اردگان کے دیس میں

مصنف : ڈاکٹر محمد خالد عاربی

سلسلہ : سفرنامہ

شمارہ : اپریل 2019

 

سفر نامہ قسط نمبر ۱۱
اردگان کے دیس میں
ڈاکٹر خالد عاربی

                                                                                                                                  قیادت با سعادت
کروزعشائیہ میں شرکت سے انکار کے بعد،میں نے استنبول میں موجود کچھ پاکستانی دوستوں سے،اس فارغ وقت میں جو کروز سے بچا لیا تھا، ملاقات کا طے کر لیااور پھر یہ ملاقات ہو بھی گئی۔عشائیہ بھی ہم نے اکٹھے کیا اور کچھ دیر تاقسم اسکوائرکے اوپن ماحول میں گپ شپ بھی ہوئی۔ جب سے ترکی آنے کا میرا یہ پروگرام بنا،ایک سوال جو شروع سے ہی مجھے تنگ کر رہا تھا ،وہ یہ تھا کہ ترکی نے سیکولرازم سے اسلامی معاشرے کی طرف واپسی کا سفر کیسے طے کیا۔تُرکیت سے اسلامیت اورمغرب سے مشرق کی طرف کا سفرکیسے طے ہوا۔ حقیقت یہ ہے کہ میرا ترکی میںآنے کا ایک بڑا مقصد اس سوال کا جواب ڈھونڈنا تھا۔ نیٹ سے لے کر گوگل تک اور پاکستان سے لے کر ترکی تک جو بھی کوئی مناسب بندہ ملا میں نے اُس کے سامنے یہی سوال رکھا۔ ابھی جن دوستوں سے ملاقات کا تذکرہ کیا ہے اُن کے سامنے بھی یہی سوال رکھا۔یہ لوگ کافی عرصہ سے ترکی میں ہیں۔بہر حال یہ ایک لمبی کہانی ہے کہ میں کس طرح سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوا،کامیاب ہوا بھی کہ نہیں،اُس سے صرفِ نظر کرتے ہوئے ،میں یہاں صرف اپنے نتائج جستجو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
مصطفی کمال اور اُن کے ساتھی ایک تو مغرب سے تعلیم یافتہ تھے، دوسرے عرب اقوام نے جس طرح جنگ عظیم اول کے دوران میں ،ترکوں کی پیٹھ پیچھے چھرا گھونپا تھا،اُس کے باعث یہ لوگ ردِعمل کا شکار ہوگئے اور اپنی قوم کے اندر قومیت اور سیکولرزم کے پہلے تویہ لوگ پرزور مبلغ بن گئے اور بعد میں جب اقتدار میں آگئے تووہ ان نظریات کے بزور نفاذ پر ڈٹ گئے۔قوم چونکہ شکست خوردہ تھی اور یہ لوگ اُس کے نجات دہندہ تھے،لہٰذاقوم نے اس ایجنڈے کی نہ صرف مزاحمت نہ کی بلکہ آگے لگ کر اتاترک حکومت کے اقدامات کی پر جوش حامی بھی بن گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے اندرلادینیت،اخلاقی اور سماجی اقدار کی تباہی، کلچر اور ثقافت کے نام پہ عریانی اور فحاشی کاپھیلاؤ اور غلبہ ہو گیا۔ حکومتی سطح پر ان جذبات کو پیدا کرنے کے لیے مسلسل سہولیا ت فراہم کی جارہی تھیں۔ ترکیت کو فروغ مل رہا تھا اور اسلامیت دم توڑ رہی تھی۔مصطفی کمال کے ان سیکولر اقدامات کا تفصیلی تذکرہ قبل ازیں ہو چکا ہے۔ وہ چند نوجوان تھے جنھوں نے اس چیز کی مزاحمت کا فیصلہ کیا اور پھر اُس پر ڈٹ گئے۔وہ مسلسل کوششیں کرتے رہے کہ مسلمانوں کے اندر ایمان کی حرارت قائم رہے ۔وہ سعیدروحیں جنھوں نے اس سیکولر معاشرے کے اندر چراغِ حق جلائے رکھا،اور جو پیہم قربانیاں دیتے چلے گئے، اُن میں سے صرف تین مجاہدین کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں جو ترکی کے معاشرے میں روشنی کا مینار بن کر اُبھرے۔
۱۔بدیع الزمان سعید نورسی،
۲۔سابق وزیر اعظم عدنان مندریس ،اور
۳۔سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان ۔

۱۔استاذبدیع الزمان سعید نورسی :
آپ ایک،سادہ منش انسان، مخلص رہنما،عجزو انکسار کے پیکر ،حکیم و دانا اور زبردست داعی اسلام تھے۔آپ ۱۸۷۳ کو مشرقی اناطولیہ کی ایک بستی نورس میں پیدا ہوئے۔ اپنے آبائی گاؤں کے علما ء سے دینی علوم میں سند حاصل کی ۔ آپ شروع سے ہی فن تقریر،صلاحیت بحث مباحثہ ، بے پناہ قوت حافظہ اورمضبوط قوت استدلال کے باعث بدیع الزمان مشہور ہوگئے یعنی ایک نابغہ عالم ۔آپ نے سائنس کی تعلیم بھی حاصل کی اور سلطنت عثمانیہ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کے علوم کی ترویج کے لیے کوششیں کرتے رہے۔یہ وہ دور تھاجب عثمانی سلطنت کا زوال شروع ہو چکا تھا ۔ آپ نے اُس دور میں حکومت سے عوام الناس کے لیے سائنسی تعلیم کے بندوبست کا مطالبہ کیااور خود بھی اس میدان میں سرگرم عمل ہوگئے اور ایک ایسے ایجوکیشنسٹ بن کر اُبھرے جو مذہب اور سائنس کی تعلیم میں اتحاد کے داعی تھے۔ عثمانیوں کے آخری دور میں آپ سائنسی اورمذہبی تعلیم کو یکجا کرنے کی جدو جہد میں مصروف رہے۔ کئی سرکاری اداروں میں اس مقصد کے لیے خدمات سر انجام دیں۔ جنگ عظیم اول کے دوران آپ روس کے ہاتھوں گرفتار بھی ہوئے اور دو سال روس کی قید میں رہے جہاں صرف قرآن اُن کا ساتھی تھا۔آپ روسی جیل سے فرار ہو کر استنبول آگئے۔دشمن کی قیدسے یہ فرار بھی اُن کی جرأت ، غیرت، جذبہ حریت اور بے پنا ہ حکمت و ذہانت کی دلیل ہے۔ استنبول آکر ایک اسلامک اکیڈمی جائن کر کے دعوت کا کام کرنے لگے۔ آپ نے اعلان فرمایا کہ’’ میں دنیا پر واضح کروں گا کہ قرآن مجید ایک لافانی کتاب ہے۔اس کے عجائبات کبھی نہ ختم ہونے والے ہیں ۔اور یہ رشدو ہدایت کا ایک چمکتا ہوا سورج ہے ۔‘‘اس کے لیے انھوں نے رسائل نور مرتب کرنا شروع کر دیے۔ ترکی میں حالات بدلے،انقلاب آیا اورکمال اتا ترک ترکی کے صدربن گئے۔ اپنے کامیاب انقلاب کے بعد،کمال اتاترک نے جس طرح مغربیت اور لادینیت کا نفاذ شروع کر دیاتھا ،بدیع الزمان سعید نورسی اس کو برداشت نہیں کر سکتے تھے لہٰذا آپ نے اُن کے خیالات و نظریات کی مخالفت شروع کر دی اور عوام میں مقبول ہوتے چلے گئے۔