سڑك كے حقوق

مصنف : ہدايت اللہ سدو خانی

سلسلہ : اصلاح و دعوت

شمارہ : جون 2024

اصلاح و دعوت

سڑك كے حقوق

مولانا ہدایت اللہ سدوخانی

ہمہ یاران سڑک

آئیے باہر گھوم کر آتے ہیں ۔ ہم ابھی ٹریفک کے ہجوم میں ہیں ۔ اس سے پہلے ہم گھر پر تھے وہاں بھی ایک "ٹریفک" تھا ۔ آپس میں بہت پیار کے رشتے تھے ۔ ایک دوسرے کی بڑی رعایتیں تھیں ۔ بڑے چھوٹے کی تمیز تھی ۔ ایک دوسرے کے مراتب بھی معلوم تھے جس کی وجہ سے یہ فیصلہ آسان تھا کہ کس کے ساتھ کیسا رویہ رکھنا ہے ۔ مگر اس سڑک والے ٹریفک کے ساتھ کیا رویہ رکھنا ہے ۔ نہیں معلوم ۔ یعنی یہاں گھر والی ڈرائیونگ نہیں چلے گی ۔ احتیاط نہ کی تو حق تلفی کا قوی اندیشہ ہے ۔ یہاں نہیں تو وہاں جوابدہی ہو گی ۔ دماغ ٹھنڈا رکھنا شرط اول ہے ۔یہ جن کے کندھوں پہ چڑھ کر ہم مسلسل ہارن بجا رہے ہیں ۔ یہ کون ہیں ؟ یہ ٹھیک ہے کہ وہ ہمارے لگتے کچھ نہیں ہیں ۔ مگر یہ سوچیں کہ ہمارے علاوہ کس کس کے کیا لگتے ہیں ۔ یہ ہمارے والد ہوں تو یوں ہارن بجا بجا کر تنگ اور ذلیل کریں گے ؟ کیا معزز صرف ہمارے والد صاحب ہیں ؟ کسی اور کے والد ہوں گے تو قابل احترام نہ ہوں گے ؟ کسی کے قابل احترام ہونے کیلئے ضروری ہے کہ ہم سے رشتہ بھی ہو ؟ اگر وہ کسی مسجد کے امام ہوں یا کسی اسکول ۔ کالج ۔ مدرسہ اور یونیورسٹی کے استاذ یا پروفیسر ہوں تو ؟ ایمانداری سے بتائیے آپ کا رویہ اپنے امام مسجد اور اپنے اساتذہ کرام کے ساتھ کیسا ہے یا کیسا چاہتے ہیں ؟ یعنی سڑک پر بیچ ٹریفک کسی بھی راہگیر کی عزت کیلئے لازم ہے کہ میرے محلے کے امام یا براہ راست میرے اساتذہ ہوں ورنہ ان صاحب علم کو میرے ہاتھوں ذلیل ہونا پڑے گا ؟

مجھے یاد آیا ۔ یہ 1990 کی بات ہے ۔ میں دارالعلوم کراچی میں درجہ رابعہ پڑھتا تھا ۔ وہاں چھوٹی کلاسز کے ایک استاذ مولانا یونس صاحب تھے ۔ ہم سے 2 سال جونیئر طلبہ کو پڑھاتے تھے ۔ دارالعلوم کراچی شائد 52 ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے ۔ ہر جگہ پیدل پہنچنا دشوار تھا  میری ذمہ داری تھی ۔ مجھے روز لنچ کے وقت شرافی گوٹھ والے گیٹ سے نکل کر بازار سے دہی لانا ہوتا تھا تو کسی کی سائیکل لے کر جاتا تھا ۔ اس گیٹ سے متصل دارالتربیت کی عمارت تھی ۔ مولانا یونس صاحب کی رہائش وہاں تھی ۔ دہی لے کر جب واپس دارالعلوم آتا تو مولانا یونس صاحب دارالتربیت کی طرف تشریف لا رہے ہوتے تھے ۔ ایک مرتبہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے سائیکل چلاتے ہوئے انہیں کراس کیا ہو ۔ وہ میرے براہ راست استاذ نہیں تھے مگر وہ دارالعلوم کے تو استاذ تھے نا ۔ چند دنوں بعد انہوں نے مجھے روکا اور کہا "تم مجھے دیکھ کر سائیکل سے اترتے ہو تو مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔ سائیکل سے اترا مت کرو" میں نے "ٹھیک ہے" کہا اور پھر وہاں سے گزرنا ہی چھوڑ دیا ۔

