ایک رات کا واقعہ ہے کہ میں بالکل اکیلا سپین کے شہر بالینسیا میں واقع ایک ڈسکو کلب میں شراب پی رہا تھا اور ساتھ ساتھ اپنے نزدیک موجود لوگوں کو غور سے دیکھ رہا تھا، اپنی زندگی کے بارے میں سوچتے ہوئے میرے ذہن میں یہ بات آ رہی تھی کہ میری اور میرے گرد موجود لوگوں کی زندگی کتنی خشک اور خالی ہے، اور میں اپنی زندگی کا مقصد سوچ رہا تھا۔میں اکثر زندگی کے دھکوں اور دیگر ذہنی پریشانیوں سے بچنے کے لیے الکوحل اور شراب کے نشے میں پناہ لینے کی کوشش کرتا تھا اور اپنا پیسہ اسی طرح ڈسکو اور نائٹ کلبوں میں خرچ کرتا تھا۔
ہمیں بچپن سے جو بات بتائی جاتی ہے کہ یہ دنیامحض ایک حادثے کا نتیجہ ہے اس بات پر میرا یقین نہیں ٹھہرتا تھا اور میں ہمیشہ سے یہ سوچتا تھا کہ کوئی اور ایسی ذات ضرور موجود ہے جو ہم سب سے اعلیٰ اور بلند ہے۔میں نے محسوس کیا کہ مجھے کسی اور ایسے راستے کی تلاش کرنی چاہیے جو کہ اس دنیا کے خالق و مالک کا راستہ ہے جس نے اس ساری کائنات میں موجود اشیاء کو بالترتیب بنایا ہے اور جس کے حکم سے انسانیت کا وجود ہے اور ہمارے اندر عقل و دماغ موجود ہیں۔
جو مذہب میرے والدین نے مجھے سکھایا تھا وہ میرے روحانی سوالات کا جواب نہیں دیتاتھا اور میں کسی ایسی چیز کو بنیاد نہیں بنا سکتا تھا جو تضادات سے بھرپور ہو، ان تضادات کی وجہ تاریخ انسانیت میں آسمانی صحائف میں ہونے والی تبدیلیاں ہیں، میں کسی ایسی چیز کو بنیاد نہیں بنا سکتا تھا جس کو انسانوں نے بنایا ہو اور اس میں غلطیوں کا امکان بھی موجود ہو، خدا کے سامنے عبادت کرنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ سے بنی ہوئی تصاویر کی عبادت کرنے والی بات بھی میری عقل سے بالاتر تھی۔میرے اندر موجود روحانی خلا کو فِل کرنے لیے میں جن چیزوں کا استعمال کرتا تھا ان سے مجھے کوئی فائدہ نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ مجھے مزید خالی و کھوکھلا کرتی جاتی تھیں اور میرے اندر اعتماد کی کمی میں بھی اضافہ ہوتا چلا جاتا اور ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا کہ میں مزید پریشان اور دکھی ہوتا چلا گیا۔
اپنی نوجوانی کے دوران میرا عربی دوستوں سے بہت واسطہ رہا، وہ سب میرے بہت اچھے دوست تھے لیکن میں نے کبھی ان سے دین اسلام کے بارے میں معلومات نہیں لیں اور نہ ہی یہ بات میرے ذہن میں آئی تھی۔میں نے بدھ مت، ہندومت سمیت دنیا کے دیگر مذاہب کے بارے میں تحقیق کی لیکن اسلام کے بارے میں تحقیق کرنے کا کبھی نہیں سوچا اور نہ ہی یہ چیز میرے ذہن میں آئی۔ اسلام کے بارے میں میرے اندر کچھ ایسے خیالات موجود تھے جن کی وجہ سے اسلام کے بارے میں سوچنے کا دور دور تک خیال ہی نہ آیا۔لیکن ایک دن مجھے ایک مراکشی بھائی ملا تو میرے اندر تجسس پیدا ہوا، کیونکہ اس کا چال چلن اور اسکا زندگی کے مسائل کو حل کرنے کا ایک مخصوص طریقہ تھا۔ چنانچہ میں نے اس سے ایسے سوالات کرنے شروع کر دیے جو عام طور پر ایک جاہل کافر کرتا ہے۔ سوالات کا جواب دیتے وقت میری طرف سے اس کو سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مجھ جیسے ضدی اور بے عقیدہ انسان کو منانا آسان کام نہیں تھا۔میرے اس رویہ کے سامنے اس نے ہمیشہ سکون اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ میں نے تہیہ کر رکھا تھا کہ وہ مجھ سے نہ جیت سکے۔ میں ہمیشہ یہ سمجھتا تھا کہ میری بات صحیح ہے اور میں اگلا سوال کرنے سے پہلے تھوڑا وقفہ چھوڑ دیتا تھا۔ اصل میں میری مزاحمت سچ کے سامنے جھوٹ کے علاوہ کچھ اور نہ تھی، کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ سچ کو پہچاننا اور ماننا کافی مشکل ہے (سچ کڑوا ہوتا ہے)،اور اسلام کو صحیح طریقہ سے سمجھانا بھی کوئی آسان کام نہیں تھا۔ تو ہوا یہ کہ آہستہ آہستہ میری دلچسپی میں اضافہ ہوتا گیا لیکن ہمیشہ میں نے اپنی مزاحمت کو برقرار رکھا۔کچھ مہینوں کے بعد میں نے خنزیر کا گوشت کھانا چھوڑ دیا اور شراب پینی بھی چھوڑ دی کیونکہ میرے اندر ایک تبدیلی آچکی تھی اور اب میں ان چیزوں کو اپنا دشمن تصور کرتا تھا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ پیدائش کے وقت ہم سب کا دین اسلام ہی ہوتا ہے (لیکن بعد میں والدین کوئی اور راستہ سکھا دیتے ہیں ) اور جب میں نے اسلام کو اپنے دل پر اثر انداز ہوتے ہوئے دیکھا تو اس وقت صرف یہ ہوا کہ میں اپنے اصلی دین کی طرف واپس پلٹ آیا جس پر میں پیدا ہوا تھا میں نے اپنے اسلام کو دوبارہ پا لیا اور اسی وجہ سے ہوش و حواس کے سات میرا جسم ان چیزوں (شراب و خنزیر)سے نفرت کرنے لگ گیا۔ اس کے علاوہ بہت سارے اسلامی رسم و رواج میرے اندر پہلے سے موجود تھے بیشک میں خنزیر کھاتا تھا لیکن ہمیشہ کوشش ہوتی تھی کہ نہ کھاؤں۔ خدا کو ہمیشہ میں واحد جانتا تھا تثلیث کے عقیدے پر میرا ایمان نہ تھا۔ میرا یقین تھا کہ خدا کی کوئی جنس یا تعداد نہیں ہو سکتی، کہ میں خدا کو مذکر یا مونث نہیں کہہ سکتا اور نہ ہی میں خدا کے بارے میں یہ تصور کرتا تھا کہ وہ کوہ قاف کے کسی اونچے خاندان کی ایک با ریش اور قوی ہیکل شخصیت ہے۔
اصل اور سچے اسلام تک پہنچنے کے لیے مجھے ان تمام غلط اور جھوٹے اعتراضات کا رد کرنا پڑا جو عام طور پر اسلام سے منسوب کیے جاتے ہیں اور ان پر میں اپنے بچپن کے معصوم دور سے اب تک یقین کرتا آیا تھا۔ جب میں نے یہ سب کچھ سوچا تو مجھے دلی طور پر گہرا دکھ پہنچا۔ کیونکہ میرے معاشرے نے اتنا عرصہ اسلام کو غلط پیش کیا اور میں سچ تک نہ پہنچ سکا۔مجھے محسوس ہوا کہ اسلام صرف ایک مذہب ہی نہیں بلکہ انسانی زندگی کا ایک فلسفہ اور مکمل ضابطہ ہے، اور یہ انسان کو اس کی زندگی میں پیش آنے والے ہر کام میں مدد کرتا ہے۔ الغرض اسلام ایک تہذیب کا نام ہے۔ اس مراکشی بھائی سے اتنی لمبی گفتگو کے بعد اب میں نے اس حقیقت کو تسلیم کرنا شروع کر دیا کہ میں اور میرے عزیز واقارب سب غلط تھے۔
