پاكستانيات
بلوچستان كا الميہ
مہدی بخاری
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سُنی گئی
میں ایک اونچے مقام پر کھڑا ہوں۔ یہ پہاڑی زمین ہے۔ کنارے سے لگ بھگ پچاس فٹ نیچے ریت کے ٹیلوں کا طویل سلسلہ ہے۔ ان ٹیلوں کے پار سمندر ہے۔ سورج ڈھلنے لگا ہے اب نیلگوں پانی لہر بہ لہر ساحل سے ٹکرا رہے ہیں۔ بلوچستان میں کورے کاغذ جیسے ان چھوئے ساحل ہیں ان میں سے ایک میرے سامنے ہے۔ اس کو سپت بیچ کہتے ہیں۔ میں نے مکران کوسٹل ہائی وے چھوڑی اور چندرا گُپ مڈ والکینو کی جانب ہو لیا۔ ایک تنگ سڑک جو دو طرفہ ریت سے لدی ہے مجھے چندرا گپ مڈ والکینو لے گئی۔ وہی سڑک اس کے بعد سپت گاؤں تک جاتی ہے جو اس کی آخری منزل ہے۔ سپت ماہی گیروں کی بستی ہے۔بستی میں سڑک اتر گئی مگر میں اسے سے پہلے ہی اسے چھوڑ کر بائیں جانب مڑ گیا۔ پتھریلے راستے پر کچھ دیر گاڑی چلی اور پھر میرے سامنے آخری مقام آیا۔ گاڑی رک گئی۔ یہ ڈیڈ اینڈ تھا۔ نیچے صحرا تھا اور سامنے سمندر۔ بستی سے باہر آ کر کچھ ننھے بلوچ بچے وہاں ایک دوجے ساتھ کھیل رہے تھے۔ گاڑی رکی تو بچوں نے اسے گھیر لیا۔ ان کی عمریں دس سے چودہ سال تھیں۔ باہر نکلا تو پیاس محسوس ہوئی۔ میں نے گاڑی سے پانی کی بوتل نکالی اور منہ لگا کر پینے لگا۔ بچے مجھے یوں حیرت زدہ پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگے گویا میں کوئی نایاب جانور ہوں اور وہ چڑیا گھر کے وزٹ پر آئے ہوئے ہیں۔ ایک قدرے بڑی عمر کے بچے سے میں نے سلسلہ کلام جاری کرنے کو پوچھا “ سکول جاتے ہو ؟”۔ جواب آیا “ جی ہاں”۔
کس کلاس میں پڑھتے ہو ؟چھٹی کلاس میں پڑھتا ہوں۔آج سکول کیوں نہیں گئے ؟آج گھر میں کام تھا بس نہیں گیا۔تم تو یہاں کھیل رہے ہو ، گھر میں کام تو نہیں کر رہے ؟میں کھیل نہیں رہا۔ وہ نیچے میری امی اور خالہ پانی بھرنے گئی ہوئی ہیں۔ ہم سب ان کا انتظار کر رہے ہیں۔ ( اس نے دور ریتلے ٹیلوں کی جانب اشارہ کرتے جواب دیا)میں نے گردن گھما کر دیکھا۔ دور کہیں نیچے ایک ٹیلے کی اوٹ میں نشیب میں کچھ رنگ برنگی پیراہن ہوا میں لہراتے نظر آئے۔ نشیب میں خواتین کا ایک گروہ تھا۔ اس گروہ کے پاس ساحل تھا اور سمندر تھا۔ میں نے حیران ہوتے اس بچے سے کہا -وہاں کنواں ہے کیا ؟ ان ٹیلوں کے اندر ؟ہاں۔ وہاں کنواں ہے۔ ہم سب کی امی اور بہنیں وہاں پانی لینے گئیں ہیں۔ ہم ان کے انتظار میں کھڑے ہیں۔اچھا۔ تم ساتھ کیوں نہیں گئے ؟
