دين و دانش
بائنری کی برکات و المیہ
لالہ صحرائی
یہ مضمون صرف ان لوگوں کیلئے ہے جو مذہبی اختلافات کی وجہ سے دین سے بیزار ہو رہے ہیں، حقیقت میں دین کے اندر کوئی اختلاف نہیں لیکن اس کے باوجود جو لوگ اختلافات پیدا کرتے ہیں وہ بلاشبہ تفرقہ بازی کرتے ہیں، ان کی حقیقت آپ کو اس تحریر میں صاف نظر آجائے گی۔
بائنری کا مطلب ہے ثنائیت، دو رُخی، دو رنگی یا ہمہ جہت حیثیت یعنی کوئی ایسی بات جس کے دو یا دو سے زائد پہلو ہوں۔دنیا میں کوئی نظریہ یا قانون ایسا نہیں جس میں بائنری ہو، قانون ہمیشہ یکسو، شک و شبے سے پاک، سب کیلئے دوٹوک، یکساں اور حُکمیہ لہجے میں ہوتا ہے اسلئے قانون کو من و عن تسلیم کرنے سے انکار اور اختلاف نہیں ہو سکتا۔اس کے بعد قانون پر عمل کرنے کیلئے رُولز اینڈ ریگولیشنز آتے ہیں، ان میں قانون کا حُکمیہ لہجہ یکسر حکیمانہ ہو جاتا ہے جو شخصی مجبوریوں کو مدنظر رکھ کے پروسیجرل بائنری فراہم کرتا ہے تاکہ مختلف حیثیت کے انسان اپنی اپنی کیپیسٹی کے مطابق ان قانونی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء ہو سکیں اور جو لوگ کسی وجہ سے عمل کرنے کے قابل ہی نہ ہوں ان کیلئے درجہ بدرجہ استثناء بھی فراہم کرتا ہے۔قانون کی حتمیت پر من و عن عمل کرنے اور فرض کی ادائیگی میں دو رنگی اختیار کرنے یا پروسیجرل بائنری کو پریکٹس کرنے کی پہلے چند دنیاوی اور پھر کچھ دینی مثالیں دیکھتے ہیں جس سے پورا معاملہ سمجھ میں آجائے گا۔
مثال کے طور پر جب آپ بجلی و گیس استعمال کرتے ہیں تو بل ادا کرنا آپ کی قانونی ذمہ داری ہے، اس میں حتمیت ہے اسلئے بائنری یا دو رائے پیدا نہیں ہوتی کہ ادا کروں یا نہ کروں کیونکہ پتا ہے نہ کرنے کی صورت میں تادیبی کارروائی ہوگی۔لیکن یہی قانون اپنے رولز اینڈ ریگولیشنز میں حکمت کے تحت یعنی اِیز۔آف۔ڈوئینگ کے تحت اس فرض کی ادائیگی کیلئے آپ کو متعدد سہولیات فراہم کرتا ہے، فوراً جمع کرا دیں یا آخری تاریخ کو دیں، کراس چیک یا پےآرڈر دیدیں، آنلائن دیں، کسی بینک یا فرینچائز پر کیش جمع کرا دیں، کوئی مضائقہ نہیں۔-ease of doing-
پہلے صرف نیشنل بینک میں بل جمع ہوتے تھے اسلئے کوئی دو رائے نہیں ہوتی تھی لیکن اب متعدد آپشنز کی موجودگی میں دو رائے پیدا ہو جاتی ہے کہ ایسے ادا کروں یا ویسے ادا کروں لیکن یہ بائنری فرض کی ادائیگی کے پروسیجرز میں ہے اور قانون کے بالکل تابع ہے۔
