بے جوڑ شادياں

مصنف : جويريہ ساجد

سلسلہ : سچی کہانی

شمارہ : جون 2024

سچی كہانی

بے جوڑ شادياں

جويريہ ساجد

میرا نام اسلم اقبال ہے میرا تعلق گاؤں سے ہے میں بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا چار بھائی اور ایک بہن مجھ سے بڑے تھے ابا زمینداری کرتے تھے۔شروع سے ہی میرا رجحان شہر کی جانب تھا میں جب چھوٹا تھا رشتے کے ایک چاچا کے ساتھ شہر آتا جاتا تھا مجھے گاوں کی زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں تھی چاچا ہمارے گاوں میں کھاد اور سپرے سپلائی کرتا تھا مال لینے شہر جاتا میں بھی ساتھ چلا جاتا میں چھوٹا تھا لاڈلا تھا ابا کا سہارا بننے کو مجھ سے بڑے چار جوان تگڑے بھائی موجود تھے اس لیے کسی کو میرے گاؤں میں رہنے نہ رہنے سے کوئی خاص فرق نا پڑتا تھا تھوڑی بہت پڑھائی کے بعد میں نے چاچا کو راضی کیا کہ وہ مجھے بھی اپنا کام سیکھائے میں نے اس کے ساتھ کام سیکھنا شروع کر دیا میں منڈی میں آڑہت کا کام سیکھتا گیا کچھ عرصے بعد میں نے ابا سے کچھ پیسوں کا تقاضا کیا تاکہ میں شہر میں اپنا کاروبار جما سکوں۔ بھائی ابا کے ساتھ زمینداری کرتے تھے ابا چاہتے تھے کہ میں کاروبار بھی کروں تو گاوں میں کروں مگر میں اس پہ راضی نہیں تھز مجھے گاوں کی زندگی پسند نہیں تھی میں شہر رہنا چاہتا تھا ایک ڈیڑھ سال بحث مباحثہ چلتا رہا آخر ابا نے فیصلہ کیا کہ اپنی زمین میں سے میرا حصہ بیچ کے وہ مجھے پیسے دے دیں گے ساتھ ہی شرط رکھی کہ میں شادی کر کے شہر شفٹ ہوں گا میں جلد از جلد شہر شفٹ ہو کے کاروبار سیٹ کرنا چاہتا تھا میں نے فوراً حامی بھر لی چار ماہ کے اندر میری اور میری بہن کی شادی ہماری اپنی برادری میں وٹہ سٹہ سسٹم کے تحت ہو گئی شادی کے بعد ابا نے میرے حصے کی زمین بیچ کے رقم میرے ہاتھ پہ رکھ دی۔

میں اپنی بیوی کو لے کے شہر آگیا کاروبار سیٹ کرنے میں مجھے کافی عرصہ لگ گیا میری خوش قسمتی میری بیوی بہت سمجھدار عورت تھی اس نے ہر قدم پہ میرا ساتھ دیا ہمارے دو بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں ہم دونوں میاں بیوی نے ان کے لیے بہت سے خواب دیکھے شہر کے اچھے سکولوں میں ان کا داخلہ کروایا اچھا رہن سہن دیا میرا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ہم سال میں دو بار عیدوں پہ بس کھڑے کھڑے گاؤں جاتے صبح گئے شام کو واپس آ گئے زیادہ تر تو میں اماں اور ابا کو شہر لے آتا بھائی بھی چکر لگاتے رہتے اماں ابا جب بھی شہر آتے میرے بچوں کو دیکھ کے آپس میں کھسر پسر کرتے رہتے اکبر کے لیے فلاں کی لڑکی اور اصغر کے لیے فلاں کی آمنہ فلاں کی دلہن بنے گی ماریہ فلاں کی۔ بیٹھے بیٹھے رشتے طے کرتے رہنا گاؤں کے لوگوں کا محبوب مشغلہ ہے اس لیے ہم دونوں میاں بیوی نے ان کی باتوں پہ کبھی کان نہیں دھرے نا ہی کوئی اہمیت دی۔