ہم کو اجازت نہیں۔ وہ جب اوپر آ جائیں گے تو پھر ہم سب بچے یہاں سے پانی اٹھا کر گاؤں تک جائیں گے ہماری یہی ڈیوٹی ہے۔میں نے دوبارہ گردن گھما کر دیکھا۔ صحرائی ٹیلوں میں ہلچل تھی۔ رنگین پیراہن لہرا رہے تھے۔ اچھا یہاں صحرا میں کنواں کیسے ہے ؟ کس نے کھودا ؟بہت پرانا ہے۔ مجھے نہیں پتا کب سے ہے۔یہاں سے روز پانی بھرتی ہیں تمہاری امی ؟ہاں، صبح اور شام دن میں دو دفعہ۔بچوں کا گروہ مجھے گھیر کر کھڑا میری باتیں سُن رہا تھا۔ وہ چھوٹے تھے۔ شاید ان کے پلے میری باتیں نہ پڑ رہی ہوں۔ ان سب کی مائیں یا بہنیں نیچے دور پانی بھر رہی تھیں۔ یہ ان کی آمد کے منتظر تھے۔ میں یہ سوچ کر حیرت زدہ کھڑا تھا کہ صحرا میں کنواں کیسے نکلا ہو گا ؟۔ اتنا فاصلہ طے کر کے پانی بھرنے جانا اور آنا کس قدر مشقت طلب کام ہے۔ ابھی تو موسم نہ سرد ہے نہ گرم مگر گرمیوں میں ان کا کیا حال ہو جاتا ہو گا۔ کئیں سوال میرے ذہن میں گھومنے لگے تھے۔یہ بتاؤ کنوئیں کا پانی صاف ہے ؟ اچھا ہے ؟نہیں۔ کڑوا ہے۔ مگر پینے کو یہی ہے سمندر کا پانی تو نہیں پی سکتے۔ ( یہ سن کر بچوں کی ہنسی گونجی۔ ان سب کو شاید میرا سوال سٹوپڈ لگا ہو گا۔ ان کی نظر سے دیکھوں تو میرا سوال سٹوپڈ ہی تھا۔ جہاں ہر طرف سمندر ہو وہاں پانی میٹھا کیسے ہو سکتا اور پینے لائق کہیں اور پانی موجود ہوتا تو اتنی مشقت کر کے ریت پر چلتے ان ٹیلوں کو عبور کر کے پانی لینے کون جاتا)جب ان کی ہنسی تھمی تو میں نے دیکھا ان سب کے چہروں پر عجیب سی اداسی تھی۔ آپ کیا کر سکتے ہیں ؟ ناں آپ ریاست ہیں نہ ہی ریاست کے صاحب اختیار نمائندے۔ میں نے گاڑی میں موجود منرل واٹر کی چار بڑی بوتلیں نکالیں۔ میرے پاس اتنی ہی تھیں۔ اس لڑکے کو کہا “ یہ لو، یہ بھی گھر لے جانا”۔ اس سے صبر نہ ہو پایا۔ بوتلیں تھام کر اس نے بقیہ بچوں میں بانٹیں اور پھر بولا “ ایک کھول کے چیک کرتا ہوں”۔ پھر اس نے بوتل کھولی۔ گھونٹ بھرا۔ پھر سب بچوں نے باری باری گھونٹ بھرے۔ اور پھر ایسے احتیاط سے ڈھکن لگا دیا جیسے نو دولتیا کوئی رائل سلوٹ سکاچ وہسکی کی بوتل کو ڈھکن لگائے۔ یہ منظر دیکھ کر میرا دل بھر آیا۔ توجہ بٹانے کو گردن گھمائی اور ریتلے ٹیلوں پر مرکوز کر دی۔ ٹیلے دھندلا چکے تھے۔کچھ منظر صاف ہوا تو ایک باب طلسم کھُلا۔ خواتین کا گروہ نشیب سے اُبھر کر باہر آیا۔ ان کے سروں پر نیلی پلاسٹکی گیلنز تھیں۔ ان میں پانی تھا۔ سارا گروہ آپس میں چہ مگوئیاں کرتے واپس بستی کی جانب چلنے لگا تھا۔ میں نے کیمرا نکالا اور فوٹوز لینے لگا۔ آنچل ہوا میں اڑتے آگے بڑھتے رہے۔ کبھی نشیب میں اُتر کر نظروں سے گم ہو جاتے اور کبھی یکایک ٹیلے پر اُبھرتے۔ ان خواتین نے کافی مسافت طے کرنا تھی۔ سفر ہوتا رہا۔ ہر قدم گیلن سے پانی چھلک کر مسافر کی آنکھ سے بہتا رہا۔
