اختلاط مردوزن ،ہماری معاشرت اور مذہبی اقدار

مصنف : محمد فہد حارث

سلسلہ : دین و دانش

شمارہ : نومبر 2024

دين و دانش

اختلاط مردوزن ،ہماری معاشرت اور مذہبی اقدار

فہد حارث

برصغیر کے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ یہ رہا کہ ہم نے اپنی معاشرتی اقدار کو مذہبی اقدار قرار دے کر اپنے دین میں بے سختیاں پیدا کرلیں جس کے سبب ہمارے معاشرے میں گھٹن بھی پیدا ہوئی اور حق تلفیاں بھی۔ انہیں مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ اختلاط مرد و زن کا ہے۔ہمارے معاشرے میں اختلاطِ مردوزن کو کچھ یوں لیا جاتا ہے کہ بس یہاں مرد نے عورت کو یا عورت نے مرد کو دیکھا نہیں کہ وہ دونوں زنا کے مرتکب ہوجائینگے۔ اسی سبب ہم نے اختلاط کی بے جا حدود متعین کرلیں جو دورِ نبویﷺ کے معاشرے اور اس کے نظائر سے بالکل بھی لگا نہیں کھاتیں۔

ہمارے ہاں اس سلسلے میں پہلی بے انصافی یہ ہوئی کہ خواتین کو مساجد آنے سے "یوں "روک دیا گیا جیسے یہ کوئی "وقتی و انتظامی "حکم نہ ہو بلکہ نصِ شرعی سے ثابت امر ہو جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ نبیﷺ کے دور میں خواتین مردوں کےساتھ پچھلی صفوں میں رہ کر نمازِ باجماعت ادا کرتی تھی۔ ذرا سوچئے کہ اس زمانے میں مرد پاجامہ یا شلوار نہیں بلکہ کھلی ہوئی چادر بصورتِ تہبند پہنتے تھے جس کی وجہ سے حالتِ سجدہ میں ستر نظر آنے کا اندیشہ رہتا تھا لیکن بجائے اس کے کہ آپﷺ خواتین کو مساجد آنے سے روک دیتے آپﷺ نے بس ان کو فقط یہ حکم دینے پر اکتفا کیا کہ مردوں کے سجدوں سے سر اٹھانے کے بعد خواتین سجدوں سے سر اٹھائیں۔ حتیٰ کہ آپﷺ نے مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان میں کوئی دیوار یا چادر تک نہ لگوائی۔ یہاں تک کہ شروع شروع میں مردوعورت ایک ہی دروازے سے مسجد میں داخل ہوتے تھے جس کی وجہ سے اکثر دروازے پر بھیڑ ہوجاتی تھی، پس اس مشکل کے حل کے لیے آپﷺ نے عورتوں کے لیے علیحدہ دروازہ بنوادیا ۔ آج بھی اس دروازے کو باب النساء کہا جاتا ہے۔

جبکہ آج تو خواتین کے لیے مساجد میں علیحدہ ہال ہوتا ہے جہاں مسجد کے اندر چار دیواری میں رہتے ہوئے وہ مردوں کی نگاہوں سے بالکل اوجھل ہو کر نماز ادا کرتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے ہاں خواتین کے مساجد آنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ صد حیرت۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ موطا امام مالک کی روایت کے تحت سیدنا سعد بن ابی وقاص کی صلوٰۃ المیت سیدہ عائشہ اور دیگر امہات المومنین نے بالخصوص مسجد نبویﷺ میں ادا کروائی تھی تاکہ امہات المومنین ان کی صلوٰۃ المیت ادا کرسکیں۔ کیا آج آپ تصور کرسکتے ہیں کہ خواتین کو کسی نامحرم مرد کی صلوٰۃ المیت ادا کرنے کی اجازت دی جائے گی۔