پہلے تو اُنھوں نے کمال اتا ترک اور اُس کے ساتھیوں کو دلیل سے سمجھانا چاہا کہ وہ قوم کو لادینیت اور مغربیت کے گڑھے میں نہ پھینکیں ۔ یورپ کی اندھا دھند تقلید کی بجائے،اپنے قوم کی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کا کام کریں۔اپنی قوم کو جدیدسائنس اور ٹیکنالوجی کی اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم دیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے یورپی تہذیب کی نقالی کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس کے لیے ،سعید نورسی نے کمال اتاترک اور اُس کے ساتھیوں سے کئی ملاقاتیں کیں،حکمرانوں سے مذاکرے کیے ،لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ کمال اتاترک نے محسوس کر لیا کہ یہ ہستی مستقبل میں اُن کے لیے خطرہ بن سکتی ہے تو آپ کو رام کرنے کے لیے پہلے تو انھوں نے آپ کومذہبی امورکی وزارت کی پیش کش کی، لیکن آپ نے انکار کر دیا۔ حکومت وقت نے اس انکار کا برا منایا،اور آپ کی سرگرمیوں پر پہرے بٹھانے کی اسکیمیں کرنے لگے۔ لیکن اسلامی عقیدے اور اسلامی تہذیب کے تحفظ کے لیے سعید نورسیؒ نے اپنی دعوتی جدوجہد جاری رکھی۔حکومت وقت نے آپ پرسختیاں شروع کر دیں۔ایک دفعہ عربی زبان میں اذان دینے پر آپ کو جیل بھی بھیج دیا گیا۔ حکمرانوں نے،ترغیب و ترہیب کے مختلف طریقے آزمانے کے بعد، اپنی ناکامی پر بوکھلا کر نورسی صاحب کو دوردراز کے دیہات میں نظر بند کردیا ۔ انھوں نے وہاں بھی اپنی دعوتی کوششیں جاری رکھیں۔آپ کی دعوت کے اہم نکات ، جہاد، مثبت عمل اور عدم تشدد تھا۔آپ اپنے جہاد کو لفظی یا کلامی جہاد کہتے تھے، مطلب یہ کہ بات چیت سے اپنی بات دوسروں تک پہنچانا۔ دوسرے معنوں میں آپ جہاد کو قتال کے معانی میں نہیں بلکہ جدوجہد کے معانی میں لیتے تھے۔وہ مادہ پرستی اور الحاد کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور ان نظریات کے خلاف قلمی جہاد کر رہے تھے۔آپ نے حکومت سے ٹکرانے اور اُس کیخلاف سیاسی یا کسی قسم کی مسلح جدو جہد کرنے کی بجائے ، معاشرے کے اندر موجود اسلامیت کی روح کو زندہ رکھنے کی جدو جہد کی۔ آپ نے قرآن مجید کو اپنی دعوت کا محورو مرکز بنایا بڑے مشکل حالات میں آپ نے چھوٹے چھوٹے دعوتی رسائل کی شکل میں اپنا کام جاری رکھا۔ یہ قرآن مجید کے تفسیری رسائل تھے جن کو رسائلِ نور کا نام دیا گیا۔یہ تشریحی نوٹس اور قرآن مجید کے مواعظ کم و بیش چھ ہزار صفحات پر مشتمل ہیں۔یہ رسائل جیل سے خطوط کی شکل میں باہر آتے اور ہاتھوں سے ہی نقل کر کے آگے پہنچائے جاتے اُس دور میں مذہبی لٹریچر کو چھاپنا جرم تھا ، اس لیے نورسی تحریک کے کارکن اپنے ہاتھوں سے ان رسائل کی نقول تیار کرتے اور آگے پہنچاتے ۔