوتے اور اسی سبب ان کو اس عالم کی عبارات میں قرآن و حدیث کا انکار، توہین انبیاء، گستاخی صحابہ و اولیاء نظر آجاتی ہے۔ ان شاءاللہ کبھی دل ہوا تو مثالوں سے اس بات کو سمجھاؤنگا کہ کیسے ہمارے تنقید نگاروں نے اپنے مخالف اور ہم مسلک ہر دو اہل علم کے علمی مزاج کو سمجھے بغیر ان پر غلط تنقیدیں کی ہے۔
اس بات کا اندازہ مجھے اس وقت بھی ہوا تھا جب ایک زمانے میں فیس بک کے کچھ اوباش نوجوان اور چند ایک متشدد عالم اور ان کے پیروکار ماضی قریب کے ایک عالم کو ناصب ی ثابت کرنے پر پورا زور لگائے ہوتے تھے اور اس کام کے لیے وہ اس عالم کی کتابوں سے ایسے ایسے بودے اعتراضات نکال کر لاتے تھے کہ میں پہلی فرصت میں سمجھ جاتا تھا کہ محض تنقید کرنے کے لیے بیچ بیچ میں سے کتاب کھول کر جہاں کوئی بات اپنے علمی مزاج کے تحت غلط محسوس ہوتی اسکو گستاخانہ قرار دیکر نشر کیا جارہا ہے۔ جبکہ اس عبارت میں گستاخانہ کوئی بات ہوتی ہی نہ تھی بلکہ محض مولف کے علمی مزاج سے نا آشنا ہونے کے سبب ان حضرات کو یہ غلط فہمی لاحق ہوجاتی تھی۔ اور مجھے ان ناقدین پر مزید ہنسی آتی تھی کیونکہ یہ جن عالم صاحب پر فتویٰ لگانے کے لیے اتنی محنت کررہے تھے، ان عالم کی تمام کتابیں مجھے تقریباً ازبر تھیں اور یقین جانئے کہ ان کتابوں میں جو اصل قابلِ اعتراض مواد تھا، اس تک یہ کبھی پہنچ ہی نہ پاتے تھے کیونکہ اصل مقصود تو محض تنقید کرنا تھا، اس کے لیے پوری کتاب پڑھنے کی مصیبت کون مول لے۔ البتہ اگر مجھ سے کہتے تو میں وہ تمام قابلِ اعتراض مواد خود ہی پیش کیے دیتا۔
خیر بات کہیں سے کہیں اور چلی گئی۔ کہنا کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے علمی زوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری تنقید میں علم سے زیادہ تعصب کارفرما ہوتا ہے اور جہاں ہم Defame Tactic کا استعمال کرکے تنقید شروع کرنے سے قبل ہی قاری کے دماغ میں جس پر تنقید کی جارہی ہوتی ہے، اسکا ایک نیگیٹیو امیج بنادیتے تھے، تاکہ تنقید نگار کی تنقید میں اگر کہیں دلائل کی کمی رہ جائے تو Defame Tactic سے اس کی بھرپائی کی جاسکے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ میرے دوست کے ایک آفس کولیگز کو بھی الحاد والی ان سوچوں کا سامنا تھا اور اس کو تو یہ مسئلہ اس قدر زیادہ تھا کہ وہ ڈپریشن میں جانے لگا تھا، پھر ایک دن اسکا مجھے فون آیا کہ فھد بھائی میں اس سلسلے میں کیا کروں۔ سچ تو یہ ہے کہ میرے پاس اس کے تیڑھے میڑھے سوالوں کا کوئی جواب نہ تھا، لیکن اسی وقت میرے ذہن میں بھانجی والا قصہ گھوم گیا، میں نے ان صاحب کو مشورہ دیا کہ آپ مولانا وحید الدین خان کی کتب کا مطالعہ کریں، ان شاءاللہ سوچوں سے نجات مل جائے گی۔ ایک سال بعد ان صاحب کا پھر فون آیا تو مولانا وحید الدین خان کو بہت دعائیں دے رہے تھے کہ ان کی کتابوں نے مجھے ملحد ہونے سے بچالیا۔
پس کسی بھی اہل علم کو مجسم ابلیس بنانے سے قبل اس کی ان علمی خدمات کو دیکھ لیا کیجئے جن سے کئی مسلمانوں کی زندگیوں میں مثبت اثرات مرتب ہوئے اور وہ الحاد، شرک، بدعات اور دیگر خرافات کے دلدل سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ باقی کچھ کام اللہ پر بھی چھوڑنے دینے چاہیئے۔ اہل تشیع نے تو فقط سیدنا علیؓ کو جنت و دوزخ کی تقسیم کی ذمہ داری سونپی ہوئی ہے جبکہ ہمارے اہلسنت میں تو ہر گاؤں محلے کی مسجد کا امام جنت و دوزخ تقسیم کررہا ہوتا ہے۔ اب اس سے زیادہ "سیدنا علی کی توہین" کیا ہوگی بھلا۔ جہاں تک بات رہی اللہ کی توہین کی تو اس کی خیر ہے کیونکہ امتِ مسلمہ کے ہاں سب کا وقار ہے، سب کی عزت ہے، بس نہیں ہے تو اللہ کا وقار اور اس کی عزت نہیں ہے۔ جو حساسیت اس امت مسلمہ میں رسول، صحابہ، آلِ علی، ائمہ محدثین و فقہاء وغیرہ کے لیے نظر آتی ہے، اس کا عشر عشیر بھی اللہ کے لیے دیکھنے کو نہیں ملتی۔ وہی مشرکین مکہ والا حال ہے کہ اللہ کے حصوں میں سے اپنے شریک کردہ معبودوں کا حصہ لگاتے جاتے ہیں اور ان شریک کردہ معبودوں کے حصے میں سے ایک دانہ بھی اللہ کے حصہ میں منتقل نہیں کرتے۔