حمدِ باری تعالیٰ

مصنف : خواجہ رياض الدين عطش

سلسلہ : حمد

شمارہ : نومبر 2024

حمدِ باری تعالیٰ
حدِ قیاس کے ہر انتخاب میں تُو ہے
حدیثِ ماضی و فردا کے باب میں تُو ہے
سحَر سحَر کے اجالوں میں، ظلمتِ شب میں
کِرن کِرن میں ترا عکس، تاب میں تُو ہے
کمالِ حسنِ صناعت میں، نقشِ فطرت میں
جمالِ قوسِ قُزح میں، شِہاب میں تُو ہے
فُروغِ نجم و مہ و کہکشاں میں رخشندہ
سَوادِ لیل و شبِ ماہتاب میں تُو ہے
نظامِ چرخ کے پیہم نصابِ گردش میں
حُدوثِ دہر کے ہر پیچ و تاب میں تُو ہے
تجھی سے سرمئی شاموں کا حُسن ہے قائم
اُفُق سے پھوٹنے والے شَہاب میں تُو ہے
نُجوم و مِہر و مہ و کہکشاں سبھی روشن
ابَد ابَد سے ہر اِک آب و تاب میں تُو ہے
جبال و دشت میں، دَرّوں میں، سنگ ریزوں میں
بخار و برق میں، رَعد و سَحاب میں تُو ہے
ہواے سرد میں اور فصلِ برف باری میں
تپش کی لہر میں، موجِ سراب میں تُو ہے
ہے لہر لہر میں، ہر موجہ و تلاطُم میں
فسونِ شیشۂ آبِ حُباب میں تُو ہے

ہے برگ و بار میں، شبنم کے آبگینوں میں
صمیمِ سنبل و سرْو و گلاب میں تُو ہے
شمیمِ گُل میں بھی، شبنم کے سرد قطروں میں

خَزاں بھی تیرا ہی مقصد، بہار بھی تیرا
خَزاں بہار کے گَرداں نصاب میں تُو ہے
مجاز تُو ہے زمانے کے ہر تبدُّل کا
تغیّرات کے ہر انقِلاب میں تُو ہے
اِک ایک ذرّے کو جَوہر عطا کِیا تُو نے
شجر شجر میں ہے، برگِ خوش آب میں تُو ہے
نم و نمود میں، رُوییدگی کے موسم میں
خریف و فصل میں، بیخ و تُراب میں تُو ہے
قُلوبِ سنگ میں کِرموں کو رزق پہنچانا
دَہِش یہ تیری اور اِس دستیاب میں تُو ہے
ہر اِک شبیہ و شباہت میں، نقش و صورت میں
ہر ایک چیرگیِ شکل یاب میں تُو ہے
نظامِ عُمرِ رواں تیری شانِ قدرت سے
نفَس نفَس نفَسِ فیض یاب میں تُو ہے
تمام کشف و کرامات میں ترے جلوے
سُجودِ پِیرِ فضیلت مآب میں تُو ہے
ادب، ادیب و مصوّر میں، اور شاعر میں
سوال و شرْح کے ہر مُستَجاب میں تُو ہے

چَراغِ عِلم بھی تیرے ہی عِلم سے روشن
ضیاے لفظ، معانی، خطاب میں تُو ہے
ہر اِک ارادہ ہے محتاجِ رہبری تیرا
گرفتِ رابطہ و اِنتِساب میں تُو ہے
اِسی کی زد میں فُروزاں ہیں زندگی کے چراغ
ہواے دہر کے حسب الحساب میں تُو ہے
ہر اِک سوال ہے حرفِ سوال کی صورت
مگر ہر ایک جواب الجواب میں تُو ہے
مِلی تمیز بشر کو بدی و نیکی کی
حقیقت آشنا ہر اِحتِساب میں تُو ہے
نگاہِ قلب کو عرفاں عطا کِیا تُو نے
خِصال و جذبۂ کارِ صواب میں تُو ہے
ہے تُو ہی عادلِ بے مِثل، داورِ مَحشر
نُزولِ حُکمِ عذاب و ثواب میں تُو ہے
تری عطا سے ہے منسوب صبرِ ایّوبی
نزولِ حکمتِ شیب و شباب میں تُو ہے
کتابِ وصف وہ تورات، اور وہ موسیٰ
شُروح و شِگرفِ ابواب و باب میں تُو ہے
وہ معجزہ یدِ بَیضا کا اور وہ اژدر
کلامِ طُورِ تجلّی و تاب میں تُو ہے
زبور اور وہ داوود و لحنِ داوودی
صفاتِ لحن میں اور اُس کتاب میں تُو ہے