عید کے دن جبکہ صلوٰۃ العید مسجد کی چار دیواری میں نہیں بلکہ عیدگاہ کے کھلے میدان میں ادا کی جاتی تھی وہاں بھی آپﷺ نے تاکید کے ساتھ خواتین کو صلوٰۃ العید میں حاضر ہونے کا حکم دیا حتی کہ حیض والی خواتین تک کو عیدگاہ آنے کی تاکید کی ۔ یہی نہیں بلکہ ایک خاتون نے جب یہ کہا کہ اگر ہمارے پاس باہر نکلنے کو چادر نہ ہو تو؟ آپﷺ نے فرمایا کہ اس کی کوئی دینی بہن اس کو اپنی چادر دے دے۔علامہ ابن حزم ظاہری نے جمہرۃ انساب العرب میں سیدہ شفاء بنت عبداللہ کی بابت لکھا ہے کہ سیدنا عمرؓ نے انہیں نہ صرف ام المومنین سیدہ حفصہ اور دیگر خواتین کو لکھانے پڑھانے کی ڈیوٹی پر مامور کیا تھا بلکہ ان کو مدینہ کے بازار کا نگراں بھی مقرر کیا تھا جہاں وہ بازار کے سامان کے معیار اور اشیاء کے نرخوں کی نگرانی بھی کرتی تھیں۔ اب بتائیے کہ بازار میں مردوں کی دکانوں پر نگراں ایک عورت مقرر کی جارہی ہے۔ کیا آج برصغیر کے معاشرے میں آپ اس کا تصور بھی کرسکتے ہیں؟پھر ام عطیہ، ام سلیم اور سید ہ عائشہؓ کے جنگوں میں زخمیوں کی تیمارداری اور اپنی پیٹھوں پر مشکیزے اٹھائے پانی پلانے کے کام سے بھلا کون واقف نہ ہوگا اور یاد رکھیے کہ سیدہ عائشہ نے یہ خدمت اولاً جنگِ احد میں انجام دی تھی جبکہ وہ نوجوانی کی عمر میں تھیں۔اسی طرح ذرا سیدہ ام عمارہ اور سیدہ ام حرام بنت ملحان کی قتال فی سبیل اللہ کی خدمات کو بھی یاد کرلیجئے جہاں ام عمارہؓ نے شجاعت و بہادری میں کئی مردوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے کتنے ہی دشمنوں کو جہنم واصل کیا تو سیدہ ام حرام بنت ملحان پہلے بحری غزوے سے واپسی پر اپنی سواری سے گر کر جنت کی نعمتوں سے بہرہ مند ہوئیں۔

پھر جنگِ یرموک میں سیدہ ہند بنت عتبہ کے ان اشعار کو کون بھلا سکتا ہے جو انہوں نے ایام جاہلیت میں جنگِ احد میں غیر مسلموں کی طرف سے شریک ہوکر پڑھے تھے تو جنگ یرموک میں مسلمان غازیوں کے جذبہ کو مہمیز کرنے کے لیے بآواز بلند پھر سے ادا کیے تھے کہ :

نحن بنات طارق--نمشي على النمارق

مشي القطا الموانق--قيدي مع المفارق

ومن أبى نفارق--إن تقبلوا نعانق

أو تدبروا نفارق--فراق غير وامق

هل من كريم عاشق--يحمي عن العوانق

والمسك في المفارق--والدر في المخانق

برصغیر کے علماء ہوتے تو سیدہ ہند کو ٹوک دیتے کہ عورت کی آواز کا پردہ ہے، بی بی کیا کرتی ہو لیکن اس وقت کسی ایک صحابی خود خاوندِ ہند بنت عتبہ سیدنا ابو سفیان کو بھی ایسا خیال نہ آیا کہ"عورت کی تو آواز کا بھی پردہ ہوتا ہے۔"