بلوچ دیہاتی خواتین کیا کچھ نہیں کرتیں۔چودہ سال کی عمر میں شادی کر کے جب یہ پیا گھر سدھار جاتی ہیں تو گھر کا سارا کام انہی کے ذمے آ جاتا ہے۔صبح ہوتے ہی یہ کام پہ لگ جاتی ہیں جو رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ کپڑے کشیدہ کاری کرتی ہیں،کپڑے دھوتی ہیں،کھانا بناتی ہیں،اور ہر صبح پلاسٹک کی گیلن پکڑے آٹھ دس کلومیٹر چل کر پانی لاتی ہیں۔ تیس سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے بڑھاپا ان کے گھر کے دروازے پر دستک دے رہا ہوتا ہے۔
اکیسویں صدی نے کروٹ بدلی پر بلوچ عورتوں کی قسمت نہ بدلی۔ وہی ڈھول، وہی کنواں اور کنویں سے پانی نکالنے کی مہم جوئی۔بسا اوقات کنواں خشک ہو جاتا ہے تو پانی کے حصول کے لیے ان خواتین کو دوسرے گاؤں یا کنوئیں کی جانب دس بارہ کلومیٹر کی مسافت پیدل طے کرنا پڑتی ہے۔سروں پر بڑی بڑی منجلیں رکھ کر یا پلاسٹک کی گیلنوں میں گھروں تک پہنچایا کرتی ہیں۔جہاں نہ صاف پانی ہو، نہ تعلیم و صحت کا مربوط نظام ہو، نہ معاشی سرگرمی ہو وہاں بلوچ مرد کیا کرے ؟۔ احساسِ محرومی کے سائے میں پھلتی پھولتی ہوئی ایک نسل جوان ہوئی ہے۔محرومیوں کے یہ سلسلے طویل ہیں۔ میں تو سوچتا رہا اور گروہ سفر کرتا رہا۔پھر سارا گروہ ریتلے ٹیلے پاٹ کر کنارے آن لگا۔ بچے بھاگ کر اپنی ماؤں کے پاس پہنچے۔ یہاں سے آگے گھر تک کا سفر بچوں نے بوجھ بانٹ کر طے کرنا تھا۔ میں نے گاڑی سٹارٹ کی اور وہاں سے رخصت ہونا چاہا۔ بچوں نے شاید میری دی ہوئیں پانی کی بوتلیں ان کو دے دیں تھیں۔ دور سے وہ خواتین مجھے دیکھتی رہیں۔ پھر کسی نے میری دی ہوئی ایک بوتل کو پینے کے بعد خالی کر کے ہوا میں لہرا دیا۔ یہ شاید شکرئیے کا اشارہ تھا۔ بوتل ہوا میں ہلتی رہی۔ میں گاڑی عقبی شیشے سے تب تک بوتل کو دیکھتا رہا جب تک گاڑی موڑ نہیں مڑ گئی اور وہ سب منظر سے غائب نہیں ہو گئے۔ آگے کے راستے پر چہار جانب اداسی پھیلی تھی۔میں جانتا ہوں کہ میرے لکھنے اور دکھانے سے کیا فرق پڑنا ہے۔ کچھ بھی تو نہیں۔ جہاں ریاست ساڑھے سات دہائیوں سے اپنی ہی بِین کی دُھن پر مست ہو وہاں نقار خانے میں طُوطی کی آواز کون سنتا ہے۔ جونؔ مرحوم پھر سے یاد آ گئے۔
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک --بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی