اصلاح و عوت
نسلِ نو کی کرداری سازی ، جاپان سے ايك سبق
ابن عبداللہ
پروفیسر صاحب کا تعلق تو پاکستان سے تھا لیکن گزشتہ دو دہائیوں سے جاپان میں مقیم تھے اور وہاں کی ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہے تھے۔ پچھلے دنوں پاکستان آئے تو ہم نے ان کو اپنے تعلیمی ادارے میں طلبہ و طالبات سےخطاب کی دعوت دی۔ پرفیسر صاحب مقررہ وقت سے تقریباً آدھا گھنٹہ پہلے یونیورسٹی پہنچ گئے۔ "سر یہ فرمائیے گا کہ ہم نے جاپان کے بارے میں سنا ہے ایمانداری میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ آپ کا اس کے بارے میں کیا خیال ہے؟ آپ کے ساتھ کبھی کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جس نے آپ کو متاثر کیا ہو؟"میں نے پروفیسر صاحب سے استفسار کیا۔پرفیسر صاحب گویا ہوئے۔
"ویسے تو اکثر اس بات کی تصدیق ہوتی رہتی ہے، لیکن میں دو واقعات آپ کو سناتا ہوں۔ ایک بار میں شاپنگ کے لیے مارٹ پہنچا اور تمام شاپنگ کرنے کے بعد جب میں نے ادائیگی کے لیے اپنا پرس نکالنا چاہا تو معلوم ہوا میرا پرس جیب میں نہیں ہے۔ میں بہت پریشان ہوا۔ پہلی مرتبہ میرے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا تھا۔ میں نے کیشئر سے کہا، "میرا پرس میری جیب میں تھا لیکن شاید وہ راستے میں کہیں گر گیا ہے"۔ کیشئر کہنے لگا، "آپ جس راستے سے آئے ہیں اسی راستے پر چلتے جائیں آپ کو پرس اسی جگہ سے ملے گا جہاں گرا ہو گا۔"پرس کے واپس ملنے کی مجھے امید تو کم ہی تھی لیکن اس کے کہنے پر اپنے سابقہ راستے پر واپس چلتا گیا۔کچھ دور گیا تو مجھے میرا پرس بیچ راستے کے پڑا ہوا ملا۔ اس میں موجود رقم بھی پوری تھی۔ اس واقعے نے مجھے بہت متاثر کیا۔
اسی طرح ایک بار میری یونیورسٹی کے دو طالبعلم، ایک لڑکا اور ایک لڑکی سمسٹر کے ایک پیپر میں کسی وجہ سے غیر حاضر تھے اور مقررہ تاریخ کو پیپر نہیں دے سکے۔ ان کی درخواست پر ان دونوں کا وہ پیپر ان سے اگلے دن لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ مقررہ تاریخ اور وقت پر میں نے ان دونوں کو پیپر دیا اور ایک کمرہ میں پیپر حل کرنے کے لیے بٹھا دیا اور میں خود ایک ضروری کام کے بہانے کمرے سے باہر آگیا۔ دراصل میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ ایمانداری کی دعویدار اس قوم کے طالب علم موقع ملنے کے باوجود، پیپرنقل کے بغیر کیسے حل کرتے ہیں۔ مجھے اس وقت بہت حیرت ہوئی، جب میں نے کھڑکی کی اوٹ سے مشاہدہ کیا کہ انھوں نے بغیر کوئی نقل لگائے یا بغیر کوئی مشورہ کیے پیپر کو مقررہ وقت پر حل کیا۔ میرے لیے یہ سب بہت حیران کن تھا، میں اس وجہ جاننا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں نے ان کو الگ الگ یہ پوچھا کہ آپ نے پیپر حل کرنے کے لیے آپس میں مشورہ کیوں نہیں کیا جبکہ آپ دونوں کی آپس میں اتنی ہم آہنگی ہے کہ ڈگری مکمل کرنے کے بعد آپ ایک دوسرے سے شادی بھی کرنے والے ہیں۔ ان دونوں کا ایک ہی جواب تھا، "اگر میں آج اس سے کسی سوال کو جواب پوچھتا/ پوچھتی تو اس کے دل میں فوری طور یہ خیال آتا کہ یہ انسان ایماندار نہیں ہے اور میرے ساتھ بھی وفادار نہیں ہوگا/ گی اور وہ اس رشتے کو ہمیشہ کیلئے ختم کر دیتا /دیتی۔"