میں نے اپنے یقین کو مکمل کرنے کے لیے یکم اگست 1997 کو زندگی میں پہلی مرتبہ ایک مسجد جانے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اپنے اس مراکشی بھائی کو کہا کہ وہ مجھے ساتھ لے کر جائے تاکہ میں جان سکوں کہ وہاں جا کر میں اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتا ہوں۔ میں اپنے اس دن کو مکمل تفصیلات کے ساتھ تاحیات یاد رکھوں گا۔ میں اپنے ان جذبات کا اظہار الفاظ میں نہیں کر سکتا جو مسجد میں داخلے کے وقت میرے اندر موجود تھے۔مجھے میرے مراکشی دوست نے مسجد میں نماز کی جگہ دکھائی اور میں نے اذان بھی سنی اس کے بعد ہم امام مسجد کے حجرہ کی طرف آئے۔ اس وقت نمازِ ظہر کا وقت تھا اور جمعہ کا دن تھا اس لیے امام نے مجھے کہا کہ تم یہاں کمرے میں رہو اور نمازِ جمعہ کے بعد بات کریں گے۔ امام کے کمرے میں اس طرح بیٹھا کہ مجھے ساری مسجد کا منظر نظر آرہا تھا کیونکہ دروازہ کھلا ہوا تھا۔ سب لوگ نماز پڑھ رہے تھے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کو نماز پڑھتے دیکھ کر میرے ایمان میں مکمل مضبوطی آگئی۔میرے اندر اس وقت جو جذبات تھے ان کو کاغذ پر بیان کرنا ممکن نہیں، خاص کر جب اذان ہوئی تھی اور جب سب لوگ مل کر آمین کہتے تھے ! (اس وقت میرے جسم کے اوپر اور اس کے اندر جو محسوس ہوتا تھا اس کو میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا)۔ اس وقت میں سمجھ چکا تھا کہ میں اب مسلمان ہوں۔بعد میں میری امام سے گفتگو ہوئی۔ میرے ساتھ (Bego241a) نامی ہسپانوی لڑکی اور دو مزید ہسپانوی نوجوان موجود تھے جو قبولِ اسلام کے لیے آئے ہوئے تھے۔ امام ہم سب کو اسلام کے بارے میں بتا رہا تھا، بتانے کے بعد امام نے اس لڑکی سے پوچھا کہ وہ اسلام میں داخل ہونا چاہتی ہے تو وہ لڑکی آنکھوں میں خوشی کے آنسو لیے میرے سامنے اسلام میں داخل ہوئی۔وہ جذبات سے رو رہی تھی لیکن سچ یہ ہے کہ میں بھی رونے کے بالکل قریب تھا۔ اس لڑکی کا چہرہ نور سے روشن تھا۔ میرے سامنے یہ پر سکون واقعہ میرے لیے بہت ہی مددگار ثابت ہوا اور اس واقعہ نے میرے یقین کو مزید تقویت دی۔
میں نے یہ دیکھا کہ اسلام زندگی میں پیش آنے والے ہر قسم کے سوالات کا جواب دیتاہے، میں ان میں سے کچھ مثالیں پیش کروں گا۔
اسلام ہماری سمجھ میں نہ آنے والے تمام سوالات کا جواب دیتا ہے۔اسلام میں جانوروں اور نباتات کے حقوق کے بارے میں قانون موجود ہیں۔اسلام سائنس کا ساتھ دیتا ہے جبکہ عیسائیت اس کے خلاف ہے۔قرآن میں موجود پانی سے زندگی کے وجود میں آنے والی بات نے مجھے بہت حیران کیا۔ اس کائنات کی تخلیق کے بارے میں قرآن میں موجود معلومات جس کو سائنس دانوں نے ابھی دریافت کیا ہے اور اس کا نام BIG BANG THEORY رکھا ہے اس نے بھی مجھے بہت حیران کیا۔ماں کے پیٹ کے اندر بچے کی پیدائش کے بارے جو معلومات قرآن کے اندر موجود ہیں اس نے بھی مجھے کافی حیران کیا۔ قرآن میں بچے کی پیدائش کا ہر مرحلہ اور اس کے دنوں کا حساب بھی موجود ہے جن کی موجودہ سائنس نے تحقیق اور توثیق کی ہے۔ قرآن مجید کی ان آیات کو پڑھ کر میں بہت مثاثر ہوا۔
