فكر ونظر
دماغ پہ سرمايہ كاری
توقیر
میرے آئیڈیل شخص ڈاکٹر فاروق القاسم, جو عراقی نژاد نارویجن ماہر ارضیات (پٹرولیم) ہیں۔ انہوں نے ناروے کو پٹرولیم مصنوعات میں دنیا کی چھٹی بڑی طاقت بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔انہوں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان ہے:"دماغ پر سرمایہ کاری کرنا"
وہ لکھتے ہیں کہ مجھ سے جو شخص بھی بات کرتا ہے میں اسے کہتا ہوں کہ مجھ سے کسی بھی ایسے ملک اور اسکے قدرتی ذخائر جیسی قدرتی دولت کے متعلق سوال نہ کریں جہاں کے لوگ نفرت، نسل پرستی، قبائلی تقسیم، جہالت اور جنگوں کے دلدادہ ہیں ۔نائیجیریا دولت اور دیگر معدنیات کے لحاظ سے امیر ترین ممالک میں سے ایک ہے۔یہ دنیا کے سب سے بڑے تیل برآمد کرنے والے ممالک میں سے بھی ایک ہے۔ لیکن اس کی عوام کی حالت اور ملکی صورت حال پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ نہایت ہی مایوس کن ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ نائیجیریا کے لوگ نسلی گروہ بندی اور مذہبی تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔جبکہ سنگاپور وہ ملک ہے جس کے صدر ایک دن رو پڑے، کیونکہ وہ اس ملک کے صدر ہیں جہاں پینے کے صاف پانی کی دستیابی نہ ہونے کے برابر تھی، مگر پھر آج ان کا ملک فی کس آمدنی کے لحاظ سے جاپان سے بھی آگے ہے۔آج کل صرف پسماندہ لوگ ہی رہ گئے ہیں جو کسی بھی قسم کی ترقی کرنے یا دنیا کی ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کی بجائے اب بھی زمین اور اس کی معدنیات پر نظریں جمائے ہوئے ہیں.-میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ اس میں سے اب ایسا کیا نکالنا چاہتے ہیں جس کے سہارے وہ محض زندہ رہنے کا خواب دیکھ رہے ہیں؟یہ ایک ایسا وقت ہے جس کے ادراک سے وہ غافل ہیں، اس وقت سب سے کامیاب اور منافع بخش سرمایہ کاری کا درجہ خود انسان اختیار کرچکا ہے۔ اگر کوئی اپنے اوپر سرمایہ کاری نہیں کرے گا تو اس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔کیا آپ نے گلیکسی فون یا آئی فون خریدتے وقت سوچا ہے کہ اس فون کو کتنے قدرتی وسائل کی ضرورت ہے؟
آپ دیکھیں گے کہ اس میں قدرتی دولت کے چند ڈالر بھی خرچ نہیں ہوتے ۔سادہ سا چند گرام لوہا, ایلومینیم اور تانبہ، شیشے کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اور تھوڑا سا پلاسٹک وغیرہ، لیکن آپ اسے سینکڑوں ڈالر میں خریدتے ہیں، ایک موبائل فون کی قیمت تیل اور گیس کے درجنوں بیرل سے بھی زیادہ ہے۔وجہ یہ ہے کہ اس میں انسانی ذہنوں کی تخلیق کردہ تکنیکی فکری دولت ہے. اور یہی مستقبل کی سب سے بڑی دولت ہوگی۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ مائیکرو سافٹ کے بانی بل گیٹس جیسا شخص 226 ڈالر فی سیکنڈ کماتا ہے؟کیا آپ جانتے ہیں کہ دنیا کے امیر ترین لوگ اب قدرتی دولت کے مالک نہیں رہے؟لیکن وہ اب آپ کے موبائل پر سادہ سی چند ایپلی کیشنز کے مالکان ہیں۔کیا آپ جانتے ہیں کہ سام سنگ جیسی کمپنی کا ایک سال میں منافع 327 ارب ڈالر ہے؟جی ڈی پی کی اتنی رقم جمع کرنے کے لیے ہمیں سو سال درکار ہیں.آپ کو محض یہ وہم ہے کہ آپ کے پاس قدرتی وسائل سے حاصل کردہ دولت ہے جو آپ کو آپ کے دماغ کا استعمال کیے بغیر امیر بناتی رہے گی۔اپنا وہم ترک کر دو، بیل جیسی کند ذہنیت کے ساتھ دولت کو استحکام نہیں دیا جاسکتا۔
دوسری جنگ عظیم میں جاپان کو شکست ہوئی اور پچاس سال سے بھی کم عرصے میں اس نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے ذریعے دنیا سے اپنی تباہی کا بدلہ لے لیا اور آپ ابھی تک اس جہالت سے نکلنے کے لیے تیار نہیں جہاں آپ کی شناخت اور آپ کا سب سے اہم مسئلہ آپ کا مسلک، ذات یا آپ کا قبیلہ ہے۔