ڈرائیونگ کرتے وقت آپ کے پاس لائسنس ہونا ضروری ہے، لاہور کا لائسنس اپنے رنگ، شکل، سائز اور تحریر میں سکھر سے نہیں ملتا، سکھر کا حیدرآباد سے اور وہاں کا کراچی سے نہیں ملتا لیکن کراچی میں ان چاروں کا صرف لائسنس دیکھا جائے گا جس پر ان کی شناخت درج ہو، تضاد نہیں دیکھا جائے گا کیونکہ قانون معاف نہیں، بائنری معاف ہے یعنی تضادات سارے قابل قبول ہیں بشرطیکہ قانون کے تابع ہوں یعنی لیگل تضادات ہوں اللیگل نہ ہوں۔
اللیگل تضاد کیسے پیدا ہوتا ہے؟
مثلاً موٹرسائیکلسٹ کا ہیلمٹ پہننا قانونی حکم ہے لیکن رنگ، شکل، برینڈ، کوالٹی اور سائز پر حکمت کا سایہ ہے تاکہ ہر بندہ اپنی مالی حیثیت اور ذوق کے مطابق جیسا چاہے لے لے۔
اب کوئی علامہ یہ بتائے کہ سر ڈھانپنے کیلئے ٹوپی بھی ہیلمٹ کے ہم پلہ ہے لہذا یہ بھی کافی ہے تو یہ تضاد اللیگل ہوگا کیونکہ اس قانون میں سر ڈھانپنا مقصود نہیں بلکہ ایک سخت جان حفاظتی خول کی ضرورت ہے جو کسی بھی تکلیف سے محفوظ رکھ سکے۔
یہ جو کہا جاتا ہے کہ امت کا اختلاف باعث رحمت ہے، یہ اس طرح سے نہیں ہے جس طرح سے یہاں دینی اختلاف ہو رہا ہے بلکہ باعث رحمت اختلاف صرف وہ ہے جو ڈرائیونگ لائسنس یا ہیلمٹ کی طرح بیشک تضادات کا شکار ہو لیکن بنیادی قانون کے بالکل تابع ہو، ہیلمٹ کی جگہ ٹوپی پہننے جیسا نہ ہو۔دین کا سارا قانون قرآن پاک میں ہے جو کلی طور پر حُکمیہ ہے یعنی نماز روزہ حج زکاۃ صدقات اور حقوق و فرائض ادا کرنے ہیں، اس میں کوئی دو رائے نہیں۔پھر اس قانون پر عمل کرنے کیلئے رولز اینڈ ریگولیشنز صحیح احادیث مبارکہ سے لیں گے، وہاں شخصی مجبوریوں کو مدنظر رکھ کے ہر قسم کے بندے کیلئے کوئی نہ کوئی رعایت موجود ہے، ایک ہی موضوع پر ایک سے زائد صحیح احادیث موجود ہونے کا مطلب الگ الگ فرقے بنانے کیلئے نہیں ہے بلکہ اپنی حیثیت اور ذوق کے مطابق پک اینڈ چُوز کیلئے ہے تاکہ بیمار، مسافر، غریب اور سست الوجود بندوں کو ریلیف مل جائے لیکن تندرست اور صاحب حیثیت لوگ اعلیٰ درجے میں عمل کر سکیں۔
پورے معاشرے کو ساتھ لیکر چلنے کیلئے یہ کتنا حکمت بھرا اور خوبصورت طریقہ ہے مثلاً جو لوگ تنگدست ہیں وہ صدقے کے طور پر کوئی تکلیف دہ چیز رستے سے ہٹا دیں تو ان کیلئے کافی ہے انہیں مال خرچ كرنے کی ضرورت نہیں۔لیکن چند ایسے کام جو صدقہ کے متبادل ہیں وہ چونکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ متفق علیہ صحیح حدیث سے ثابت ہیں تو کیا ہم اس کی بنیاد پر ایک ایسا فرقہ پیدا کرسکتے ہیں جو صدقہ و خیرات کیلئے وہ کام کرنے کی تو ترویج کرے لیکن مال خرچ كرنے کی حوصلہ شکنی کرے؟