اکبر میرا بڑا بیٹا ہے اس سے دو سال چھوٹی آمنہ پھر اصغر اور ماریہ۔ جس سال اکبر نے میٹرک کر کے کالج میں داخلہ لیا اور آمنہ میٹرک میں آئی اس سال ابا کافی بیمار رہنے لگے ان دنوں میرے کاروبار میں کچھ مسائل تھے میں ان میں الجھا ہوا تھا نا گاوں جا سکا نا ابا کو شہر لا سکا چھ ماہ شدید علیل رہنے کے بعد ابا کا انتقال ہو گیا میرے لیے یہ بہت بڑا صدمہ تھا زہادہ افسوس اس بات کا کہ میں ابا کو شہر لا کے ان کا علاج نہیں کروا سکا میں بے حد پشیمان تھا اب اماں کو گاوں نہیں چھوڑنا چاہتا تھا اماں کو منت سماجت کر کے اپنے ساتھ لے آیا میں اور میری بیوی حاجرہ اماں کا پورا خیال رکھتے ان کے منہ سے نکلی بات پوری کرتے۔

وقت اپنی رفتار سے گزرتا رہا ایک بار میری بہن سلمی جو میرے وٹے میں تھی ہمارے پاس اماں سے ملنے شہر آئی ہوئی تھی میرا بیٹا اکبر بارہویں کے امتحان دے کے میرے ساتھ کاروبار میں شامل ہو چکا تھا میری بیوی حاجرہ میری بہن کی بیٹی کلثوم جو کہ حاجرہ کی بھتیجی بھی تھی اس کو اکبر کے لیے لینا چاہتی تھی حاجرہ نے سلمی نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو میری اکلوتی بہن خوشی سے نہال ہو گئی جب ہم کلثوم کا باقائدہ رشتہ لینے گاوں گئے تو سلمی کے شوہر (حاجرہ کے بھائی) نے اکبر اور کلثوم کے رشتے کے ساتھ میری بیٹی آمنہ کا اپنی بیٹے سلیم کے لیے ہاتھ مانگ لیا ہمارے گاوں میں یہ بالکل نارمل بات تھی وٹے سٹے کے رشتے ہونا اور جلد از جلد بیٹی کو بیاہ دینا لیکن میری بیٹیاں شہر میں پلی بڑھی تھیں میرے لیے یہ فیصلہ ہرگز آسان نا تھا ہمیں تذبذب کا شکار دیکھ کے سادی برداری نے ہم پہ رشتے کے لیے دباو ڈالنا شروع کر دیا میرے بھائی کہنے لگے ہم نے ہمیشہ تمہاری مانی آج تم ہماری مانو ان کی بات ٹھیک تھی لیکن دوسری طرف میری بیٹی تھی جس کو ہم نے بہت محبت اور پیار سے پالا تھا۔ اور شادی کے حساب سے سولہ سال ابھی اس کی عمر ہی کیا تھی۔

اماں بھی سمجھانے لگیں کہ لڑکیوں کی شادی کی یہی بہترین عمر ہوتی ہے تمہاری بہو بھی اسی عمر کی بچی ہے تو آمنہ کا رشتہ کیوں نہیں ہو سکتا خیر برادری کی باتوں میں آ کے میں نے رشتے کی حامی بھر لی ہمارے یہاں ڈھیر سارے بچے کھلے صحنوں میں مل جل کے کھیلا کرتے کبھی توجہ سے دیکھا ہی نہیں تھا کہ کس کا کون سا بچہ ہے دیکھ بھال کیے بنا ہم نے سلیم کو آمنہ کا رشتہ دے دیا۔رشتہ پکا ہوتے ہی اماں نے شادی کی تاریخ بھی پکی کر دی آمنہ اور اکبر کا رشتہ بہن کے گھر پکا کر کے اور شادی کے دن رکھ پکے جب میں اور حاجرہ گاوں سے واپس آئے اسی دن آمنہ کا میٹرک کا آخری پرچہ تھا بچوں کو یہ تو پتہ تھا کہ اماں ابا دادی کے ہمراہ بڑے بھائی اکبر کا رشتہ طے کرنے گئے ہیں جب ہم نے اکبر کے ساتھ آمنہ کا رشتہ طے ہونے کا بھی بتایا تو آمنہ کے چہرے کے بے یقینی اور صدمے والے تاثرات نے مجھے نظریں چرانے پہ مجبور کر دیا آمنہ جو سہیلیوں کے ساتھ میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لینے کے خواب بن رہی تھی اس کے خواب اس کی آنکھوں سے نوچ کے ہم نے اسے سمجھا بجھا کے سلیم کی دلہن بنا دیا۔

