حدیث منارہ پر ایک تحقیقی رپورٹ

مصنف : محمد انيس

سلسلہ : فکر و نظر

شمارہ : نومبر 2024

فكر ونظر

حدیث منارہ پر ایک تحقیقی رپورٹ

محمدانيس

جو اصحاب مطالعہ حدیث میں تحقیقی ذوق رکھتے ہیں ، ان کے غورو خوض کیلئے میں یہاں حدیث منارہ پر چند گزارشات پیش کرونگا ۔ یہ حدیث ذرا طویل ہے ۔ یہاں میں اس حدیث کا صرف وہ حصہ پیش کررہا ہوں جس پر تحقیق مقصود ہے ۔ حدیث کا وہ حصہ یہ ہے

" حضرت عیسیٰ علیہ السلام زرد رنگ کے کپڑوں میں ملبوس ہوکر دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر مشرقی دمشق کے سفید منارہ پر اتریں گے "

یہ حدیث صحیح بخاری کو چھوڑ کر صحاحِ ستہ کی بقیہ کتابوں میں ایک ہی طرح سے درج ہے۔ کثرت نقل اور عجوبہ پن کی وجہ سے یہ حدیث ہمارے یہاں بہت معروف بھی ہے ۔ قادیانی تحریروں میں اکثر ‌اس حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے، کیونکہ مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تھا ۔ لیکن امام بخاری نے اپنی چار ہزار حدیثوں کے انتخاب میں اس حدیث کو شامل نہیں کیا ہے۔

اس حدیث میں دمشق کے مشرقی‌حصے کے منارہ پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے کا ذکر ہے ۔‌ میں یہاں اس حدیث کی روایت ( سند) پر نہیں بلکہ درایت ( متن ) پر چند باتیں عرض کرونگا۔

١. تحقیق کے ذریعے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ عہد نبوی اور خلافت راشدہ کی پوری مدت کے دوران  ميں مسجدوں میں منارہ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بلکہ اس وقت معلوم دنیا میں کہیں کوئی منارہ (minaret ) موجود ہی نہیں تھا ۔ ایسے میں شام کے کسی منارہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اترنے کی روایات کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب کرنا بڑا خلجان پیدا کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدینے میں لکھی گئی حدیث کی معروف کتاب ' مؤطا امام مالک ' میں منارہ والی کسی روایت کا ذکر نہیں پایا جاتا۔ عہد نبوی میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی۔ حضرت بلال بعض اوقات بنونجار کی ایک خاتون کے بلند گھر کی چھت پر چڑھ کر اذان دیتے تھے۔ مسجدوں میں منارہ کا تو کوئی سوال ہی نہیں تھا ۔

٢. عرب دنیا میں منارہ والی جو پہلی مسجد بنائی گئی ، وہ دمشق میں بنائی گئی ۔‌اس عظیم الشان مسجد کی تعمیر اموی خلیفہ نے نو (٩) سال کی مدت میں مکمل کی۔ لیکن اس وقت اس مسجد میں منارہ نہیں تھا ۔پھر جب عباسیوں کا دور ( 238- 128 ہجری) آیا تو اسی عظیم الشان مسجد میں پہلی بار منارہ کی تعمیر ہوئی۔ منارہ والی اس مسجد کی شہرت دور دور تک پھیلی ۔ یہاں غور طلب امر یہ ہے کہ صحاحِ ستہ کی تمام کتابیں اس منارے والی مسجد کی تعمیر کے بعد لکھی گئیں۔ اس لئے خاص طور پر اسی مسجد اور اس کے منارے کا ذکر ان کتابوں میں موجود ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسی منارہ سے ہوکر آسمان سے اتریں گے - یاد رہے صحاحِ ستہ کے محدثین کی سرگرمیوں کا مرکز بھی دمشق اور بغداد ہی تھا ۔‌ لیکن اس ‌منارے والی مسجد کی تعمیر سے قبل لکھی گئی کتاب 'مؤطا امام مالک' میں منارے والی حدیث کا تذکرہ نہیں پایا جاتا۔‌ بلکہ امام مالک نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق کسی حدیث کو اپنی کتاب میں جگہ نہیں دی ۔‌ غور کیجئے، دمشق کے منارے کی تعمیر کے بعد لکھی گئی حدیثوں میں تو اس منارے کا ذکر موجود ہے 'لیکن منارے کی تعمیر سے پہلے لکھی گئی کسی حدیث میں اس کا ذکر نہیں۔ ہے نا یہ حیرت میں ڈالنے والی بات ۔

٣. ہوسکتا ہے منارہ والی روایت کسی نہ کسی طور پر عیسائی روایات کو دیکھ کر ہمارے یہاں فرض کی گئی ہو' کیونکہ وہاں بھی صراحت کے ساتھ حضرت مسیح کے بادلوں کے درمیان سے نزول کا تذکرہ موجود ہے ۔ ملاحظہ ہو عہدنامہ جدید کے یہ ورسیز۔

“At that time people will see the Son of Man coming in clouds with great power and glory"(Mark 13:26)

Then will appear in heaven the sign of the Son of Man, and then all the tribes of the earth will mourn, and they will see the Son of Man coming on the clouds of heaven with power and great glory. " (Matthew 24: 30), refer also- Revelation 1:7

٤. کسی بھی ذریعہ سے معلوم کرلیجئے، سچ یہی نکلےگا کہ عہد نبوی میں منارہ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جس چیز کا تصور نہیں تھا اس کے بارے میں رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں ارشاد فرمائیں گے۔‌ اور لوگ کیا مراد لیں گے۔ میری معلومات کی حد تک ، پورے قرآن میں بھی لفظ منارہ کا استعمال نہیں ہوا ہے۔ صحیح بخاری بھی‌اس لفظ سے خالی ہے ۔ ان وجوہ سے حدیث منارہ کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا اور اسے قول رسول بتانا درست معلوم نہیں ہوتا۔

٤. یہ حدیث منارہ ابوداؤد کی اس روایت سے بھی متصادم ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تم حضرت مسیح کو ان کے درمیانی قد، گورے رنگ اور زرد کپڑوں سے پہچان لوگے ( حدیث نمبر4324) ۔ مولانا وحیدالدین خاں نے لکھا ہے کہ "اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے دو فرشتوں کے ساتھ مقررہ منارہ پہ نزول فرمائیں گے تو یہ نظارہ تو از خود اتنا عجوبہ ہوگا کہ کسی دوسرے ذرائع سے موصوف کو پہچاننے کی ضرورت ہی نہیں پیش آئےگی ۔‌ ہر آدمی بلا اعلان ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو پہچان لے گا "۔ اگر حضرت عیسیٰ کو ان کے قدو قامت، رنگ ڈھنگ اور کپڑوں سے پہچاناجائے گا تو حضرت موصوف کے معجزانہ نزول کا کیا مطلب ؟