وہ سَیلِ آبِ قِیامت، وہ نوح کی کشتی
امامِ کشتی و ربّ الغراب میں تُو ہے
وہ اِک عطا تری انجیل اور وہ وہ عیسیٰ
کلام و مژدہ و طرزِ خطاب میں تُو ہے
مسیح اور وہ کراماتِ قُم بإذن اللّٰه
خدا صفت عمَل و ارتِکاب میں تُو ہے
زوالِ سطوتِ فرعون، نسلِ عاد و ثمود
مآلِ ہود میں، افراسیاب میں تُو ہے
رُموزِ عہدِ سلَیمان و یونُس و اِلیاس
صفاتِ وعدۂ بے اجتِناب میں تُو ہے
پناہِ نوح، براہیم اور یوسُف میں
ہر اِک ولایتِ تیرہ میں شاب میں تُو ہے
کبھی تجلّی و غش، روبرو کبھی معراج
پیمبروں کے سوال و جواب میں تُو ہے
بنایا تُو نے محمدﷺ کو صاحبِ قرآں
بہ وصفِ کُل اسی اُمّ الکتاب میں تُو ہے
اسی سے قلبِ بشر سر بہ سر منوّر ہے
ضیاے شمعِ رسالت مآب میں تُو ہے
ہے وحْیِ غیب میں، الہام میں، بشارت میں
ہر اِستِجاب میں، ہر مُستَجاب میں تُو ہے

ہر ایک قوم میں بھیجے ہیں تُو نے پیغمبر
صفاتِ عدل و عِتاب و مَثاب میں تُو ہے
بنا کے خاک سے آدم کو سروَری بخشی
بشر کی حُرمتِ شوکت مآب میں تُو ہے
کریم و ناصر و توّاب، خالق و مالک
صفات و وصف کے اَسماے باب میں تُو ہے
ہے تُو ہی ہادی و غفّار، المُعِزّ و لطیف
ہر ایک ہم سفَر و ہم رِکاب میں تُو ہے
صمد بھی تُو ہے، غَفور الوَدود بھی تُو ہی
مجال و قوّت و ضرب و ضِراب میں تُو ہے
عظیم تُو کہ ہے العدل، البصیر و کبیر
شُہُب میں تُو ہے، شِہاب و شَہاب میں تُو ہے
اُحُد میں، بدْر میں، خندق میں، اور خیبر میں
ہر ایک رزم گہِ فتح یاب میں تُو ہے
ہے لازوال بھی، لاریب، تُو ہی لافانی
مَنارِ عرش پہ، روزِ حساب میں تُو ہے
جمالِ پیکرِ محسوس میں ترے جلوے
نگاہِ ذہن کے بیدار خواب میں تُو ہے
ترا ظُہور توانائیِ زمانہ میں
عیاں عیاں ہے مگر اِحتِجاب میں تُو ہے
ازَل سے قبل بھی، بعدِ ابَد بھی ہے تُو ہی
یہ راز کھُل نہ سکا کیوں حجاب میں تُو ہے

ہے تیرے لحن سے مربوط نغمگی دِل کی
کہ گویا قلب کے تارِ رَباب میں تُو ہے
بشر بشر میں رگِ جاں سے بھی قریب قریب
دلوں کے شیشۂ آئینہ تاب میں تُو ہے
خداے مُطلَق و واحد، خداے لافانی
زمین و عرش کے ہر بام و باب میں تُو ہے
شمار کیا کرَمِ بے شمار ہوں تیرے
کہ وصفِ کلمۂ ربّ الرّباب میں تُو ہے
ہر اک شکست میں مرضی کو دخل ہے تیری
ہر ایک معرکۂ کامیاب میں تُو ہے
متاعِ حکمت و عقل و خِرَد عطا ہے تری
وُقوفِ ذہن کے ہر اِنجِذاب میں تُو ہے
فسونِ ظاہر و باطن، طلسمِ غیب میں بھی
پسِ حجاب حجاب الحجاب میں تُو ہے
نہیں ہے تیرے لیے کوئی اوّل و آخر
حسابِ عمر کے اُس بے حساب میں تُو ہے
ورَق ورَق ہے ترے نام روزِ فردا بھی
بہ حرفِ عہدِ گذشتہ کتاب میں تُو ہے
زوال تجھ کو نہیں ربِّ قائم و دائم
مگر حلاوتِ ہر نقشِ آب میں تُو ہے
مرے الٰہ، خطاؤں کو بخش دے میری
عطا گہِ کرَمِ بے حساب میں تُو ہے
عطَش کو خوفِ اجَل ہے نہ دہشتِ پِیری
حُباب آسا ہے لیکن حُباب میں تُو ہے
(خواجہ ریاض الدّین عطَش)​