آواز دوست
یہ بھی پاکستان ہے
محمد صديق بخاری
ماہ ِجون 2018 کا واقعہ ہے کہ کراچی سے لاہور جانے والی شالیمار ایکسپریس کی ایک بوگی کا پہیہ ٹوٹ کر الگ ہو گیا۔ ٹرین سندھ کے علاقے محراب پور سے گزر رہی تھی۔اللہ نے ڈرائیور کی مدد کی اور اس نے عین وقت پر ایمر جینسی بریک لگا کر ٹرین کو ایک بڑے حادثے سے بچا لیا ۔سخت گرمی کے اندر ٹرین ویرانے میں کھڑی ہو گئی جون کی چلچلاتی دھوپ میں ،جبکہ درجہ حرارت کسی صورت ۴۵ ڈگری سے کم نہ تھا، لوہے کی ٹرین ایک تندور بن کر ر ہ گئی۔بچے پیاس سے بلکنے لگے اور بڑوں کے حلق بھی خشک ہونے لگے ۔ ریلوے انتظامیہ نے بتایا کہ ٹرین کو ٹھیک ہونے میں چھ گھنٹے لگ سکتے ہیں۔ تما م مسافر بے کسی کے عالم میں آسمان کی طرف دیکھ کر دعائیں کرنے لگے کہ شاید کہیں سے بادلوں کا ٹکڑا نمودار ہو جائے ۔ ایک گھنٹہ گزر گیا ، آسمانی بادل تو نہ آئے البتہ اللہ نے ’’زمینی بادل‘‘ بھیج دیے ۔ قریبی گاؤں کے باسی سروں پر ٹھنڈے پانی کے برتن رکھے ٹرین کی طرف بڑھنے لگے ۔ جس کے ہاتھ میں جو آیا وہ پانی سے بھر لایا۔بچے ،بوڑھے ،جوان سب ہی گلاس ، جگ، گھڑے ، کولر ، بوتلیں اٹھائے اپنے پاکستانی بھائیوں کی مدد میں جت گئے ۔ ابھی مسافر پانی پی رہے تھے کہ ایک جوان موٹر سائیکل ریڑھے پر چنے چاولوں کی دیگ لے آیا اور مسافروں میں تقسیم کرنے لگا۔مسافروں میں زیادہ تر پنجابی تھے اور خدمت کرنے والے زیادہ تر سندھی ۔ لیکن اس وقت کوئی سندھی ، پنجابی ، پشتون او ربلوچی نہ تھا، سب پاکستانی اور انسان تھے۔ محبت اور ایثار کے اس ماحول میں چھ گھنٹے گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا اور جب ٹرین رخصت ہونے لگی تو مسافر گاؤں والے کے گلے لگ کر ان کا شکریہ ادا کر رہے تھے اور ان میں بہت سے ایسے مسافر بھی تھے جن کی آنکھوں سے تشکر کے آنسو بھی ٹپک رہے تھے ۔گاؤں والے بھی اس وقت تک ٹرین کو ہاتھ ہلا ہلا کر الوداع کرتے رہے جب تک کہ ٹرین نگاہوں سے اوجھل نہ ہو گئی۔
اپنے ہم وطنوں سے محبت اور ان کے لیے ایثار کی یہ خوبصورت مثال پاکستانی میڈیا میں ہیڈ لائن نہ بنا سکی جبکہ دوسری طرف کہیں کوئی ایک کنکر بھی پھینک دے تو دیر تک اس میڈیا کے ’’جوہڑ‘‘ میں بھنور بنتے رہتے ہیں اور اس کے مینڈک ادھر ادھر پھدکتے رہتے ہیں۔نہ جانے ہمارے الیکٹر انک میڈیا کو ہر وقت قتل و غارت ، تشدد ، مار پیٹ ، دھونس دھاندلی ، رشوت ، چو ر بازاری ، بددیانتی ، لوٹ کھسوٹ اور دہشت گردی ہی کیوں نظر آتی ہے جبکہ اس کا تناسب پاکستانی معاشرے کے حجم کے اعتبار سے ایک دو فیصد سے زیادہ نہیں بنتا۔اتنی بڑی اکثریت کہ جن میں امن ، پیار ، محبت ، ہمدردی کی اقدار پوری قوت سے پائی جاتی ہیں اس کو نظر انداز کر نا کوئی وقتی اور اتفاقی غلطی نہیں ہے بلکہ یہ ایک شعوری اور سوچا سمجھا پلان لگتاہے ۔
یہ انسانی نفسیات کا ایک لازمی حصہ ہے کہ جس چیز کو جتنا سنا جائے ، جتنا دیکھا جائے ، جتنا بولا جائے، اتنا ہی وہ ہمارے حواس پر سوار ہو جاتی ہے اور انسان لا شعوری طور پر یہ سمجھنے لگتا ہے کہ جیسے یہی چیز معاشرے پہ چھائی ہوئی ہے۔ اس نفسیاتی عمل کو ہمارے قدیم علما بہت پہلے واضح کر گئے ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ کسی نیکی کا چلن معاشرے میں عام ہو جائے تو اس کو بولنا شروع کر دیں ، اس کو سننا شروع کر دیں اور اس کو دیکھنا شروع کر دیں تو اس نیکی کا گراف بتدریج بلند ہونا شر وع ہو جائے گا اور جس برائی کو آپ چاہتے ہیں کہ وہ معاشرے سے ختم ہو جائے تو اس کو ذکر کرنا ہی بند کر دیں، اس عمل سے آہستہ آہستہ وہ برائی معاشرے سے کم ہوتی چلی جائے گی۔
کاش کہ کوئی ہمارے میڈیا کو بتائے کہ سندھ کے میدان میں ٹرین کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا جو واقعہ پیش آیا وہ بھی اسی پاکستان کا ہے ۔ دنیا بھر میں تعلیمی میدان میں اعلی اعزاز حاصل کرنے والے بھی اسی پاکستان کے طالب علم ہیں ۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اعلیٰ کارکردگی دکھانے والے ماہرین اور سائنس دان بھی اسی پاکستان کے ہیں۔صدقہ ، خیرات وچیریٹی کے میدان میں بے حد و حساب خرچ کرنے والے لوگ بھی اسی پاکستان کے ہیں اوردنیا بھر میں قدرتی حسن کے اعتبار سے بے مثال مناظر بھی اسی پاکستان کے ہیں۔ لیکن کوئی اگر یہ بتا بھی دے تو پھر بھی ہمارے میڈیا کو یہ سب نظر نہیں آئے کا کیونکہ ان کے پاس ایک خاص رنگ اور ایک خاص نمبر کی عینک ہے، یہی وجہ ہے کہ انہیں وہی رنگ اور وہی چیزیں نظر آر ہی ہیں جو وہ چاہتاہے ۔اصل میں ہمارا میڈیا اس وقت ہاؤس فلائی بن چکا ہے جس کامحبوب مشغلہ ہر گندی چیز پر بیٹھنا ہے ۔کاش کہ ہمارا میڈیا شہد کی مکھی بنتا اور پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والے رنگ رنگ کے پھولوں کا رس چوستاتو آج دنیا کی نظروں میں پاکستان کی شکل و صورت اور نقشہ کچھ اور ہی ہوتا۔