پھر ذرا احادیث و سیرت کی کتابوں میں مذکور ان تمام واقعات کو بھی ملاحظہ کرلیجئے جہاں نبیﷺ مردوں کے ساتھ مسجد میں بیٹھے ہوتے اور کوئی بھی خاتون آکر آپﷺ سے حیض، نفاس، احتلام یا کسی بھی مسئلے پر کوئی سوال پوچھ لیتی۔ نبیﷺ مسجدِ نبویﷺ میں بیٹھے ہیں کہ ایک خاتون آکر خود کو آپﷺ کو ہبہ کردیتی ہے جس پر آپﷺ سر جھکا لیتے ہیں اور ایک دوسرے صحابی اٹھ کر ان سے نکاح کی خواہش ظاہر کرتے ہیں اور آپﷺ ان سے مہر کی بابت اور اس کا انتظام کرنے کو کہتے ہیں اور اس تمام اثناء میں وہ خاتون مسجدِ نبویﷺ میں ہی بیٹھی نظر آتی ہے جبکہ وہاں مرد بھی موجود ہیں۔

پھر ذرا سورۃ مجادلہ کا شانِ نزول بھی مستحضر کرلیا جائے جہاں خولہ بنت ثعلبہ آکر نبیﷺ سے بحث کرتی ہیں اور اللہ سورۃ مجادلہ اتاردیتے ہیں۔ پھر عہد فاروقی میں ایک مرتبہ سیدنا عمر چند افراد کے ساتھ کہیں جا رہے تھے تو ایک عورت نے آپ کو بڑی دیر تک روکے رکھا اور نصیحت کرتی رہی تو آپ کے ہمراہیوں نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ ایک بوڑھی عورت کی بات سننے کے لیے آپ اتنی دیر تک رکے رہے تو آپ نے فرمایا کہ اگر مجھے اس سے زیادہ وقت بھی روکتیں تو میں رکتا اور ان کی باتیں سنتا کیونکہ یہ خولہ بنت ثعلبہ ہیں جن کی بات اللہ تعالٰی نے سنی اور قرآن کی آیتیں نازل ہوئیں۔یہی نہیں بھرے مجمع میں ایک عورت سیدنا عمرؓ کو مہر کے مسئلے میں ٹوک د یتی ہے۔۔ اب ذرا یہ بتائیے کہ آپ کے ہاں تصور ہے کہ امیر جماعت یا امام مجمع سے بات کررہا ہو اور ایک عورت اس کو ٹوک دے یا پھر شیخ جماعت جارہے ہوں اور ایک عورت آکر ان کو بے نقط سنانا شروع کردے۔اسی طرح ایک صحابیہ کی بابت تذکرہ نویس لکھتے ہیں کہ ان کی بڑی ساری حویلی تھی جس کے باغ میں وہ چقندر اگایا کرتی تھیں اور نبیﷺ اکثر اپنے مہمانوں کو ان صحابیہ کے ہاں ٹھہرواتے تھے۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ امام بخاری نے اپنی صحیح میں باقاعدہ ایک باب باندھا ہے "باب عیادۃ النساء للرجال" یعنی "عورتوں کا مردوں کی عیادت کو جانا۔" پہلے تو آپ ذرا مجھے یہ بتائیے کہ آپ کے معاشرے میں کیا یہ تصور بھی کیا جاسکتا ہے کہ مذہبی خاندان کی کوئی عورت کسی نامحرم شخص کی عیادت کو جائے یا اس سے اسکا حال احوال پوچھ سکے۔۔ "جہاں مردوں کے قرآن کی خوش الحان تلاوت کے سبب خواتین کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ظاہر کیا جائے وہاں بھلا عیادت جیسا کام تو پتہ نہیں اپنے اندر کتنے فتنے مضمر رکھتا ہوگا۔"مذکورہ باب کے تحت امام بخاری روایت لائے ہیں کہ سیدنا ابوبکر و سیدنا بلال بیمار پڑے تو سیدہ عائشہ دونوں کی عیادت کو حاضر ہوئیں اور دونوں سے دریافت کیا کیف تجدک یعنی کیسے مزاج ہیں آپ کے؟ امام بخاری دوسری روایت لائے ہیں کہ سیدہ ام الدرداء نے ایک انصاری صحابی کی عیادت کی۔