اُنھوں نے اپنا ڈاک سسٹم بھی الگ سے قائم کیا ہوا تھا۔یہ کمالزم کے عروج کا زمانہ تھا ،ایک طرف پوری حکومت کی مشینری تھی جو لوگوں کے اندر مغربیت اور لادینیت کوپورے حکومتی وسائل کی طاقت اور قانونی جبر کے ذریعے ٹھونس رہی تھی ،دوسری طرف بدیع الزمان سعید نورسی کے یہ چھوٹے چھوٹے قرآنی پمفلٹس تھے جو لوگوں کے اندر اسلامیت کو باقی رکھ رہے تھے۔ان تحریروں میں سادہ انداز میں اسلامی معاشرہ کے اندر اسلامی اقدار سے وابستگی کی دعوت اور ایک مسلم کے ایمانی شعورکو پختہ کرنے کی دعوت ہوتی وہ کسی قسم کی منظم جماعتی یا تحریکی طریقہ کار کی بجائے،صرف اورصرف دعوتی کام کر رہے تھے۔ وہ بڑے بڑے سیاسی،سماجی معاشرتی اور معاشی مسائل کو موضوعِ بحث نہ بناتے بلکہ ایک فرد کے اندر کو مخاطب کرتے اوراُن کے دِل کی دنیا کو بدلنے کی دعوت دیتے۔وہ کسی قسم کے سیاسی انقلاب کے پروگرام کی بجائے، مسلم معاشرہ کے قیام پر زیادہ زور دیتے تھے۔اس دور میں جب مسلم حکمران ہی، مسلمانوں کے ذہنوں سے اسلامیت کو کھرچنے کی کاوشیں کر رہے ہوں،ان کا جواب یہی ہو سکتا تھا کہ اسلامیت کی اس چنگاری کو بجھنے نہ دیا جائے اورسعید نورسی ؒ یہی کر رہے تھے اور اس میں وہ کامیاب رہے۔وہ لا دینیت ، الحاد ، مادیت اور سوشلزم کو اپنا دشمن سمجھتے تھے اور ان کی فلسفیانہ بنیادوں کو نورِ قرآن کے ذریعے رد کرتے رہے۔
سید بدیع الزمان نورسی ؒ کسی قسم کی سیاسی جدوجہد نہیں کر رہے تھے،تو کیا وہ سیاست سے بیزار تھے؟ کیا وہ سیاسی جدوجہد کے خلاف تھے؟نہیں،ہرگز نہیں،ان کے سامنے بس مسئلہ صرف ترجیحات کا تھا ۔اُن حالات میں کوئی بڑا اقدام کرنے کی بجائے عوام الناس کے سرمایہ ایمان کے تحفظ کی ضرورت تھی۔سیاست کے میدان پر بھی آپ کی نظر تھی۔یہی وجہ ہے کہ جب ۱۹۵۰ء میں ترکی میں پہلی بار آزادانہ انتخابات ہوئے تو سعید نورسیؒ نے عوام الناس کو اور اپنے متعلقین کو کھل کر اسلام پسند سیاستدان عدنان مندریس کو سپورٹ کرنے کا مشورہ دیا۔مصطفی کمال اور عصمت انونو کے دور حکومت میں آپ نے زندگی کا بیشترحصہ نظر بندی اور جیل میں گزارا۔آپ جب اسی پچاسی سال کے بوڑھے ہوگئے اور کمال مصطفی کی پارٹی کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو پھر نئے آنے والے حکمرانوں نے ۱۹۵۶ء میںآپ کو رہا کر دیا،لیکن اب آپ زندگی کے آخری سالوں میں قدم رکھ چکے تھے اورجلد ہی، ۱۹۶۰ ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ ترک معاشرے پر آپ کے بے پناہ اثرات پائے جاتے ہیں۔مختلف ذہین لوگوں میں،قومی اداروں میں، یونیورسٹیوں کے پروفیسروں میں اورسیاسی پارٹیوں میں،کثیر تعداد میں اس خاموش تحریک سے متائثرین موجود ہیں جن میں جلاوطن رہنماگولن اور سابق وزیر اعظم عدنان مندریس اور مشہور مصنف ہارون یحییٰ بھی شامل ہیں۔