یقیناً ایسا کرنا گمراہی پھیلانے کے مترادف ہے کیونکہ اس حدیث پاک کا مطلب صرف ان ضرورتمندوں کو پک اینڈ چوز کی سہولت دینا ہے جو مال خرچنے کا تقاضا پورا نہیں کر سکتے، صاحب حیثیت لوگوں کو یہ ذمہ داری ادا کرنے کیلئے مال ہی خرچنا ہوگا یہ اپنی بنیادی ذمہ داری ادا کرنے کیلئے اس نیکی پر اکتفا نہیں کر سکتے البتہ اضافی طور پر یہ نیکی بھی کما سکتے ہیں اس میں کوئی حرج نہیں۔اسی طرح اگر تراویح پر دو صحیح احادیث موجود ہیں تو یہ بھی فرقہ بندی کیلئے نہیں ہیں، رمضان شریف میں بھی صرف پانچ ہی نمازیں فرض ہیں، تراویح فرض نہیں لیکن یہ چونکہ اضافی عبادات کا مہینہ ہے لہذا جس میں ہمت ہے وہ آٹھ نفل پڑھ لے، جس میں زیادہ ہمت ہے وہ بیشک بیس پڑھ لے اور جس میں ہمت نہیں وہ بنیادی فرائض ہی پورے کرلے تو بھی کافی ہیں مگر ہمارے ہاں برسوں سے یہ لڑائی جاری ہے کہ تراویح ہے کہ نہیں اور ہے تو کتنی ہے؟
جس معاملے پر تین صحیح احادیث پاک موجود ہوں اور کوئی طبقہ صرف پہلی حدیث پر عمل کرتا ہے تو اسے دیانت داری کیساتھ یہ بتانا چاہئے کہ تینوں طریقے ٹھیک ہیں لیکن ہم زیادہ ثواب چاہتے ہیں اسلئے مشکل طریقہ اختیار کیا ہے، یا زیادہ تر متقدمین اسی طریقے پر عمل کرتے تھے یا ہم نے اپنے امام، مجتہد، پیر بزرگ شیخ کیساتھ یکجہتی یا تقلید کیلئے یہ طریقہ اختیار کیا ہے یا ہمیں ویسے ہی یہ طریقہ مرغوب ہے لیکن بقیہ دو طریقے بھی ٹھیک ہیں، اسی طرح دوسری یا تیسری حدیث پاک کے طریقے پر عمل کرنے والوں کو بھی یہی بتانا چاہئے۔لیکن جب تینوں لوگ اپنی اپنی پریکٹس کو لیکر مدمقابل آجاتے ہیں اور ایکدوسرے کو گمراہ قرار دیتے ہیں تو ایک تو یہ دیانتداری نہیں اور دوسرا عوام کو بھی کنفیوژ اور بدظن کرتے ہیں۔ایک ہی دین میں ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک بات دوسری بات کے الٹ ہو اور دونوں ٹھیک بھی ہوں۔
دین اسلام کو جب آپ خالق کائنات کا حکم نامہ بتاتے ہیں اور سب سے معتبر اور مقدس ہستی کا کلام بتاتے ہیں، پھر ایسا دین آنا بھی نہیں، اس دین نے قیامت تک ساری دنیا کی رہنمائی کرنی ہے تو اس میں تضاد کا کیا کام؟لیکن جب آپ مبلغین کی مجموعی مساعی کو دیکھیں تو ہر مسئلے پر ایک خلفشار برپا کئے بیٹھے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے؟ اتنے شدید اور رنجش آمیز اختلافات کیساتھ آپ پوری انسانیت کی رہنمائی کیسے کر لیں گے؟
نماز پنجگانہ کی فرضیت، رکعات کی تعداد اور نماز کے ارکان پر سب کا اتفاق ہے لیکن ادائیگی کے طریقے اور نظام الاوقات میں بائنری ہے، زوال کے بعد ظہر ہوتی ہے تو لیٹ دی پیپلز ڈیسائیڈ اٹ اینڈ ایکٹ اکارڈنگ تو دئیر چوائس، رفع یدین یا ہاتھ چھوڑ کے پڑھنے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے لیکن نماز کے ارکان پورے ہونے چاہئیں۔
