دين و دانش
کیا ادنی درجے کے جنتی دیدار الہی سے محروم رہیں گے؟
ابوبکر قدوسی
جنت میں جنتیوں پر نعمتوں کا اتمام و اکمال ہو جائے گا ، جنتی یہ نعمتیں پا کر ہر دم نہال ہوں گے ، ان کا ہر دن عید کا دن اور ہر شب ،شب برات کی مثال ہو گی ، ہر ہر لمحہ اپنے رب کے شکر گزار ہوں گے کہ ایک روز ایک بڑی خوشخبری ملے گی کہ ان کو حیران کر دے گی ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:(جب جنت والے جنت میں داخل ہو جائیں گے، تو اللہ تبارک و تعالی فرمائے گا: تمہیں کوئی چیز چاہیے جو تمہیں مزید عطا کروں ؟ جنتی جواب دیں گے: " کیا تو نے ہمارے چہرے روشن نہیں کیے ؟ کیا تو نے ہمیں جنت میں داخل نہیں کیا اور دوزخ سے نجات نہیں دی؟" ( یعنی اس سے بڑھ کر اور کیا نعمت مل سکتی ہے ؟)پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: "اس پر اللہ تعالی پردہ اٹھا دے گا تو انہیں کوئی چیز ایسی عطا نہیں ہو گی جو انہیں اپنے رب عزوجل کے دیدار سے زیادہ محبوب ہو ۔"
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ۔۔۔ صحیح مسلم 266۔۔۔یہ حدیث دراصل اس فرمانِ باری تعالی کی تفسیر ہی جان لیجیے کہ قرآن کریم میں ہے:لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ"نیکیاں کرنے والوں کے لیے بہترین بدلہ اور اضافی انعام ہے"۔[یونس: 26]دوسرے لفظوں میں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر فرمائی ہے کہ :بہترین بدلہ تو جنتیوں کو جنت کی نعمتوں کی شکل میں مل چکا تھا اور اب یہ اضافی انعام تھا جو دیدار باری تعالی کی صورت میں ان کو ملا ۔ قرآن کریم کی ایک اور آیت میں جنتیوں کا ذکر کچھ یوں ہے ہے :
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ۔۔ إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌترجمہ: اس دن کچھ چہرے تر و تازہ ہوں گے، اور اپنے رب کی طرف دیکھ رہے ہوں گے۔[القیامہ: 22 - 23]قرآن کی ان آیات اور احادیث میں کوئی تخصیص اور درجہ بندی نہیں ہے کہ یہ انعام کچھ کو ملے گا اور کچھ کو نہیں ملے گا جبکہ مکرم ڈاکٹر ذاکر نائک حفظہ اللہ نے بادشاہی مسجد لاہور میں گفتگو کرتے ہوئے یہ کہا کہ تمام جنتیوں کو اللہ رب العزت کا دیدار نہیں ہوگا یہ دیدار صرف اعلیٰ درجے کے جنتیوں کو ہوگا نہ کہ ادنی درجے کے جنتیوں کو ( مفہوم )۔۔۔ان کو اس حوالے سے شدید غلطی لگی ہے ۔ قران و حدیث میں دیدار الہی کے حوالے سے جو جو ذکر ہے اس سے یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکلتا ۔رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور حدیث ہے ۔ پڑھ لیجئے اسی سے سب کچھ واضح ہو جائے گا ۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا: " یا رسول اللہ ! کیا ہم قیامت کے دن اپنے رب کو دیکھیں گے؟" تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: " کیا چودھویں رات کا چاند دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟ "لوگوں نے عرض کیا: " نہیں یا رسول اللہ "
پھر آپ نے پوچھا: "کیا جب بادل نہ ہوں تو تمہیں سورج کو دیکھنے میں کوئی دشواری ہوتی ہے؟" لوگوں نے کہا: "نہیں تو اے اللہ کے رسول "تو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "پھر تم اسی طرح اللہ تعالیٰ کو دیکھو گے۔۔۔"بخاری: (6088) ، مسلم : (267)
اب دیکھیے کہ جب سورج نکلتا ہے یا چاند تاریک راتوں کو روشن کرتا ہے تو دنیا میں کوئی شخص ایسا نہیں ہوتا کہ جو ان کے دیدار سے محروم رہے ، جو چاہے ان کو دیکھ سکتا ہے اور جب یہ جنتوں کی سب سے بڑی نعمت ہو جائے تو پھر کون نہیں چاہے گا کہ دیکھے ؟
لیکن یہاں پر یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند اور سورج کے دیکھنے سے جو تشبیہ دی ہے وہ چاند اور سورج کی اللہ کی ذات سے تشبیہ نہیں ہے کیونکہ اللہ کی ذات جیسا کوئی نہیں ، اور نہ اس کی کوئی مثال ہے اور نہ مثال دی جا سکتی ہے دراصل یہاں رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشارہ اس " رسائی" کی طرف ہے کہ جو ہر خاص و عام کو ہو گی یعنی اعلی درجے کے جنتی یا ادنی درجے کے وہ سب کے سب اللہ تعالی کی ذات کو یکساں طور پر دیکھ سکیں گے ۔تو میرا خیال یہ ہے کہ یہی حدیث ڈاکٹر ذاکر نائیک کے اس خیال کی غلطی واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ :۔۔اعلی درجے کے جنتی تو دیدار کر پائیں گے اور عام درجے کے جنتی سے محروم رہیں گے۔۔۔چلتے چلتے یہ بھی پڑھ لیجئے کہ جنت میں اللہ کا دیدار کتنی بڑی نعمت ہے ۔۔اللہ تعالیٰ نے جب جہنمیوں کا ذکر کیا اور ان پر عذاب کی بات کی تو تب بھی اللہ تعالی نے اپنے اس دیدار کو ایک سب سے بڑی نعمت کے طور پر پیش کیا : كَلَّا إِنَّهُمْ عَن رَّبِّهِمْ يَوْمَئِذٍ لَّمَحْجُوبُونَ" یقینی بات ہے: بلاشبہ انہیں اس دن ان کے رب سے دور رکھا جائے گا۔" اب اس کے بعد اگلی ایت میں جہنم کے عذاب کا ذکر ہے ثُـمَّ اِنَّـهُـمْ لَصَالُو الْجَحِيْـمِ ([المطففین:15۔۔ 16) پھر بے شک وہ دوزخ میں گرنے والے ہیں۔یہاں نکتے کی بات ہے کہ اللہ رب العزت نے اپنے دیدار کو پہلے ذکر کیا اور جہنم کے عذاب کا ذکر بعد میں کیا ۔یعنی جہنم کا عذاب جتنا بھی شدید ہے اللہ کے دیدار کی محرومی سے بڑا عذاب نہیں ۔۔اور یہی تو وجہ ہے کہ جب جنتی حیران ہو کر کہیں گے " اب ہمیں بھلا کون سی نعمت مل سکتی ہے کہ سب نعمتوں کو اہتمام ہو گیا اور اتمام ہو گیا ، ہر نعمت اپنے کمال کو پہنچ چکی" تو اللہ تعالی اپنی ذات کے گرد حائل پردے اٹھا دیں گے اور جنتی سجدے میں گر جائیں گے اور ان کا سجدے میں گرنا دراصل تشکر کا اظہار ہوگا کہ واقعتاً جنت کے اندر موجود تمام تر نعمتیں اس نعمت کے مقابلے میں ہیچ ہیں ، کمتر ہیں۔