عدنان مندریس:
خالص بے دینی ،سیکولرازم اور ایسا نیشنلزم جو اسلامیت کی نفی کرے ،ایک مسلم ملک میں تا دیر نہیں پنپ سکتا۔یہی وجہ ہے کہ کمال اتاترک کے مرنے کے بعد ،اس کے وہ نظریات جو اُن لوگوں نے جمہوریت کا لبادہ اوڑھ کر ترک مسلم معاشرے میں بہ جبر ٹھونس رکھے تھے ،کمزور پڑنا شروع ہوگئے۔پچاس کی دہائی میں جب کمالزم کو زوال آیا اور اس کی سیاسی پارٹی کمزور پڑ گئی تو ملک میں اسلام پسندی کے رجحانات بڑھنے شروع ہوئے۔ترک معاشرے میں عدنان مندریس فیکٹر اسی دور میں پروان چڑھا۔ 
آپ ۱۸۹۹ء میں کوچرالی گاؤں میں،ایک جاگیردار گھرانے میں پیدا ہوئے۔آپ نے انقرہ یونیورسٹی سے ۱۹۳۰ء میں قانون کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیم سے فراغت کے بعد مندریس نے وکالت کے ساتھ ساتھ سیاست بھی شروع کردی۔اس زمانے میں ملک میں کمال اتاترک کا طوطی بول رہاتھا۔ملک میں واحد پارٹی نظام چل رہا تھا۔ہربار انتخابات میں ایک ہی پارٹی میدان مارتی۔ ان دنوں، ۱۹۳۰ء میں، بمشکل ارباب اقتدار نے سیاسی پارٹی قائم کرنے کی اجازت دی اورایک نئی سیاسی پارٹی قائم کی گئی تھی،مندریس اس میں شامل ہوئے لیکن صدر صاحب نے جو یک پارٹی جمہوریت قائم کر رکھی تھی اُس کے آگے یہ نیا چراغ نہ جل سکا اور روشن ہونے سے پہلے ہی بجھ گیا۔اس پارٹی کو جلد ہی خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔لیکن نوجوان وکیل عدنان مندریس کے اندر جوہر قابل دیکھ کر، کمال اتا تر ک نے خودانھیں اپنی پارٹی میں شامل ہونے کی دعوت دی۔اتاترک کی دعوت پر،۱۹۳۱ء میں،آپ حکمران ریپبلکن پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔تیرہ چودہ سال ،اس پارٹی میں رہ کرملک کی خدمت کی اور مختلف سرکاری اور تنظیمی عہدوں پر فائز رہے۔وہ مصطفی کمال کے قریبی ساتھی سمجھے جاتے تھے لیکن اتاترک کی وفات کے بعد،باقی قیادت سے اُن کی نہ بن سکی۔۱۹۴۵ء میں ، صدر عصمت انونوسے اختلافات کے باعث،چند دیگر لیڈرز کے ساتھ یہ بھی پارٹی سے نکال دئیے گئے۔ ان نکالے گئے لیڈرز نے،مل کر ۱۹۴۶ء میں ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیاد رکھی۔سابق وزیر اعظم جلال بایار بھی اس میں شامل تھے۔اس نئی قائم ہونے والی پارٹی نے ۱۹۵۰ء میں ہونے والے انتخابات بھاری اکثریت سے جیت لیے اورعدنان مندریس وزیر اعظم بنا ئے گئے اور جلال بایار صدر مملکت۔