پروفیسر صاحب نے مزید کہا کہ کردار کی پختگی بچپن سے ہی اچھی تربیت کرنے سے ممکن ہوتی ہے۔ جاپان کے سکولز میں تعلیم کا آغاز معاشرتی آداب اور تربیت سے ہوتا ہے۔ بچے اپنے سکولوں کی صفائی مل کر خود کرتے ہیں۔ جس سے ان کے اندر صفائی کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ وہاں بچوں کو سکول کے ابتدائی سالوں میں کتابوں سے زیادہ لائف سکلز سکھائی جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہےکہ وہ بچے ہمیشہ ہر میدان میں دیانتداری کو پہلی ترجیح دیتے ہیں۔ایک ایسا ملک جہاں کے رہنے والے مسلمان بھی نہیں، ان کا آخرت کی جزا و سزا پر بھی یقین نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہاں کے سکولوں میں موجود ٹک شاپ پر کوئی سیلز مین نہیں ہوتا۔ بچے اپنی مرضی کی چیز لیتے ہیں اور اس کی قیمت کے پیسے ایمانداری سے وہاں رکھ دیتے ہیں ۔کبھی اس دکان کے پیسے کم نہیں ہوئے۔ یہ کردار سازی کی چند ایک بہترین مثالیں ہیں۔
کردار کسی بھی انسان کی وہ خاصیت ہے جس کی وجہ سے اس کی اچھی یا بری عادات بنتی ہیں، مثلاً اگر کسی انسان میں اچھی عادات ہوں جیسے سچ بولنا، دوسروں کی مدد کرنا، نماز ادا کرنا یا اپنا کام دیانتداری سے کرنا۔۔۔ تو ہم کہیں گے کہ یہ ایک بہترین کردار کا حامل یا نیک کردار کا شخص ہے۔اسی طرح اگر کسی میں جھوٹ بولنا، دوسروں کو دھوکہ دینا، بددیانتی کرنا یا گالی گلوچ کی عادت ہو تو ہم کہیں گے کہ یہ ایک برے کردار کا انسان ہے۔ لغت میں کردار سے مراد ردعمل، طریقہ، قاعدہ، کام، عادت اور خصلت وغیرہ کے ہیں۔ اس دنیا میں انسانی زندگی کی کامیابی کا انحصار اچھے یا برے کردار کے مطابق ہی ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اسے عقل جیسی دولت سے نوازا۔ دوسری مخلوقات پر اس کی فضیلت دو وجوہات کی وجہ سے ہے جس میں عقل و شعور سب سے پہلے ہے۔ دوسری چیز اپنی عقل کو استعمال کرکے انسان اپنے اخلاق کو بہترین بنا سکتا ہے۔ اچھے اخلاق سے انسان اچھے کردار کا حامل بنتا ہے۔ کچھ ایسی خوبیاں جن کو اپنا کر ایک انسان بہترین کردار کی بلندیوں کو حاصل کر سکتا ہے۔ ان میں دوسروں کی عزت کرنا، سچ بولنا، غریبوں کی مدد کرنا، مشکل حالات میں بھی دیانت کا مظاہرہ کرنا، عاجزی و انکساری، اخوت، بھائی چارہ، شکر گزاری، خوش اخلاقی، سخاوت، عفو و درگزر اور شفقت و محبت جیسی اعلیٰ خصوصیات شامل ہیں۔
اس وقت ہمارے معاشرے میں ان چیزوں کا فقدان ہونے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے ماضی میں (اور اب بھی) تعلیمی اداروں اور والدین نے اپنے بچوں کی کردار سازی پر توجہ ہی نہیں دی۔ والدین اور اساتذہ کی تمام تر توجہ کا مرکز صرف اعلیٰ نمبروں کا حصول ہے، جس کے لیے وہ ہر ممکن طریقہ اختیار کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ بچے آگے چل کر اپنے پروفیشنل کیرئر کو اختیار کرتے ہیں تو وہاں بھی دوسروں سے آگے نکلنے کی دھن میں ہر قسم کی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں۔
پیشہ ورانہ بدکرداری میں دفتر یا کام پر دیر سے آنا اور جلدی چلے جانا، ادارے کے وسائل کو ذاتی مقاصد کے لیے بے دریغ استعمال کرنا اور کام کے اوقات میں گپیں مارنا اور سائلین کے لیے فرعونیت اختیار کرنا وغیرہ ہمارے ارباب اختیار کا عمومی وطیرہ بن چکا ہے۔ اس کو سدھارنے کے لیے نئی نسل کے لیے تعلیمی اداروں میں تعلیم سے بڑھ کر زیادہ ضروری چیز ان کی بہترین کردار سازی کی ضرورت ہے۔