حیا  اور نام نہاد ماڈرن عورتيں

مصنف : محمود فیاض

سلسلہ : سماجیات

شمارہ : اكتوبر 2024

سماجيات

حیا  اور نام نہاد ماڈرن عورتيں

محمود فياض

حیا پر جب بھی بات کی جائے تو دلیل یہ دی جاتی ہے کہ انسان کا پیدا ہونا تو ایک خوبصورت عمل ہے۔ تو اسکو چھپایا کیوں جائے۔عورتوں کے پیریڈز تو فطرت کی صحت مند نشانی ہے کہ عورت کے اندر رب کی تخلیق کا ایک مظہر یعنی انسان پیدا کرنے کی صلاحیت ہے۔ عورت کی چھاتیاں تو بچوں کی غذا کی معصوم ترین کٹوریاں ہیں ان کے دکھنے سے بھلا کوئی پرورٹ ہی بدمزہ ہو سکتا ہے۔وغیرہ وغیرہ

باتیں سب ٹھیک ہیں۔ یہ سب فطری عوامل ہیں۔ فطرت کی خوبصورت نشانیاں ہیں۔

لیکن ان سب سے بھی خوبصورت ہے ۔ ۔ ۔ حیا اور محبت  ہے -یہ بھی اسی خدا نے پیدا کی ہیں۔ ۔سارا ہالی ووڈ اس بات پر زور لگا بیٹھا ہے کہ عورت بےحیائی سے جفتی ہو تو تب ہی ماڈرنزم کی فیمنسٹ دیوی کہلائے گی۔ لیکن آج بھی جاننے والے جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں مرد و عورت نیم تاریکی میں ملاپ کریں تو دونوں کی جسمانی و نفسیاتی آسودگی انتہا تک جاتی ہے۔ *کاما سترا کا سارا زور اس ڈھابے کے مالک جیسا ہے جو زبان کے چسکے کی خاطر معدے کا السر کرنے والے مصالحے ڈالتا ہے۔

فطرت سے ہی سیکھنا ہے تو جانوروں سے سیکھ لو۔ سوائے کتے یا گدھے کے کوئی بھی جانور انسانوں کے سامنے ملاپ کا عمل کرنا پسند نہیں کرتا۔ مجبوری ہو تو اور بات ہے ورنہ شائد کتوں اور گدھوں کے الگ گھر ہوں تو وہ بھی یہ عمل اپنے بیڈروم میں کریں۔ رہ گئی بات جسم کے اعضا کے فطری ہونے کی۔ تو یقین جانیں حسن کے معیار پر مردانہ عضو بھی اتنا ہی عمل تخلیق کا خوبصورت شہکار ہے جتنا عورت کا بڑھا ہوا پیٹ یا دودھ سے بھری چھاتیاں۔ ۔مرد کے اعضاء تولید میں لاکھوں جرثومے تخیل کی آنکھ سے مستقبل کے لاکھوں انسان نظر آتے ہیں۔ عورت کی بچہ دانی میں جتنے انڈے قدرت نے عمر بھر کے لیے رکھے ہیں، اس سے چالیس گنا زیادہ جرثومے ایک جنسی عمل کے دوران مردانہ عضو سے نکلتے ہیں۔ گویا اگر کوئی سائنسی عمل عورت کے تمام انڈے لے لے اور مرد ایک بار کے جنسی عمل کا مادہ لے لے اور دونوں کا ون بائی ون ملاپ کر سکے تو چالیس عورتوں کے عمر بھر کے انڈوں سے بچے مرد کے صرف ایک جنسی عمل کی پیداوار سے بن سکتے ہیں۔

تو جیسے ماں بننا ایک خوبصورت عمل ہے، بالکل ویسے ہی باپ بننا اور باپ بننے کا اہل ہونا بھی اس دنیا کا خوبصورت عمل اور حیثیت ہے۔ اسی طرح جیسے عورت کے سرخ پیڈز یونیورسٹی بورڈز (بیکن ہاوس کے واقعے میں) کی زینت بن کر عورت کی بچہ دانی زرخیز ہونے کا اعلان کرتے ہیں، ویسے ہی لڑکوں کی احتلام سے بھیگی شلواریں بھی چوک چوراہوں پر لٹکا کر قدرت کے اس تخلیقی عمل کی داد مانگتی اچھی لگیں گی۔ تو کیا مردوں کو بھی حق دیدیا جائے کہ وہ بھی اپنے تولیدی اعضا کو فخر سے ایئرپورٹس، ٹرین اسٹیشن جیسے پبلک مقامات پر اس لیے بےفکر ننگا کریں کہ دوسرے لوگ انکو دیکھ کر داد و تحسین ديں گے کہ قدرت كی تخليق كی كمال نشانی ہے  ۔ اس عضو سے فطرت بچے کی پیدائش میں مدد لیتی ہے۔ یہ عام مثالیں ہیں۔ ابھی میں گھر کی مثالوں تک نہیں آیا ۔ جہاں بہن بھائی بلوغت تک ماں باپ کے ساتھ رہتے ہیں۔

گھر میں ماں باپ بچوں کے بالغ ہونے کے بعد بھی جنسی عمل جاری رکھتے ہیں مگر بچوں سے چھپ کر۔ حالانکہ اس خوبصورت عمل کو بچوں سے چھپانے کی کیا ضرورت ہے جس خوبصورت عمل کے نتیجے میں انکی پیدائش ہوئی اور زندگی کا خوبصورت تحفہ انکو ملا۔

جوان بہن بھائی اپنی بلوغت کی نشانیوں (پیریڈز اور احتلام) کو ایک دوسرے سے پوشیدہ رکھتے ہیں، حالانکہ انکو مل کر خوشی منانا چاہیے کہ وہ عمل تولید کے اہل اور صحتمند ماں باپ بننے کے لیے تیار ہو چکے ہیں۔ مزید مثالیں آپ کے تخیل پر چھوڑتا ہوں اور صرف آخری بات پر آتا ہوں اور وہ یہ کہ ایسی برین واشڈ اور چارجڈ خواتین جن کو مغربی معاشرے کا ہر گوبر حلوہ نظر آتا ہے، کے علاوہ معاشرے کے ہر فرد کو یہ سمجھ ہے کہ شرم و حیا انسانی زندگی میں کس حد تک فطری اور ضروری ہے۔

شرم و حیا کے تقاضے پابندیاں نہیں فطری ضرورت ہیں۔ انسانی معاشرے کی نفسیات کے صحتمند ہونے کی علامت ہیں۔ جنگل میں جانور ان دیکھی فطرت کے تحت اپنے بول و براز اور جنسی ملاپ کے معاملات میں حیا کو سامنے رکھتے ہیں تو انسان تو خود کو ان جانوروں سے بہتر سمجھتا ہے اور شعور رکھتا ہے۔

آخر پر یہ سوال میں پڑھنے والوں پر چھوڑتا ہوں کہ کیا ہمیں انسانی معاشرے میں موجود ان جانوروں سے بدتر رویوں کے حمایتیوں کو "ماڈرن" سمجھنا چاہیے؟