دين و دانش
عمرہ و حج کا جنون
منصور نديم
ہمارے ہاں بد قسمتی سے حج کو فریضہ یا عمرہ کو نفل سمجھنے سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ گلیمرایز کردیا گیا ہے-میرا یہ مضمون خاص طور پر برصغیری مذہبی تفہیم رکھنے والے لوگوں کے لیے ہے۔ چند دن پہلے دبئی سے ایک دوست کا فون آیا اس نے مجھے کہا کہ یار ہمارے ایک جاننے والے جدہ کے پاس ہی کہیں رہتے ہیں اور وہ صاحب ڈرائیور ہیں اور انہوں نے اسی سال حج کیا تھا اور یہ حج کرنے کے لیے وہ حکومت کے پروگرام "تصریح" یعنی حکومتی اجازت نامے کے بغیر چھپ کر کرنے کے لیے گئے تھے۔ اور ان صاحب کو ابھی ان کے موبائل پر میسج کے ذریعے اطلاع ملی ہے، کہ انہیں 10 ہزار ریال (پاکستانی 7 لاکھ تیس ہزار روپے) کا جرمانہ ہو چکا ہے، کیونکہ حج کے دوران انہیں جب چیک کیا گیا تو ان کے پاس تصریح "حکومتی اجازت نامہ" موجود نہیں تھا- مقامی انتظامیہ نے ان کا اقامہ نمبر نوٹ کر لیا اور انہیں اب یہ جرمانے کا میسج آیا ہے۔ مجھ سے انہوں نے پوچھا کہ کیا ان کا یہ جرمانہ معاف ہو سکتا ہے؟ میں نے اسی وقت انہیں کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ جرمانہ معاف ہوگا لیکن میں معلومات لے لیتا ہوں- میں نے جب معلومات لینے کے لیے چند دوستوں کو فون کیا تو مجھے پتہ چلا کہ ان سب دوستوں کے بھی کئی جاننے والوں کو 10 ہزار ریال سے لے کر 25 ہزار ریال تک کے جرمانے آئے ہیں، جنہوں نے بغیر تصریح کے حج کرنے کی کوشش کی تھی۔ اب ان کے لیے مصیبت یہ ہے کہ انہیں ملک بھی چھوڑنا پڑ سکتا ہے کیونکہ ایسے خلاف ورزی کرنے والوں کے اقامہ رینیول نہیں ہوتے، اور جرمانے کی رقم تو ہر صورت بھرنی پڑے گی ورنہ انہیں جیل بھی ہو سکتی ہے۔
دوسرا واقعہ جو آج ہی انباكس میں موصول ہوا ہے- ايك صاحب نے اپنے والد کے عمرہ پر جانے کے لیے مشورہ کرنا تھا، ان کے والد کی عمر 50 سال سے زیادہ تھی گردوں کے امراض میں مبتلا تھے، شوگر وغیرہ بھی تھی، سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ ان کے والد کا ہر تیسرے دن ڈائلیسز ہوتا تھا، وہ اپنے والد کو کسی گروپ کے ساتھ عمرہ پر بھیجنا چاہتے تھے، اور مجھ سے ان کے لیے طبی حالت کی سعودی عمرہ جانے والوں کے متعلق معلومات جاننا چاہتے تھے، کہ کیا انہیں عمرے کے دوران ہر تیسرے دن سعودی حکومت کی طرف سے ڈائلیسس کی سروس مل جائے گی۔ بہرحال میں نے انہیں قابل گزارا معلومات بھی دی تھیں اور یہ بھی بتایا تھا کہ حج کے لیے ایک مخصوص انشورنس ہوتی ہے، اس میں آپ کو باقاعدہ اپنے والد کی کنڈیشن کا اندراج کروانا ہوگا کہ انہیں ہر تین دن بعد ڈائلسز کی سروس چاہیے ہوگی- ٹریول ایجنٹ سے یا ویزا ایجنٹ سے یا جس سے بھی آپ پروسیس کروا رہے ہیں اس سے اس بات کی لازمی کنفرمیشن لیجئے گا، پھر انہوں نے مجھ سے میرا مشورہ مانگا، جو میں نے بالکل ایمانداری سے کہا کہ"عمرہ فقط ایک نفلی عبادت ہے اور ایک ایسے بوڑھے شخص کو یہاں بھیجنا، جو ایک موذی مرض مبتلا ہوں اور انہیں ہر تین دن بعد ڈائلیسس کی ضرورت بھی ہے، میرا نہیں خیال کہ ایسے کسی بھی شخص کو عمرے پر بھیجنا چاہیے مزید ظلم یہ کہ اس کے ساتھ کوئی بھی اس کا اپنا گھر کا فرد یا عزیز نہیں ہوگا۔"