ہمارے یہاں رشتہ کرتے ہوئے بچوں کو خاص طور پہ دیکھا پرکھا نہیں جاتا تھا بس اتنا پتا ہوتا یہ بھائی کا بیٹا ہے بہن کی بیٹی ہے کافی ہے رشتہ کر دو نا تعلیم نا تربیت نا شخصیت نا کمائی کچھ نہیں دیکھتے بس لڑکی جوان ہو گئی فلاں رشتے دار نے مانگ لی رشتہ کر دو۔شادی والے دن جب میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ اس نیم خواندہ بالکل پینڈو بھانجے کو دولہا کے روپ میں دیکھا تو میرے دل پہ گھونسا پڑا ایک بار تو میرا دل کیا کہ میں بیٹی کی شادی سے منع کر دوں مجھے آج بھی اپنی بیٹی کی بے یقینی بھری شکوہ کناں نظریں یاد ہیں لیکن میں بیٹی کی ہی نہیں بیٹے کی شادی بھی کر رہا تھا پوری برادری جمع تھی میں بے بس تھا کچھ نہیں کر سکا بیٹی رخصت کر کے گاؤں بھیج دی۔اگلے دن جب ہم بارات لے کے گاؤں گئے جس طرح میری بیٹی اپنی ماں کے گلے لگ کے بلک بلک کے روئی میری جان نکل چکی تھی ادھر بیٹے کی بارات تھی ادھر بیٹی تڑپ تڑپ کے رو رہی تھی- میری بیوی کا برا حال تھا میں نے دل مضبوط کر کے اپنی بیٹی کو ماں سے الگ کیا اور سختی سے سمجھايا کہ اچھی بیٹیاں ماں باپ کی عزت رکھتی ہیں اب یہی تمہارا گھر ہے تمہیں انہیں کے ساتھ رہنا ہے۔ ہم اپنی تڑپتی بلکتی بچی کو وہیں چھوڑ کے بہو بیاہ کے اپنے گھر لے آئے۔

ہمیں شادی کے بعد معلوم ہوا کہ ہمارا داماد سلیم کند ذہن کا اعتماد کی کمی کا شکار بالکل غیر تعلیم یافتہ اجڈ انسان تھا اور اسے اسکا پورا پورا احساس تھا کہ وہ میری بیٹی کے کسی طرح بھی قابل نہیں اپنے احساس کمتری کو چھپانے کے لیے وہ میری بیٹی کو بات بات پہ روئی کی طرح دھنک دیتا۔ آمنہ شہر میں پیار محبت میں پلی بچی گاؤں کے سخت ماحول کی عادی نہیں تھی رو دھو کے کسی نہ کسی طرح گزارا کرنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن میرا احساس کمتری کا مارا بھانجا اس سے جانوروں جیسا سلوک کرتا ایک بار کپڑے دھلے نا ہونے پہ اشتعال میں آ کے اس نے آمنہ کو اتنی زور سے دھکا دیا کہ آمنہ کا سر پلر سے ٹکرا کے پھٹ گیا خون کا فوارا بلند ہوا خون زیادہ بہہ جانے کی وجہ سے اسے شہر لانا پڑا ہمیں اطلاع دی تو ہمارے گھر میں ہنگامہ مچ گیا- اکبر اور اصغر آگ بگولہ ہو گئے آمنہ کے سر میں آٹھ ٹانکے لگے اکبر نے اپنی بیوی کو واپس گاؤں بھیج دیا- اس سب ہنگامے سے آمنہ بری طرح سہم گئی۔