یہی معاملہ روزے کا ہے، سب کیلئے تیس روزے ہی فرض ہیں اور ان سب کا دورانیہ صبح صادق سے غروب آفتاب تک کا ہی ہے لیکن سحری افطاری کے ٹائم میں سب کا فرق ہے یہ احتیاط کی بنیاد پر اپنا اپنا چوائس ہے اس کیلئے بھی لڑنے کی ضرورت نہیں۔ستر چھپانا فرض ہے، کپڑے کے رنگ، سائز، کمیت اور ڈیزائن پر کوئی پابندی نہیں لیکن کتابوں میں یہ بحث بھی موجود ہے، آپ کو جبہ و صوف پہننا ہے تو آپ کو یہ اختلاف جائز ہے مگر باقیوں پر لاگو کرنا ہر گز جائز نہیں کیونکہ ستر ڈھانپنا شرط ہے، کس چیز سے کیسے ڈھانپنی ہے یہ کوئی شرط نہیں، یہ چیز ہر بندے کی مالی حیثیت اور ذوق کے مطابق اس کی صوابدید پر چھوڑ دی گئی ہے۔حمدوثناء اور دیگر ضروریات کیلئے دعائیں بھی کثرت سے ملیں گی، ہر چیز پڑھنا ضروری نہیں، ان میں سے بھی ہر ضرورت کیلئے صرف ایک ایک وہ چیز منتخب کر لیں جو فضائل کے اعتبار سے زیادہ ہو اور پڑھنے میں آسان ہو یا آپ کے ذوق کیلئے طمانیت بخش ہو، یہ طریقہ طوہاًوکرہاً مشکل دعائیں پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے۔
کسی بزرگ کی فضیلت کسی انسان کے بنیادی حقوق سلب نہیں کر سکتی، ایسا ہوتا تو ایک اعرابی کی شکایت پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ عراق کے گورنر صاحب کو سخت الفاظ میں خط نہ لکھتے، نہ کسی عام بندے کی جرأت ہوتی کہ وہ خلیفۂ وقت کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر کر سکے۔لیکن یہاں ایک بزرگ کے مریدین نے نماز جمعہ کے بعد دو نوجوانوں کو مسجد میں صرف اسلئے تھپڑ مارے کہ جس ڈائیریکشن میں ان کے پیر بابا آرہے تھے وہ نوجوان رستے میں پڑتے تھے حالانکہ پیر صاحب آدھا فٹ دائیں یا بائیں سے بھی گزر سکتے تھے یہی بات ان لڑکوں نے کہی تھی کہ دونوں طرف رستہ ہی رستہ ہے جہاں سے مرضی گزر جائیں، یہ بابا دل کی باتیں بتانے کیلئے مشہور تھے، ابھی چند ماہ قبل فوت ہوئے ہیں۔
بزرگ نے یہ واقعہ دیکھا تھا اور میرا خیال تھا واپس جاکے یہ اپنے لڑکوں کو ڈانٹیں گے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا، وہی لڑکے واپس جا کے محفل ذکر کو لیڈ کرنے لگ گئے، میں اس بزرگ سے ملنے جاتا تھا لیکن اس واقعے کے بعد کبھی نہیں گیا۔بزرگوں کا ادب کرنا بنتا ہے مگر اپنے شیخ طریقت، شیخ الحدیث یا کسی مبلغ یا مفکر سے اختلاف کی وجہ سے کسی کے بنیادی حقوق پر حملہ کرنا صرف اگلوں کے اقوال کی بنیاد پر ہے دینی نصوص اس کی اجازت نہیں دیتیں یا پھر لوگوں کا ذاتی جنون ہے جو بعد والوں کیلئے نص کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ:
بنیادی نظریہ یا قانون ہمیشہ بائنری سے پاک اور مستقل رہتا ہے ورنہ سب ایک قانون پر نہیں چل سکتے، البتہ نظریئے یا قانون کے تحت ذمہ داری ادا کرنے کے طریقہ کار میں بائنری بھی ہو سکتی ہے اور بوقت ضرورت اسے بڑھایا یا کم بھی کیا جا سکتا ہے۔
پروسیجرل اختلاف، بائنری، ثنائیت یا دو رائے، ایسے کروں یا ویسے کروں یہ کوئی مصیبت نہیں بلکہ مختلف صلاحیتوں کے حامل عوام کی سہولت کیلئے بہت کارآمد چیز ہے کیونکہ اس سے ذمہ داری کی ادائیگی میں آسانی اور ماحول میں تنوع آتا ہے۔لیکن مذہب کے ماہرین جب اسے مذہب میں لاتے ہیں تو اپنے اپنے تعصبات کیساتھ لاتے ہیں تاکہ اپنی انفرادیت کی علامت بنا سکیں بلکہ دوہرے معیار اور دوغلی پالیسی کیساتھ برتتے ہیں اسلئے ایک معمہ، مخمصہ اور مصیبت بنا کے بیٹھ جاتے ہیں لہذا جس اختلاف سے ماحول میں جان لیوا حد تک کشیدگی آتی ہو وہ باعث رحمت ہرگز نہیں بلکہ وہ فرقہ پرستی کی مد میں ہی آتا ہے۔
حفظِ مراتب کے تحت ہمارے سیکھنے کی ترتیب یہ ہونی چاہئے کہ قانون کلام اللہ سے لیں اور طریقہ کار کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کریں، مجتہدین اور بزرگوں کا عمل تیسرے اور چوتھے درجے کے ماخذات ہیں۔لیکن مذہبی ماہرین جب اپنے اپنے طبقاتی رجحان کے تحت کوئی تیسرے اور کوئی چوتھے ماخذ سے اصول اٹھائے گا تو قیامت تک ان میں اتفاق پیدا نہیں ہو سکتا جبکہ آخری دو ماخذات سے اٹھائے ہوئے اصولوں کی تو ویسے ہی بھرمار ہے مگر کوئی چیلنج نہیں کر سکتا کیونکہ وہ بزرگوں سے منسوب ہیں، جو اختلاف کرے اسے گستاخ قرار دے دیتے ہیں۔
لوجک صرف یہ ہے کہ کسی واصل بااللہ بزرگ سے غلطی کیسے ہو سکتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان بزرگوں نے بھی اپنے ذوق کے مطابق دستیاب سہولیات میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا تھا، ان کیساتھ یکجہتی رکھ سکتے ہیں لیکن اسے دوسروں کیلئے اصول دین نہیں بنا سکتے، دوسرے کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بھی دستیاب آپشنز میں سے جو مرضی چن لے۔
محمد علی مرزا ان فرقوں کو صرف اسلئے کامیابی سے ادھیڑے چلا جا رہا ہے کہ انہوں نے اپنے لئے جو اصول مقرر کر لئے ہیں درحقیقت وہ ریگولیٹری آپشنز تھے جن کے مقابلے میں وہ دوسرے آپشن لے آتا ہے جبکہ اصولِ دین یا قانون اور ریگولیشنز کو گڈ مڈ کرکے بائنری پر لڑنے میں سب ایک ہی جیسے بلنڈریکل رویہ کے شکار ہیں۔
ان حالات میں گزارش ہے کہ دین سے بیزاری اختیار نہ کریں بلکہ دیکھ بھال کے فتنہ پرستوں سے اپنا رستہ بیشک الگ کر لیں، اس میں کوئی حرج نہیں۔