دين و دانش
عہد رسالت ، اختلاط مردوزن اور ہمارا معاشرہ
ڈاكٹر عمار خان ناصر
عہد رسالت میں مرد و زن کا اختلاط
شارع علیہ السلام نے جب اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اس کو ایک "ترجیح" قرار دیا کہ خواتین مذہبی اور سماجی سرگرمیوں کا حصہ بنیں اور ان کے لیے مسجد میں مردوں کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کا انتظام کیا جائے تو پھر صنفی اختلاط کے ناگزیر مضمرات کو اس کے لیے "بہانہ"یا جواز نہیں بنایا کہ ان سے یہ حق قانونی یا شرعی طور پر سلب کر لیا جائے۔ بلکہ یہی سکھایا ہے کہ تعلیم وتلقین اور ممکنہ احتیاط کے مختلف طریقے اختیار کیے جائیں۔ شارع کی اس حکمت عملی کو چند روایات کی روشنی میں دیکھیے۔
1۔ آپ سلام پھیرنے کے بعد تھوڑی دیر اپنی جگہ بیٹھے رہتے تھے جس کا مقصد یہ ہوتا تھا کہ پچھلی صفوں سے خواتین مردوں سے پہلے اٹھ کر مسجد کے دروازے سے نکل جائیں۔
2۔ خواتین کو ہدایت فرمائی گئی کہ وہ مسجد میں خوشبو وغیرہ لگا کر (یا شوخ لباس پہن کر) نہ آیا کریں۔
3۔ ہجرت کے ابتدائی زمانے میں بہت سے صحابہ کے پاس پورا لباس نہیں ہوتا تھا اور سجدے میں اس کا امکان ہوتا تھا کہ کچھ برہنگی کی کیفیت پیدا ہو جائے۔ آپ نے خواتین کو ہدایت فرمائی کہ وہ سجدے سے سر اٹھاتے ہوئے توقف سے کام لیں اور جلدی سر نہ اٹھائیں تاکہ اگلی صف میں مردوں کی برہنگی ان کو نظر نہ آئے۔ اسی تناظر میں آپ نے فرمایا کہ مردوں کی بہترین صفیں اگلی صفیں اور سب سے بری صفیں پچھلی صفیں ہیں، جبکہ عورتوں کی صفوں کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔
4۔ ایک بہت خوبرو خاتون مسجد میں نماز پڑھنے آتی تھی تو ظاہر ہے، مردوں کی بھی اس پر نظر پڑتی تھی۔ جو محتاط اور تربیت یافتہ صحابہ تھے، وہ اگلی صفوں میں کھڑا ہونے کا اہتمام کرتے تھے، لیکن بعض ناپختہ نوجوان بھی ہوں گے جو پچھلی صف میں عورتوں کے قریب کھڑا ہوتے تھے تاکہ خاتون پر نظر ڈال سکیں۔ (گزشتہ روایت میں مردوں اور عورتوں کی صفوں کے متعلق جو تبصرہ نقل کیا گیا، غالباً اس کا پس منظر اس نوعیت کے معاملات بھی ہوں گے)۔
5۔ ایک آدھ ایسا واقعہ بھی ہوا کہ (غالباً فجر کے اندھیرے میں) نماز کے لیے مسجد جانے والی خاتون کا راستے میں کسی غیر محفوظ جگہ پر کسی نے ریپ کر دیا۔ (اس کے بعد بھی خواتین کے مسجد میں آنے یا فجر اور عشاء کے لیے آنے پر کسی پابندی کا ذکر احادیث میں نہیں ملتا)۔
6۔ آپ کے علم میں آیا ہوگا کہ کئی لوگوں کو اپنی خواتین کا مسجد میں آنا ناگوار گزرتا ہے، چنانچہ آپ نے ہدایت فرمائی کہ اللہ کی بندیوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکا کرو۔ ان میں حضرت عمرؓ بھی شامل تھے۔ ان کی ایک اہلیہ اہتمام سے فجر اور عشاء کے لیے مسجد میں جاتی تھیں۔ ان سے کہا جاتا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ سیدنا عمر کو یہ بہت ناگوار گزرتا ہے؟ وہ کہتیں کہ پھر وہ مجھے روک کیوں نہیں دیتے؟ اس پر لوگ بتاتے کہ وہ اس لیے نہیں روکتے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ کی بندیوں کو مسجدوں سے نہ روکو۔