اسی پوزیشن پر ان دونوں نے متواتر دس سال تک کام کیا۔یہ دونوں لیڈرز اپنے پیش روؤں کے مقابلے میں اسلامی شعائر کا احترام کرنے والے اوراپنی اپنی ذاتی زندگیوں میں اسلامی اقدار کو اپنانے والے تھے۔اپنی انتخابی مہم میں بھی اس نئی پارٹی کے قائدین نے اسلامی شعائر اوراسلامی اقدار کی بحالی کا وعدہ کیا اور پھر اقتدار میں آکر،یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عدنان مندریس نے عربی اذان پر پابندی ختم کردی اور ہزاروں بند شدہ مساجد کو کھلوا دیا اور کہا جاتا ہے کہ کم و بیش بیس پچیس سال بعد ،جب ترکی کی فضاؤں میں عربی اذان کی آواز گونجی تو لوگ چیختے ہوئے گھروں سے باہر نکل آئے۔یہ رونا چیخنا خوشی کا رونا چیخنا تھا۔ایک عجیب رقت انگیز منظر تھا۔ ترکی کی فضائیں جیسے اللہ اکبر کی صداؤں کے لیے صدیوں سے ترسی ہوئی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ عدنان مندریس کا صرف یہی ایک اقدام ہی اُس کی نجات کے لیے کافی ہے۔ آپ نے اقتدار میں آکرنہ صرف حج پرپابندی ختم کی بلکہ اپنی قوم کو اس فریضہ کو ادا کرنے کے لیے سہولیات بھی مہیا کیں۔ اس دور حکومت میں بھی ترکی اگرچہ مغرب نواز ہی رہالیکن یہ مسلم دنیاکے بھی قریب آیا۔اپنے ان اقدامات کے باعث ان کے مخالفین نے یہ الزام لگایا کہ یہ اسلام کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔۲۷ ۔مئی ۱۹۶۰ء کو چند نوجوان فوجیوں نے بغاوت کر دی اور ملک میں مارشل لا لگا دیااور یہ الزام لگایا کہ ملک کے سیکولر بانیوں کے بنائے ہوئے خطوط سے ملک کو ہٹایا جا رہا ہے ۔مارشل لا نے،اپنی کینگرو کورٹ قائم کرکے ان کواور ان کے ساتھیوں کو ٹرائیل کیا اور سزائے موت سنا دی اور ۱۷ ۔ستمبر ۱۹۶۱ء کومندریس پھانسی پر چڑھا دیے گئے اور یوں فوج نے اس ٹرین کو جو اسلامیت کی پٹڑی پرچڑھاچاہتی تھی ایک بار پھرلائن سے اُتاردیا۔ایک بار پھرترکی میں مغربیت،لادینیت اور قومیت کے پرچم بلند ہونے لگے۔لیکن اسلام پسند بھی اپنے مشن میں ایک نئے عزم اورنئے ولولے اور نئی حکمت عملی کے ساتھ،میدان میں موجود رہے اور اسلامیت کی طرف جو سفر طے ہو چکا تھا نہ صرف اُس کو ریورس ہونے سے روکے رکھا بلکہ،کچھوا چال ہی سہی،کسی نہ کسی طور پیش قدمی بھی جاری رکھی۔
۳۔نجم الدین اربکان:
اکتوبر ۱۹۲۶ء تافروری ۲۰۱۱ء
پروفیسر ،ڈاکٹر،مکینیکل انجینئر ،سابق ڈپٹی وزیر اعظم اورسابق وزیر اعظم 