اس دن کے بعد انہوں نے آج مجھے یہ میسج بھیجا ہے، اس کا متن واضح ہے کہ جن دنوں انہوں نے والد کو عمرے پر بھیجنا تھا، انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ انہیں نہ بھیجا جائے، اور انہی دنوں ان کا انتقال ہوا، ان کا انتقال اپنے گھر والوں اپنے بیٹوں سب کے سامنے ہوا، ان کے بچوں نے ان کی خدمت بھی کی، اب بالفرض اگر یہ عمرے پر آئے ہوتے تو یہ بھی طے نہیں تھا، کہ پاکستانی ایجنٹ واقعی ان کی انشورنس میں ڈائلیسز ڈلواتے بھی ہیں کہ نہیں، کیونکہ ہمارے ہاں 90 فیصد ٹریول ایجنٹ اور عمرہ ایجنٹ جھوٹ ہی بولتے ہیں۔ عمرہ فقط ایک نفلی عبادت ہے, اگر آپ میں استعداد نہیں ہے تو آپ کو کسی بھی صورت میں اس کی تگ و دو نہیں کرنی چاہیے، اس تگ و دو سے مراد مالی بھی ہے اور جسمانی بھی ہے۔ اسی طرح حج کرنے کا معاملہ ہے، حج اسلام کا پانچواں فریضہ ہے لیکن یہ کنڈیشنل ہے یعنی یہ بھی آپ کی استطاعت کے ساتھ ہی جڑا ہوا ہے اس کی فرضیت تبھی ہوتی ہے، جب آپ اسے ادا کرنے کی استعداد رکھتے ہوں۔ چاہے آپ سعودی عرب میں موجود ہوں، یہاں کے حکومتی قانون کے مطابق اگر آپ میں حکومتی تصریح لینے کی استعداد نہیں ہے، تو آپ کو حج کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے، مالی استعداد نہ ہونے کی وجہ سے یہ آپ پر فرض بھی نہیں ہے، اور چھپ کر حج کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ جس ریاست میں رہتے ہیں اس ریاست کی حکم عدولی کر رہے ہیں، اس ریاست کا قانون توڑ رہے ہیں، کیونکہ حج شروع ہونے سے پہلے یہاں پر اچھی خاصی اس بات کی تشہیر کی جاتی ہے کہ آپ غیر قانونی حج نہ کریں، ورنہ آپ پر جرمانہ ہوگا ہر شخص کو باقاعدہ اس حوالے سے موبائل فون پر میسجز آتے ہیں، سڑکوں پر بل بورڈز لگے ہوئے ہوتے ہیں، اس طرح کے حج سے تو آپ رب تعالیٰ کے بھی مجرم ہیں، اور آپ اپنے گھر والوں کے بھی مجرم ہیں، کیونکہ اب یہ جو رقم آپ ادا کریں گے، اور جس مقصد کے لیے آپ پردیس میں پیسے کمانے کے لیے آئے تھے، اس میں آپ اپنے گھر والوں کو بھی تکلیف میں مبتلا کریں گے۔
پاکستان کا یہ المیہ ہے کہ دو دہائیوں سے رنگ برنگے ایسے نعت خوان پیدا ہوئے ہیں، جو باقاعدہ عمرہ ٹریول کی مارکیٹنگ کرتے ہیں، جن میں سر فہرست اویس قادری اور فرحان قادری یہ سمجھ لیں کہ ہر طرح کے زرق برق لباس والے ٹن ٹنا ٹن قادری، اور اب تو دیوبندیوں میں بھی یہ ٹرینڈ خاصا مقبول ہو گیا ہے، ہر دوسرا مولوی اپنی عمرہ ٹریول ایجنسی بنا کر بیٹھا ہوا ہے۔ کچھ تو خدا کا خوف کریں یار، پاکستان جیسے غریب ملک میں آپ عمرے کو ایک خاص ٹرینڈنگ کے طور پر پیش کرتے ہیں، عمرہ فقط ایک نفلی عبادت ہے، میں ہرگز ان کے لیے نہیں کہہ رہا جو مالی استعداد رکھتے ہیں۔ وہ چاہیں تو سال میں چار چار بار آ کر عمرہ کریں۔ مگر ایک نفلی عبادت کو اس طرح خاص طرز پر گلیمرائز بھی نہ کریں۔ آپ نے عمرے کے دوران تصویریں کھینچنی ہیں، ٹک ٹاک پر لگانی ہے، ان سارے معاملات سے عمرے کی فضیلت میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا، اس کی حیثیت نفلی ہی رہے گی۔ اور حج کے لیے بھی جو لوگ قرضے لے کر اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال کر، بیماریوں میں عجیب و غریب مسائل پیدا کر کے حج کرنے آتے ہیں، انہیں بھی سوچنا چاہیے کہ حج کا فریضہ ان کے لیے نہیں ہے۔ مجھے اندازہ ہے کہ بہت سارے لوگ اس بات پر ناراض بھی ہوں گے، مگر یہی سچ ہے زندگی میں آپ پر زیادہ سے زیادہ ایک حج فرض ہے اور وہ بھی آپ کی مالی اور جسمانی استعداد کے مطابق فرض ہے۔ لیکن کئی مولوی بھی اس کی اتنی فضیلت بتاتے ہیں، اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کئی قاری اور مساجد کے آئمہ خود تو حج کی بلا واسطہ وسعت نہیں رکھتے، لیکن وہ لوگوں کو اتنے فضائل بتا کر پھر ان کے مرحومین کے نام پہ ان کے خرچے پر حج کرنے آتے ہیں جسے حج بدل کہا جاتا ہے۔
مذہب آپ پر ایسا کوئی سخت جبر نہیں رکھتا، آپ کی استعداد ہے تو آپ حج اور عمرہ ضرور کریں اللہ آپ کو توفیق بھی دے، مگر یہ سادہ سی بات سمجھ لیں کہ حج اور عمرہ نہ دوسروں کے لیے کرنا ہے اور نہ اپنی ذات کو شدید مشکلات میں ڈال کر کرنا ہے ۔