کچھ دن بعد اپنی بہن کے اجڑنے کے ڈر سے سلیم معافیاں مانگ کے آمنہ کو اپنے ساتھ لے گیا وہاں جا کے اس نے آمنہ کو مزید تنگ کرنا شروع کردیا -مزید سختیاں شروع کر دیں آمنہ پچھلے ہنگامے سے بری طرح سہم گئی تھی اب وہ اپنے اوپر ہونے والا کوئی ظلم بھی اپنی ماں کو نہ بتاتی سلیم ایک بگڑا ہوا لڑکا تھا نہ ماں کی سنتا نہ باپ کی۔خیر حالات کا ستم اور ماں باپ کی بے رخی سہہ سہہ کے آمنہ کی صحت پہ اثر ہونا شروع ہوگیا وہ سوکھ کے کانٹا ہو گئی بیٹھے بیٹھے بیہوش ہو جاتی اس کو آنتوں کے مسائل شروع ہو گئے یہاں تک کہ ایک دن بیہوشی کی حالت میں شہر کے ہسپتال میں لائی گئی ڈاکٹرز نے بتایا کہ اس کو شدید قسم کا ڈپریشن ہے اور یہ ملٹی پل آرگن فیلئیر کی طرف جا رہی ہے اسکا بچنا ممکن نہیں ہے اس وقت مجھے ہوش آیا کہ میں نے اپنی بیٹی کے ساتھ کیا کر دیا۔میں نے اپنی بیٹی کو گلے لگایا پیار کیا اس کے سسرال والے اسے لاعلاج سمجھ کے لا تعلق ہو گئے میں نے اپنی بیٹی کا علاج کروایا آٹھ ماہ وہ ہسپتال میں داخل رہی اس کا خون بدلتا رہا علاج ہوتا رہا میں نے اس عرصے میں اس کو یقین دہانی کروائی کہ اب کبھی اس کو واپس نہیں بھیجوں گا لیکن وہ رات کو چیخیں مار کے اٹھ جاتی مجھے مت مارو۔۔۔ مجھے چھوڑ دو۔۔۔ابو جی۔۔۔ امی جی۔۔۔۔وہ چلاتی چیزیں پھینکتی اور میرا دل روتا دہائیاں دیتا میں اسے گلے لگاتا پیار کرتا آٹھ ماہ کے بعد وہ ٹھیک ہونا شروع ہوئی ہم اسے گھر لے آئے اس دوران برادری کے رواج کے مطابق اکبر کی بیوی کو قصور نہ ہونے پہ بھی واپس بھیج دیا گیا تھا۔

میں نے اپنی بیٹی سے وعدہ کیا کہ اب وہ نئی زندگی شروع کرے گی- ایک سال بعد ہم نے خلع کا کیس دائر کر دیا برادری نے ہم پہ بہت دباؤ ڈالا میں ایک بار برادری کے دباؤ کا شکار ہونے کے اتنے بھیانک نتائج دیکھ چکا تھا میں نے ان کی ایک نہ سنی اور آخر کار شادی کے ڈھائی سال بعد صرف اٹھارہ انیس سال کی عمر میں آمنہ کو طلاق ہو گئی اس کے ساتھ کہ بچیاں ابھی کالج میں اڑی اڑی پھرتی تھیں۔ میری بیٹی کو روگ لگ چکا تھا۔