اس دن کے علاوہ مزید دو دن میں امام صاحب سے سیکھنے اسی مسجد جاتا رہا، اور وہ وقت آیا جب 4 اگست 1997 کو شام 5 بج کر 50 منٹ پر میں نے قبولِ اسلام کا اعلان کیا۔اس کے بعد بہت سارے مسائل پیدا ہوئے جن کا ہر اسلام قبول کرنے والوں کو سامنا کرنا پڑتاہے۔ ان میں سے زیادہ دکھی مسائل عموماً گھر والوں اور دوستوں کے ساتھ ہوتے ہیں، لیکن اگر ہمارے اندر پختہ یقین موجود ہو تو یہ سب کچھ بھی نہیں ہوتا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا کرم ہے۔یہ مسائل وقت کے ساتھ ساتھ حل ہوتے جوتے ہیں۔
اسلام انسانوں میں اختلاف میں ڈالنے کے لیے نہیں آیا بلکہ ان کو اتحاد کی دعوت دینے آیاہے اور یہ اس زمین پر سب سے بڑا رواداری کا سبق دینے والا مذہب ہے۔ ایک دن میں نے اپنے اندر آنے والی عظیم تبدیلی کی اہمیت کے بارے سوچا۔ میرے جیسے نئے مسلمان جو اسلام میں داخل ہوتے ہیں یہ ہم پر اللہ تعالیٰ کا فضلِ خاص ہوتا ہے جو ہمیں کفروضلالت کے تاریکی راستے سے ہٹا کر ہدایت کے سیدھے اور روشن راستے پر گامزن کرتا ہے۔ ہمیں جہالت سے نکل کر سیدھی راہ پر آنے کا احساس ہونا چاہیے۔ اس بات کو دوسرے الفاظ میں یوں سمجھنا چاہیے کہ ہمیں اس توفیقِ باری تعالیٰ پر اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
ہمیں اس بات کا بھی احساس ہونا چاہیے کہ موجودہ دور اسلام کے لیے بہت سخت ہے۔ مسلمان ممالک میں ہونے والے واقعات سے ہمیں مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہیے اور ہمیں اپنے ان بھٹکے ہوئے بھائیوں کو دیکھ کر (جو اسلام کے نام پر بعض ایسی چیزوں کو اختیار کئے ہوئے ہیں کہ جن کا اسلام سے کوئی واسطہ ہی نہیں ) اپنے ایمانوں کو کمزور نہیں کرنا چاہیے۔ اکثر اوقات جب ہمیں دوسرے لوگ بتاتے ہیں کہ اسلام یہ کہتا ہے تو ہم پریشان ہو جاتے ہیں، ہمیں (اس طرح کے مسائل کے حل کے لیے) سب سے پہلے اپنی تربیت کرنی چاہیئے، ان لوگوں کے پاس جا کر جو صحیح معنوں میں اسلام کو سمجھتے ہوں مثلاً ایک امام مسجد اور ہمیں کسی بھی ایسے ویسے (ایرے غیرے)کی باتوں میں نہیں آنا چاہیے۔
ہر مکتبہ فکر کی بات کو سنیے ضرور لیکن خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ کہنے والا جو کہہ رہا ہے وہ درست ہے یا غلط، کیونکہ بدقسمتی سے بہت سے ایسے مسلمان ہیں جو اعلانیہ کہتے ہیں کہ ہمیں بہت کچھ معلوم ہے لیکن یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ زیادہ تر جہالت ہی ہوتی ہے اور اگر ہم نے اس کو کنٹرول نہ کیا تو یہ جہالت ہمیں بہت نقصان پہنچا سکتی ہے۔ میرے خیال کے مطابق یہ نقصان دو طرح کا ہو سکتاہے ، اس سے ہمارے ایمان میں کمزوری حتی کہ ایمان کا خاتمہ بھی ہو سکتاہے یا یہ بھی ممکن ہے کہ ہم بھی گمراہ ہو کر اسی جہالت کی تبلیغ شروع کر دیں اور اس طرح جاہلوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے۔
میری زندگی مکمل طور پر تبدیل ہو چکی ہے۔ میں اپنے آپ کو ایمان سے لبریز اور مکمل محسوس کرتا ہوں اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ میں از سر نوپیدا ہوا ہوں۔ میرا نام خالد ہے اور میرا خیال ہے کہ ہمیں اسلام کا اصلی چہرہ پیش کرنے کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے اور اسلام کے نام پر ہونے والے غلط کام کو روکنا چاہیے۔
بشکریہ : (بشکریہ ،پیغام ڈاٹ کام)