ام مبشرؓ نامحرم مرد سیدنا کعب بن مالک کے مرض الموت میں ان کی عیادت کو حاضر ہوکر کہتی ہیں کہ میرے بیٹے کو میرا سلام کہنا۔یہ تو خواتین کا مردوں کی عیادت کے لیے جانا ہوگیا۔ دورِ نبویﷺ میں خود مرد بھی خواتین کی عیادت کو جاتے تھے جیسا کہ صحیحین کی روایت میں آتا ہے کہ نبیﷺ اپنی چچازاد بہن سیدہ ضباعہ بنت زبیر کی عیادت کو تشریف لے گئے اور دورانِ عیادت ان کو حج کی نیت کی ترغیب دی۔ ابوداؤد کی روایت میں ہے کہ ام العلاء بیماری ہوئیں تو نبیﷺ ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ مسلم میں ام السائب کی روایت ہے کہ ام السائب کو بخار چڑھا تو نبیﷺ ان کی عیادت کو گئے، دورانِ عیادت ام السائب نے بخار کو برا بھلا کہا تو آپﷺ نے ان کو ایسا کرنے سے یہ کہتے ہوئے منع کیا کہ اس سے انسان کے گناہ دھلتے ہیں۔پھر یاد رہے کہ امہات المومنین جن کے اوپر پردے کے احکامات سب سے زیادہ سختی سے نافذ تھے، صحابہ کرام سے ان کی عیادت کو جانا اور ان سے خیریت دریافت کرنا خود صحیحین کی روایت سے ثابت ہے جیسا کہ امام بخاری نے سیدنا ابن عباسؓ کا سیدہ عائشہؓ کے مرض الموت میں حاضر ہونا اور ان دونوں کا باہمی مکالمہ روایت کیا ہے۔

پھر صحیحین کی وہ روایت ہمارے احباب نہ بھولیں جس میں مذکور ہے کہ نبیﷺ ام حرام کے گھر قیلولہ فرماتے اور وہ دورانِ قیلولہ آپﷺ کے سر میں کنگھی کیا کرتی تھیں۔ بعض لوگ اس روایت کی تاویل میں ام حرام کو نبیﷺ کی محرم قرار دینے کی بات کرتے ہیں لیکن یہ اس قدر بے اصل بات ہے کہ نسب کی کسی معتبر کتاب سے اس کا ثبوت بہم نہیں پہنچایا جاسکتا ۔سیدہ اسماء بنت ابی بکر کی بابت ہر تذکرہ نویس نے یہ بات لکھی ہے کہ وہ اپنے شوہر زبیر بن العوام کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتی تھیں، گھوڑوں کی مالش کرتی تھیں، ان کے لیے دانے کوٹتی تھیں اور دور کسی باغ سے یہ دانے اور دیگر سامان اپنے سر پر اٹھا کر لاتی تھیں۔

الغرض بلامبالغہ ایسی بہت سی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جو ہمارے سامنے وہ عرب معاشرہ پیش کرتی ہیں جو برصغیر کے علماء کے بتائے و بنائے معاشرے سے بالکل انجان و اجنبی ہے

دراصل یہ ساری مصیبت یوں پڑی کہ قرآن و حدیث میں مذکور احکامِ سترو حجاب اور اختلاط مردو زن کو ہم نے دورِ نبویﷺ اور خیر القرون کے معاشرے کے نظائر سے کاٹ کر اپنی مرضی و منشاء اور اپنے معاشرے کے لحاظ سے معنی پہنا کر ان کو نافذکردیا جہاں عورت کچھ نہیں صرف ایک فتنہ ہے اور جہاں کا مرد ہو یا عورت وہ ایک دوسرے کو دیکھنا تو کجا ایک دوسرے کی آواز سن کر ہی حواس باختہ ہوجانے کو تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔

سورۃ النور اور سورۃ الاحزاب میں بیان کردہ احکامِ غض بصر اور ستروحجاب کو جب تک دورِ نبویﷺ کے نظائر کے ساتھ نتھی کرکے ان کی تطبیق نہ کی جائے گی، ہمارا معاشرہ دورِ نبویﷺ کے معاشرے کے مخالف اور اس سے بعید ہی نظر آئے گا جہاں اسلام کے نام پر خواتین کا معاشرتی و معاشی استحصال اور اس خود ساختہ اسلام سے جنمی گھٹن کے سبب ان کا جنسی استحصال ہوتا رہے گا۔