اس کے بعد میں نے آمنہ کا نفسیاتی معالج سے مکمل علاج کروایا اور شہر کے بڑے کالج میں اسکا داخلہ کروا دیا۔ آمنہ کا اعتماد اور شخصیت بحال ہونے لگی۔ آمنہ نے اچھے نمبروں سے آئی بی اے IBA کر لیا اب آمنہ کا داخلہ یونیورسٹی میں BBA میں ہو گیا یونیورسٹی میں آمنہ کی صلاحیتیں نکھر کے سامنے آنے لگیں اس دوران اس کے لیے ایک دو اچھے رشتے آئے لیکن میں آمنہ کو تعلیم مکمل کروانا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے باقی بچوں کو بھی تعلیم مکمل کرنے کی تاکید کی۔آمنہ کے آخری سمسٹر کے بعد ایک مناسب رشتے کو بہت دیکھ بھال کے سوچ سمجھ کے ہاں کر دی لڑکے اور اس کے گھر والوں کو آمنہ کی پچھلی زندگی کی مکمل حالات بتائے اور یہ بھی کہ ہم شادی کے لیے عزت اور تحفظ چاہتے ہیں لڑکے والے سمجھدار تھے انہوں نے یقین دہانی کروائی اگرچے آمنہ ڈسٹرب تھی لیکن اسے سمجھایا کہ اب شادی کے لیے یہ مناسب وقت ہے۔ میرا یہ داماد پڑھا لکھا ایک فرم میں جاب کرتا تھا یہ آمنہ کے حق میں بہت اچھا ثابت ہوا-اس کو شادی کے بعد اعتماد بحال کرنے کو آمنہ کو ایم فل کروایا بچوں کی پیدائش کے بعد جاب کرنے کی اجازت دی اب میری آمنہ بال بچوں والی ہے گھر بھی سنبھالتی ہے اور ایک ادارے میں HR کی جاب بھی کرتی ہے۔

اس کی سسرال اور خاوند اس سے بھر پور تعاون کرتے ہیں۔

دوسری طرف میری بہن کے میاں کا اچانک انتقال ہوگیا آہستہ آہستہ ساری زمینیں بک گئیں نہ تعلیم تھی نہ ہنر پورا گھرانا بری حالت میں پہنچ گیا- انہوں نے ہاتھ پاؤں جوڑ کے ہم سے معافی مانگی -ہم اپنی بہو کو اپنے گھر لے آئے اب وہ ہمارے گھر اچھے طریقے سے بس رہی ہے۔

میں نے اس کے بعد اپنے آپ سے کچھ عہد کیے اور اپنے بچوں کو بیٹھا کہ نصیحت کی کہ اس نصیحت کو وصیت بھی سمجھو۔ایک تو آج کل کے حالات کے مطابق تعلیم مکمل ہونے تک لڑکیوں کی شادی ہرگز مت کرو-لڑکیوں کو پڑھاؤ لکھاؤ اعتماد دو۔دوسرا کبھی کسی کو برداری سمجھ کے، رشتے دار یا دوست سمجھ کے، یا رسم و رواج کے دباؤمیں آ کے گھبراہٹ اور جلد بازی میں لڑکیوں کی شادیاں نہ کرو۔

جس کو لڑکی سونپو اس کو اچھی طرح جان پرکھ کے لڑکی دو رشتہ دینے سے پہلے یہ سوچو کہ وہ تمہاری لڑکی کے قابل ہے یا نہیں ہے چاہے وہ تماری بہن کا بیٹا ہے یا بھائی کا یا برداری کا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس بات پہ مت گھبراؤ کہ عمر نکل رہی ہے اس لیے جو رشتہ میسر ہو آنکھیں بند کر کے لڑکی سونپ دو اللہ نے ہر بات کے لیے مناسب وقت طے کیا ہوا ہے اس وقت کا انتظار کرو۔ لڑکیوں کو بوجھ نہ سمجھو۔بے جوڑ شادیاں کبھی نہ کرو۔

شادی میں وٹہ سٹہ کبھی نہ کرو ایک گھر مفت میں خراب ہوتا ہے۔اگر خدا نا خواستہ غلط فیصلہ ہو جائے شوہر جانور نکل آئے تو بیٹی کو اس آگ میں جلتے رہنے دینے کے بجائے فوری اس کی ڈھال بنو اس کے لیے کھڑے ہو جاؤ- شوہر عزت قدر کرنے والا ہو محنتی ہو تو اس کے ساتھ حالات کی سختی سہنا، کم میں گزارا کرنا عورت کا فرض ہے لیکن بے عزتی مار پیٹ گالم گلوچ دھتکار نا قابل برداشت ہے اس پہ کبھی سمجھوتہ نہ کرو۔