ترک معاشرے اور ترک سیاست میں اسلامیت کا رنگ بھرنے میں سب سے زیادہ فعال کردارجس شخصیت نے ادا کیاوہ سابق وزیر اعظم جناب پروفیسرنجم الدین اربکان ہیں۔یہ وہ ہستی ہیں جنھوں نے دلائل کی قوت سے ترک معاشرے میں اس بات کو ثابت کیا کہ ہمارے دین اسلام میں مذہب اور سیاست میں کوئی دوری نہیں اور ہمیں ہمارا دین فرد کے تزکیے سے لے کر ریاست کے تزکیے تک کا درس دیتا ہے اور ہمارا ماضی،ہمارا حال اور ہمارا مستقبل مسلم اُمہ کے ساتھ جڑا ہے نہ کہ یورپ کے ساتھ اور یہ کہ ہماری تہذیب میں سیدی محمد کریم ﷺ کی پیروی ہے نہ کہ آئمہ یورپ کی۔
نجم الدین اربکان ،ترکی کے شمال میں،بحر اسود کے ساحل پر واقع شہر سینوپ میں، ۱۹۲۶ء میں پیدا ہوئے۔اس زمانے میں عثمانی خلافت کو زوال آ چکا تھا اور ترکی پر کمال مصطفی کی قیادت میں سیکولر طبقہ بر سر اقتدار آچکا تھا۔انھوں نے استنبول انجینرنگ یونیورسٹی سے ۱۹۴۸ء میں گریجوایشن کی پھر مکینیکل کے شعبہ میں پی ایچ ڈی کی اور پیشہ ور انجینیئر کے طور پر اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔یونیورسٹی میں بطور لیکچرر تعینات ہو گئے اور ۱۹۶۵ء میں پروفیسر کے منصب تک پہنچ گئے۔آپ ایک اعلیٰ پائے کے استاداور ماہر انجینیئر تھے۔ یونیورسٹی میں تعلیم وتدریس کے علاوہ آپ مختلف فیکٹریوں اور صنعتی اداروں میں بھی خدمات انجام دیتے رہے۔ایک طویل عرصہ پیشہ ورانہ خدمات کے بعد، آپ نے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت سیاست کے میدان میں قدم رکھ دیا۔آپ اگرچہ تصوف کے سلسہ نقشبندیہ سے منسلک تھے لیکن آپ نے عملی سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔۱۹۶۹ء میں آپ قونیہ کے ڈپٹی منتخب ہوگئے۔اسی سال آپ نے ایک قومی منشور شائع کیا،جس میں آپ نے واضح کیا کہ ہماری امنگوں اور آرزوں کا مرکز اسلام ہے۔اس منشور یا قومی بیانیہ(ملی گورش) میں آپ نے واضح موقف اختیا کیا کہ ہماری نجات اسلامیت میں ہے نہ کہ ترکیت اور لادینیت میں۔اس قومی بیانیہ نے دیکھتے ہی دیکھتے ایک قومی اجتماعی آواز کی شکل اختیا کرلی اور آپ نے اس بیانیہ پر۱۹۷۰ء میں ایک قومی سیاسی جماعت کے قیام کا اعلان کر دیاجس کا نام ملی گورش پارٹی رکھا۔نجم الدین اربکان کی شکل میں ترک قوم کو اسلاف کا قلب و جگر مل چکا تھا اور آپ سیکولر ترکی میں اسلامی نظام کے نفاذ کے علمبردار بن کر اُبھرے۔وہ ترک جو،جنگ عظیم اول کے بعد، خلافت عثمانیہ کا نام تک لینے سے کتراتے تھے،ایک بار پھر اسلامی خلافت کے احیا کی باتیں کرنے لگے۔سیکولر اوردین بیزار حکمران طبقہ یہ سب کچھ کیسے برداشت کر سکتا تھا۔ یہ سب باتیں اس پوری فکر کے خلاف تھیں جو ترکوں کے باپ کمال مصطفی نے طے کی تھیں اور اس پراپنے دستور کی بنیاد رکھی تھی اور ان نظریات اور اصولوں پر ملک کو چلایا تھا۔اتاترک اور اُس کے ساتھیوں کی ساری سیاست ہی ترک قومیت کے گرد گھومتی تھی،لیکن اس کے مقابلے میں اربکان کی سوچوں کا محور اور ساری جدو جہد کا مرکز اسلامیت اور صرف اسلامیت تھی۔