سوال-ان شخصیات کو آج کے افراد اور ماحول پر قیاس نہیں کیا جاسکتا وقت کے ساتھ ساتھ اجتہادی مسائل وضع کیے گئے ضرورت کے پیش نظر جن میں ایک مسئلہ اختلاط مرد وعورت بھی تھا ہمارے گھر کے قریب خواتین کو اعتکاف بٹھایا گیا تھا مسجد میں اس کا نتیجہ اتنا خطرناک نکلا کہ وہی مسجد اب پابندی لگا چکی ہے۔

جواب- پورے احترام کے ساتھ عرض ہے کہ میں آپ کے بیان کردہ نتائج سے قطعی متفق نہیں۔ سد ذریعہ کے طور پر چیزیں وقتی و انتظامی ہوتی ہیں، ان سے حکم شریعت نہیں بدل جاتا۔ مباح نہ واجب ہوتا ہے اور نہ حرام جبکہ ہمارے ہاں پردہ و حجاب کی بابت پوری شریعت ہی بدل دی گئی ہے۔ مباح امور کو قطعیت کے ساتھ حرام قرار دیدیا گیا ہے جس کی وجہ سے معاشرہ مزید انارکی کا شکار ہوا جاتا ہے۔ مختلف النوع معاشروں اور انسانوں دونوں کی فطرت سے اللہ سے زیادہ کوئی واقف نہیں اور کسی انسان کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اللہ کے احکامات کو ناکافی سمجھتے ہوئے سد ذریعہ کی چھوٹ کا استعمال کرتے خود شارع بننے کی کوشش کرے۔اگر بات صرف سد ذریعہ پر آئے تو پچھلی کئی دہائیوں سے جو کچھ مدارس میں ہوتا رہا ہے، جو فرعونیت، جو تشدد، جو ہم جنس پرستی وہاں کا معمول بنتی جارہی ہے تو پھر سد ذریعہ کے طور پر فی الفور تمام مدارس کو بند کردینا چاہیئے اور ان کے قیام کو صریح حرام قرار دیدینا چاہیئے۔لیکن ایسا کرنے کو کوئی ذی عقل درست تسلیم نہ کرے گا بلکہ یہی کہے گا کہ مدارس کی اصلاح ہونی چاہیئے۔ پس یہی بات اختلاط مرد و زن سے متعلق بھی ہے کہ شرعی احکامات اور دور خیر القرون کے نظائر کی روشنی میں ان کی تطہیر و اصلاح ہونی چاہیئے چہ جائیکہ خود ساختہ طور پر سد ذریعہ کا استعمال کرتے ہوئے ان پر قدغنیں لگا کر معاشرے کو گھٹن زدہ کردیا جائے جہاں عورت اور مرد ایک دوسرے کے لیے محض جنسی حیوان بن کر رہ جائیں۔

سوال-اس معاملے میں ہم مجتہدین کے فیصلوں کو بہتر سمجھتے ہیں باقی میں آپکی گھٹن والی بات سمجھنے سے قاصر ہوں-

جواب- یہ گھٹن والی بات آپکو اس وقت سمجھ میں آئے گی جب آپ کچھ سال پاکستان سے باھر نکل کر ملائشیا، انڈونیشیا، ترکی، اردن، موروکو، متحدہ عرب امارات، قطر وغیرہ جیسے مسلم ممالک میں گزاریں گے۔یاد رہے برصغیر کے علاوہ مذکورہ بالا تمام ممالک کے مجتھدین اختلاط مرد و زن سے متعلق وہی موقف رکھتے ہیں جس کا میں اپنی پوسٹ میں ذکر کر آیا ہوں۔

سوال-بعض روایات میں یہ بھی آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اپنے دور میں اپنی اہلیہ حضرت عاتکہ کو مسجد جانے سے روکنا چاہتے تھے-

