فكر ونظر
ساس سسركی خدمت
صفتين خان
مولانا اشرف علی تھانوی سے لے کے مولانا طارق جمیل تک، مولانا طارق مسعود سے قاری حنیف ڈار تک کئی علماء بہو پر ساس سسر کی عزت و خدمت کو شجر ممنوعہ قرار دیتے چلے آ رہے ہیں۔ اس سے آگے بڑھ کر بیوی پر گھر کے کام کاج کی پابندی کو بھی اس کی بنیادی ذمہ داریوں سے خارج کر دیتے ہیں۔ ایک بنیادی انسانی شرف جس کے بغیر انسان کے اخلاقی وجود کی تکمیل ممکن نہیں اس کی نفی اسلام کے نام پر کی جا رہی ہے۔ انسانی احساس کی ایسی المناک تعبیر جو قران کے تصور نکاح سے پیدا ہونے والے سماجی ڈھانچے کو باطل کر دیتی ہے۔ ایک ایسی فکر جو جدید عورت کو بدتمیز اور خود غرض بناتی ہے۔
ایک ایسا سسرالی رشتہ جسے خدا نے حرمت ادا کر دی بزرگی کا مقام دے کر اس سے محبت و ایثار کے تعلق کو انسانی آزادی، فرض اور عزت نفس کے خلاف ثابت کیا جا رہا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام جیسا خالصتاً ثقافتی مظہر جو موجودہ مہنگائی میں بہت سوں کی زندگی کے لیے ناگزیر ہے کو ایک بدترین سماجی برائی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
یہ بات درست کہ عورت کا الگ گھر ایک فطری خواہش اور آئیڈیل صورتحال ہے لیکن کبھی مطلوبہ صورتحال کو ایک ناگزیر عالمگیر اصول کے طور پر سامنے نہیں لانا چاہیے جس کی خلاف ورزی احساس جرم پیدا کرے۔نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے اور انسان کی ہزاروں سالہ تاریخ کے عرف پر کھڑا ہے۔ انسانی تمدن میں شوہر ہمیشہ مالی و خارجی جب کہ بیوی داخلی محاذ سنبھالتی ہے۔ گھر کے محاذ کی حدود میں تمام کام اور رشتے اسی کے فرائض میں شامل ہیں۔ براہ راست عورت صرف خاوند اور بچوں کی ذمہ دار ہے لیکن اگر کوئی اور چارہ کار نہ ہو تو ایک حد تک ساس سسر کی بنیادی خدمت کالعدم نہیں ہو جاتی۔ اس کو سمجھنے اور طے کرنے کے لیے کسی وحی کے نزول کی ضرورت نہیں۔ یہ فطری تمدن اور اخلاقیات ہے۔