جناب اربکا ن نے صرف باتیں ہی نہیں کیں بلکہ اُن اصولوں پر،جن پر ان کا ایمان تھا، ملکی نظام کو چلانے کے لیے عملی سیاسی جدو جہد بھی کی۔ایک کے بعد ایک سیاسی جماعت بنائی، لوگوں تک اپنی بات پہنچائی۔ان کی ایک جماعت پر پابندی لگی،انھوں نے نام بدل کے دوسری جماعت بنا لی۔قربانیوں پر قربانیاں دیتے چلے گئے اوراپنے نظریات پرڈٹے رہنے کی ایک مثال قائم کر دی۔آپ کی اس جدو جہدکا ایک قلیل اندازہ ان پارٹیوں کے ناموں سے لگا یا جاسکتا ہے جو وقتاً فوقتاً آپ نے بنائیں،
ملی گورش پارٹی ،۱۹۷۰
ملی نظام پارٹی 
ملی سلامت پار ٹی ۱۹۷۲ء
رفاہ پارٹی۱۹۸۷ء
فضیلت پار ٹی۱۹۹۸ء
سعادت پارٹی۲۰۰۳ء
مختلف اوقات میں ،مختلف ناموں سے بنائی جانے والی ان سب پارٹیوں کا ایک ہی نصب العین تھا ،ایک ہی مشن اور ایک ہی مقصدتھا،وہ یہ کہ ملکی اقتدار وسیاست کے ایوانوں میں اسلام کا بول بالاہو۔اہل ترکی اپنے آپ کو امت کے ساتھ جوڑیں۔یہ سب اسلامی سیاسی پارٹیاں تھیں،لیکن ترکی کے دستور میں اس طرح کی پارٹیوں کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس لیے ان پر یکے بعد دیگرے پابندی لگتی رہی۔جناب اربکان نے ،ملی گورش پارٹی کے قیام کے وقت جو منشور ، نصب العین اور لائحہ عمل تجویز کیا تھا ، وہی،تھوڑے بہت لفظی اختلاف کے ساتھ، ہر بار ہر تنظیم کی بنیادی دستاویز بنتا رہا۔
ترک قوم نے آپ کو خوش آمدید کہا اور مختلف انتخابات میں آپ کو فتح سے ہمکنار کرتے رہے اور آپ کو اور آپ کے رفقاء کو اسمبلیوں میں بھیجتے رہے،حتیٰ کہ۱۹۹۶ء میں وہ بھاری اکثریت سے جیت کر آئے اور وزیر اعظم منتخب ہوئے لیکن فوجی جنتا نے اُن کو کام نہ کرنے دیا اور منصب سے یہ کہہ کر ہٹا دیا کہ یہ ملک کی بنیادی فکر سیکولرزم کے خلاف کام کر رہے ہیں۔آپ کی پارٹی پر پابندی لگا دی گئی۔لیکن آپ نے جد و جہد سے منہ نہ موڑا اورحسب عادت ایک نئے نام اور نئے جذبے سے کام شرو ع کردیا لیکن اب زندگی نے وفا نہ کی اور آپ ۲۷۔فروری۲۰۱۱ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔
آپ کے اخلاص اور بھر پورجدو جہد کا ثمرہے کہ موجودہ صدر ترکی اور اُن کے رفقا سب، جناب اربکان کے ساتھی اور اُن کی فکر کے علمبردار ہیں۔ موجودہ حکمران پارٹی بھی انھی کی فکر کی خوشہ چین ہے۔ 
ہمیں خوب اندازہ ہے کہ یہ چند صفحات ان تینوں حضرات کی جدوجہد کو بیان کرنے کے لیے ناکافی ہیں،لیکن اس سے زیادہ لکھنا بھی ہماری اس کتاب کے سکوپ سے ماورا ہے۔لہٰذا اسی پر اس موضوع کو ختم کرتے ہیں،ان ہستیوں کا محض تعارف کروانا مقصود تھا،سووہ ہو گیا۔(جاری ہے )
***