جواب-یہ سیدنا عمر کا ذاتی مزاج تھا بالکل ویسے ہی جیسے سیدنا عمر کے بیٹے سیدنا عبداللہ بن عمر نے اپنے بیٹے سےقطع کلامی کرلی تھی جب انہوں نے اپنے والد کے سامنے کہا تھا کہ میں تو اپنی خواتین کو مسجد جانے سے روکوں گا جبکہ ابن عمر ان کو یہ حدیث سنارہے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی خواتین کو مسجد جانے سے مت روکو۔

سوال-کیا بعض حقائق کو چھپانا کتمان حق نہیں ہے؟-- کیا حضرت عمر رض نے بلطائف الحیل خواتین کو مساجد میں آنے سے نہیں روکا؟ کیا آپ حضرت عمر رض سے بھی بڑھ کر فقیہ فی الدین ہیں اور کیا صحابیات جنہیں مساجد میں آنے سے روکا گیا تو بعد کے ادوار کی عموماً اور دور حاضر کی خواتین خصوصاً ان صحابیات سے بھی بڑھ کر ہیں؟-- جو مثالیں آپ نے مریضوں کی عیادت کی دی ہیں تو ہمارے ہاں خواتین اپنے اقارب واحباب میں مردوں کی عیادت کے لئے اور مرد خواتین کی عیادت کے لئے جاتے رہتے ہیں--؛کھیتی باڑی کے کاموں میں خواتین اپنے خاوندوں اور بھائیوں کا باہر کھیتوں میں ساتھ دیتی ہیں گندم کی کٹائی کپاس کی چنائی کرتی ہیں گھر سے کھانا پکا کر باہر کھیتوں میں لے جاتی ہیں وغیرہ،تو اس سے تو کسی نے نہیں روکا- سعودی عرب وغیرہ بعض ممالک میں سخت سزائیں نافذ ہیں-یہاں تو قانون صرف بیچاروں اور کمزوروں کی گرفت کرتا ہے- خواتین کا گھروں میں نماز پڑھنا اگر فتنوں کو معدوم کرے اور مساجد میں مناسب حفاظتی اقدامات کے باوجود فتنوں کے وقوع کو موہوم کرے تو ترجیح معدوم کو حاصل ہوگی یا موہوم کو؟-- عورت کی مسجد میں نماز باجماعت حاضری اگر مناسب حفاظتی اقدامات کے تحت مکروہ نہ بھی ہو تو پھر بھی اولی نہیں بلکہ خلاف اولی ہے- البتہ مساجد میں خواتین کے لئے وضو اور نماز کا انتظام خصوصاً مسافر خانوں کی مساجد میں ضرور ہونا چاہئے

جواب- کتمان کی مثال تو پھر یہ بھی ہے کہ انہیں عمر کے بیٹے سیدنا عبداللہ بن عمر نے اپنے بیٹے سے اس لیے قطع کلامی کرلی تھی کہ انہوں نے جب یہ حدیث سنائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی عورتوں کو مسجد جانے سے مت روکو تو ان کے بیٹے نے فرمایا کہ واللہ میں تو روکونگا جس پر سیدنا عبداللہ بن عمر سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا کہ میں تجھے حدیث رسول سناتا ہوں اور تو مجھے اپنی رائے دیتا ہے۔سیدنا عمر کے وقتی فیصلے کو شریعت کا حصہ مان کر اسکو مستقل قرار دینا سیدنا عمر کو شارع مان لینا ہے۔ سیدنا عمر کے اس اجتہاد سے ان کی اپنی اولاد سیدنا عبداللہ بن عمر نے اختلاف کیا تھا جس سے لازم آتا ہے کہ سیدنا عمر کا اپنے دور میں کیا گیا ایک انتظامی معاملہ حکم وحی کی طرح نہ ابدیت رکھتا ہے اور نہ اسکا انکار قابل ملامت تصور کیا جاسکتا ہے جبکہ اسکے پیچھے احادیث رسول اور نظائر صحابہ بھی موجود ہوں۔ سیدنا عمر کے ایک وقتی و انتظامی حکم کو واجب کے درجے میں مان کر اس پر عمل کرنے کو زور دینا سیدنا عمر کو شارع تسلیم کرلینا ہے۔