سڑک کی ٹریفک میں ہم سب کے یکساں حقوق ہیں ۔ یہ بات کون نہیں جانتا کہ "مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں" ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ و الہ و سلم ہے ۔ ہم یہ بات سڑک پر کیوں بھول جاتے ہیں ؟سڑک پر ہمارے علاوہ متوقع کون کون لوگ ہو سکتے ہیں ؟ کتے بلے تو نہیں ہوتے نا ۔ میں انہیں خود سے بہتر نہیں سمجھتا تو برابر ہی سمجھ لوں ۔ اخلاق میں نہ سہی ۔ سڑک کے حقوق میں ہی برابر سمجھ لوں ۔ مجھے جلدی ہے تو باقیوں کو بھی تو جلدی ہو سکتی ہے ۔ میرا کام ضروری ہے تو باقی لوگ کیا ٹائم پاس کیلئے نکلے ہوئے ہیں ؟ کوئی بیمار ہے ۔ کوئی پریشان ہے ۔ کوئی کمزور اعصاب کا مالک ہے ۔ کسی کو طبعا ً ہارن کی آواز بری لگتی ہے اور ہم گویا کہ ہارن کے ذریعے ان کی گاڑی اٹھا کر فٹ پاتھ پر پھینک دینا چاہتے ہیں ۔ ہارن نہ ہوا کٹرپلر کی کرین ہو گئی ۔ اگر برابر گاڑی والا آگے نکلنے کی کوشش میں ہو اور ہمیں پتہ چل جائے تو اس سے میچ پھنس جاتا ہے کہ "نر کا بچہ ہے تو نکل کر دکھا" یہ انسانی فطرت کا کون سا پہلو ہے ؟ بلکہ "بدتر پہلو" کہنا زیادہ مناسب ہوگا ۔

میں برسوں پہلے نسیم شاہ صاحب کے ساتھ ان کی کار میں تھا ۔ ایک گاڑی والا ہمیں دائیں سے بائیں کراس کرنا چاہتا تھا ۔ پہلا حق ہمارا تھا مگر شاہ صاحب رک گئے ۔ ایسے رکے جیسے اب چلیں گے ہی نہیں ۔ بہت محبت سے انہیں جانے دیا ۔ یہ بات میں نے سیکھ لی ۔ آپ یقین کریں ۔ رک کر یا سائیڈ پر ہو کر دوسرے کو راستہ دینے کا جو مزہ ہے وہ لکھا ہی نہیں جا سکتا ۔ جس کو راستہ دیا تھا اس کی خوشی ۔ اس کا ہمیں ہاتھ لہرا کر شکریہ ادا کرنا کیا مزیدار لمحات ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ یوں محسوس نہیں کر سکتے تو اس طرح اندازہ کر لیں کہ جب کوئی ہمیں راستہ دیدے تو ہمیں کیسا لگتا ہے ۔ میں تو بہت ساری دعائیں دیتا ہوں کہ اس نے انجانے میں میرا خیال رکھا ۔ مجھے عزت دی ۔ یہ بہت بڑی بات ہے ۔ مجھے بھی یہ بڑا کام کرنا چاہیئے ۔مجھے افسوس ہے کہ ہم ایسے مسلمان نہیں رہے جن کے شر سے دوسرے لوگ محفوظ رہ سکیں ۔ ہم سڑک یا گلی میں ہارن بجاتے ہوئے نہیں سوچتے کہ برابر میں مسجد ۔ اسکول ۔ مدرسہ یا ہسپتال ہے ۔ کسی کی نماز ۔ تلاوت ۔ لیکچر یا آرام میں خلل ہو رہا ہوگا ۔ ہمارا یہ رویہ ہمیں اور ہمارے بیمار معاشرے کو مزید بیمار کر رہا ہے اور ذمہ دار صرف ہم ہیں ۔ تبدیلی آئے گی ۔ مگر خود کو بدلنے سے ۔