فكر ونظر
ہماری قدامت پرستیاں
نیاز فتحپوری
کسی زمانہ میں ایک بزرگ تھےجو دریا کی سطح پرمصلا بچھالیتےتھےاور اس پرنماز پڑھتےہوئےاس کوعبور کرجاتے تھے۔‘‘
"کوئی ولی اللہ کسی طرف سےگزر رہے تھےکہ ایک کنویں پر انہوں نے آدمیوں کا ہجوم دیکھا، دریافت سے معلوم ہوا کہ ایک بھینس اندر گر گئی ہے اور لوگ اس کے نکالنے کی فکر میں ہیں۔انہوں نے کنویں میں ہاتھ ڈال کر جو باہر نکالا تو لوگ کیا دیکھتے ہیں کہ بھینس باہر کھڑی ہوئی ہے۔‘‘
’’ کسی زمانہ میں ایک صاحب کرامت درویش کثرت ریاضت سے اس قدر ’’لطیف ‘‘ ہوگئے تھے کہ پٹکا ان کے جسم سے آرپار ہوجاتا تھا اور ان کا بدن حائل نہ ہوتا تھا۔"
تذکرۃ الاولیاء قسم کی کتابیں اٹھا کر دیکھیے تو ہزاروں واقعات آپ کو اس سے زیادہ حیرت انگیز نظر آئیں گے لیکن آپ نے اس پر بھی غور کیا ہے کیا واقعی کسی وقت ہمارے یہاں کے اکابر مذہب و تصوف سے اس قسم کی محیر العقول باتیں ظاہر ہوئی تھیں اور اگر یہ صحیح ہے تو اسکاسبب کیاتھااورکس فائدہ و نتیجہ کیلئےتھااوراب اس ’’کشف و کرامات‘‘ کے لوگ کیوں نظر نہیں آتے؟
آپ کسی شخص سےجو ان باتوں کی صحت کاقائل ہو یہ سوال کریں گےتو وہ نہایت ہی غم آلود، حسرت ناک چہرہ بنا کر کہے گا کہ یہ اگلے لوگوں کی باتیں جو انہی کے ساتھ گئیں، نہ اب وہ ریاضتیں ہیں، نہ عبادتیں، نہ وہ روحانیت ہے، نہ صداقت، نہ وہ ایمان ہے،نہ وہ یقین۔
پھر آپ اس سے پوچھیے کہ اب ایسا کیوں نہیں ہے، کیا مسلمان دنیا میں نہیں رہے، کیا عبادت کااصول بدل گیا، کیااصولِ اخلاق و روحانیت میں کوئی تغیر پیدا ہو گیا، تو وہ اس کےجواب میں سوا اس کے کہ اپنی کم بختی کا رونا روئے، خدا کی مرضی پر محمول کرے یا کل جگ کی خرابی بتا کر خاموش ہورہےاور کچھ نہ کہے گا۔
عجوبہ پرستی کا دور گزر گیا، یہ دور ہے صرف تجربہ و مشاہدہ کا، اس لئے اب نہ معجزہ و کرامات پر محض اس لئے یقین کیا جاسکتا ہے کہ قدیم کتابوں میں ایسا لکھا ہے۔ اور نہ صرف خوارق عادات کی بناء پر کسی کی عظمت و بزرگی ثابت کی جاسکتی ہے۔کیونکہ جب تک طبیعات کی دنیا تک انسان کی دسترس نہ تھی، کسی کا دس فٹ بلند جست کر لینا بھی معجزہ کہلایا جا سکتا تھا،لیکن اب طیاروں اور ہوائیوں کے ذریعے سے ہمدوش ثریا ہو جانا بھی مستعبد نہيں۔ کس قدر افسوس ناک امر ہے کہ اس وقت بھی جب تمام دنیا میں علم کا اجالا پھیل گیا ہے اور انسان حقیقی معنی میں’’خلافت الٰہی‘‘ کے دور سے قریب تر ہوا جا رہا ہے، ہم بدستور اسی زمانہ میں ہیں جب بقول قزوینی و دمیری ،چیل کےگھونسلے میں پارس پتھر پایا جاتا تھا اور مستقبل کی امیدیں صرف نزول مسیح اورظہورمہدی سے وابستہ کئے ہوئے ہیں۔
کاش ہم سمجھ سکتے کہ اس وقت دنیا کو حاجت نہ مہدی کی ہے اور نہ مسیح کی، بلکہ ضرورت ہے ایڈیسن و مارکونی کی، رامان اور بوس کی، کیونکہ انسان اب معجزہ و کرامات کی حدود سے گزر کر عالم جدوجہد کی اس منزل تک پہنچ گیا ہے جہاں خود اس میں ’’جذبہ الوہیت‘‘ پیدا ہوتا نظر آرہا ہے۔ اور انسانیت کبری کا مشاہدہ ایک ایسی حقیقت ذاتی کا احساس اس کے اندر پیدا کررہا ہے جس کو اگر ہم چاہیں تو معرفت ربانی سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں اور قرب الٰہی سے بھی۔
اس لئے اگر تم قدامت پرستی کی لعنت سے آزاد ہونا چاہتے ہو تو اپنے آپ کو احمق و جاہل نہ سمجھو بلکہ ہوش گوش والا انسان باور کرکے ہر بات کے سمجھنے کی کوشش کرو۔ اپنے ذہن و دماغ کو نوامیس قدرت کی گتھیاں سلجھانے کا اہل بنا اور پرستش اسلاف ترک کردو کہ اس سے زیادہ سنگ گراں ترقی کی راہ میں اور کوئی نہیں ہوسکتا۔ اسی کے ساتھ اپنی اولاد کی تربیت و تعلیم میں بھی اس کا لحاظ رکھو کہ ان کی عقلی آزادی محو نہ ہونے پائے اور دوسروں کی پیروی میں مطالعہ اشیاء کی عادت انکی ’حرکت فکر کو تباہ نہ کر دے۔ پھر اگر تمہاری ایک بھی نسل اس اصول کے تحت ترتیب پا گئی تو سمجھ لو کہ تمہاری تمام مصیبتیں دور ہو گئیں ورنہ کل جو تم کو اور تمہاری اولاد کو دیکھنا ہے، اسے آج میری زبان سے سن لو اور یاد رکھو کہ جس طرح اور ہزاروں اندھی قومیں اب سے قبل تباہ ہوچکی ہیں اسی طرح تم کو بھی تباہ وہ برباد ہوجانا ہے اور خدا اس سے بالکل بے نیاز ہے کہ مسلمان کا وجود دنیا میں باقی رہے یا نہ رہے۔