دين و دانش
لفظ "اہل بیت" اور ہمارا شیعی رجحان
فہد حارث
اہلسنت کے ذہن کس حد تک شیعی رجحان کے آئینہ دار بن چکے ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جیسے ہی لفظ "اہلِ بیت" بولا یا لکھا جاتا ہے تو ہم سب کا ذہن غیر شعوری طور پر ایک خاص خاندان اور ان کی آل اولاد کی جانب منتقل ہوجاتا ہے۔کسی کے ذہن میں بھی حقیقی و قرآنی اہل بیت یعنی ازواج النبی ﷺ کا خیال تک نہیں آتا۔ یہاں تک کہ اگر ہم "صحابہ اور اہل بیت " کے مابین محبت و الفت اور یگانگت کے واقعات و روایات بھی بیان کرتے ہیں تو اس میں بھی صرف ایک مخصوص خاندان اور صحابہ کے تعلقات کا ذکر کرتے ہیں اور ازواج النبی ﷺکو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ جبکہ اصل، حقیقی اور قرآنی اہل بیت صرف اور صرف ازواج النبی ﷺ ہیں ۔ دیگر مقدس شخصیات جن کو اہل بیت کہا جاتا ہے وہ نبیﷺ کی نسبت سے مجازی و حدیثی اہل بیت ہیں۔ حقیقی طور پروہ سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ کے اہل بیت ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے سیدہ خدیجہؓ، سیدہ عائشہؓ، سیدہ زینبؓ، سیدہ صفیہؓ، سیدہ سودہؓ، سیدہ ام حبیبہؓ، سیدہ ام سلمہؓ اور دیگر ازواج مطہرات نبیﷺ کی حقیقی اہل بیت ہیں۔
یہ ناقص شیعی رجحان ہمارے اندر اس قدر پنپ چکا ہے کہ ایک موحد صاحب کو یہ تک کہتے ہوئے سنا کہ جو ماہِ محرم میں غم حسینؓ کا اظہار نہ کرے وہ دشمنِ اہل بیت ہےجبکہ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ان صاحب کو یہ تک معلوم نہ ہوگا کہ حقیقی اہل بیت یعنی ازواج النبیﷺ کی وفات کس روز کس سن میں ہوئی اور نہ ہی آج تک انہوں نے کبھی ازواج مطہرات رضوان اللہ اجمعین کی وفات پر کسی غم کا اظہار یا کوئی تحریر لکھی ہوگی۔ یہاں تک کہ ہوسکتا ہے کہ کسی بھی ام المومنین کے انتقال والے روز انہوں نے کوئی شادی بھی اٹینڈ کی ہو یا کوئی خوشی بھی منائی ہو جبکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ محرم کے شروع کے دس دنوں میں شادی بیاہ کرنا مناسب نہیں اور ایسا کرنا بغضِ اہل بیت کے سبب ہی ہوسکتا ہے۔خیر آمدم برسرِ مطلب اس امت میں اہل بیت کا حقیقی و اولین مصداق ازواج النبیﷺ ہیں کہ وہ قرآنی اہلبیت ہیں۔ اس کے بعد جتنے لوگ اہل بیت کہے جاتے ہیں تو وہ مجازی و حدیثی اہل بیت ہیں۔ چنانچہ اہل بیت ہونے کی نسبت سے جتنے اعزاز و مراعات اور پریلویجز (Privileges) اہل سنت کے ہاں رائج ہیں، ان کی اولین و حقیقی حقدار نبیﷺ کی ازواج ہیں، اس کے بعد پھر دوسری مقدس شخصیات کا نمبر آتا ہے۔اور ہر وہ حق و اعزاز جو اہل بیت ہونے کے باوجود امہات المومنین کو حاصل نہیں، وہ اہل بیت کہلانے والے کسی دوسرے گروہ افراد کو بھی قطعی میسر نہیں آسکتے جیسا کہ عموماً اہل بیت کا راگ الاپ کر ان حضرات کو ایسے کئی حق و اعزاز مہیا کئے جاتے ہیں۔
جہاں تک بات رہی انجینئر محمد علی مرزا کی کہ عورت صرف شوہر کی زندگی تک اسکی اہلبیت ہوتی ہے، اس کی وفات کے بعد نہیں، پس امہات المومنین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد اہلبیت کے اعزاز سے خارج ہوچکی ہیں تو مرزا صاحب جیسے لوگوں کو اپنے علم میں اضافہ کرلینا چاہیئے کہ عورت مرنے کے بعد جب تک دوسرا نکاح نہیں کرلیتی وہ متوفی کے اہلبیت میں سے خارج نہیں ہوتی۔ اور اللہ کی طرف سے نبی صلی علیہ وسلم کی بیویوں کو دوسرے نکاح کی ممانعت، گویا انکا اپنے مرتے دم تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر بیٹھے رہنا ہی اس بات پر دال بن جاتا ہے کہ اللہ کی طرف سے وہ تاقیامت اہلبیت میں داخل کردی گئی ہیں اور اللہ کے کلام میں کبھی نقص نہیں ہوسکتا۔