فكر ونظر
شعور کا المیہ
مبشر سليم
کباڑیے کی دکان پر، میں کس غرض سے گیا تھا، وہ تو میں بھول چکا تھا۔لیکن میں ایک جیتے جاگتے انسان سے ایک احساس میں ڈھل چکا تھا۔
سٹیل کے ان گلاسوں کو جب لڑکی کے جہیز میں دینے کیلئے خریدا گیا ہوگا تو وہ پل کتنے مسحور کن ہوں گے۔ کسی نئے گھر کےسفر پر روانگی سے پہلے خوف اور خوشی کے ملے جلے جذبات کو کیسے سنبھالا ہوگا؟ ڈھولکی بجی ہوگی تو دل کے دروازوں پر کتنے ساز ابھرے ہونگے۔ نقرئی قہقہوں کے پیچھے کتنے شبنمی آنسو گرے ہونگے۔ اپنی محبت کے خمیر سے کسی کی آبیاری کرنے کو کوئی کتنی بے چین ہوا ہوگا۔ ریشمی بندھن کے خیال سے اس کے شہابی رخسار کتنی بار دمک اٹھے ہوں گے-
قد آور آرائشی گلدان کو دیکھ کر اندازہ ہورہاتھا کہ جب نیا گھر بنایا ہوگا تو کتنے ارمان کے ساتھ اس کے دروبام کو سجایا گیا ہوگا۔ دیواروں پر فریم آویزاں کئے ہونگے۔ چھوٹا سا ایک گھر، کتنا پر سکون ہوگا۔ دن کو سورج کی کرنیں اس کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہونگی اور رات کو چاند کی روشنی اپنے حصار میں ۔ کمروں کو سفید کلی سے دھویا گیا ہوگا۔ دروازوں اور کھڑکیوں کو پردوں کے ساتھ ڈھانپا ہوگا۔ کسی کمرے کے فرش کو دری سے سجایا ہوگا۔ نئی کرسیاں اور میز بھی خریدی گئی ہونگی، اور صحن میں بھی کرسیاں لگائی ہونگی۔ گرمیوں میں صبح کو ان کرسیوں پر بیٹھ کر ناشتہ کرتے ہونگے۔ کبھی شام کی چائے کیلئے ان پر بیٹھتے ہونگے۔بچے ان کرسیوں پر بیٹھ کر سکول کا کام کرتے ہونگے۔ ایسے ہی کبھی جب بارش برکھا برستی ہوگی تو سب صحن میں موجود چیزوں کو بارش کے پانی سے بچانے کیلئے بھاگ کر برآمدے میں دھکیلتے ہوں گے۔ برسات بھی کیا خوب ہوتی ہے۔ ہاں برسات۔۔۔
ایک طرف پرانے کمپیوٹرز کا ڈھیر لگا ہوا تھا ۔جب پہلی بار ان کو خریدا گیا ہوگا تو کتنی چاہتیں ہوں گی ان کے ساتھ۔کتنے خواب ہوں گے جن کے سہارے وہ نئی دنیائیں آباد کی گئی ہونگی۔ نئے زمانے کے نئے انداز، نئے علم ، نیا شعور، نئی ترقیاں۔کچھ دنیا سے رابطے کے خواب ہونگے، کچھ دوستوں یاروں سے ملنے کی خوشی ہوگی۔ کچھ کر دکھانے کی، کچھ سیکھ لینے کی جستجو ہوگی۔
ایک پرانا قالین دیکھ کر دھیان ڈرائینگ روم میں اس پر لگنے والی لڈو اور کیرم کی بازیوں کی طرف نکل گیا۔ جیت اور شکست کےدرمیان ایک جستجو سینے میں مچلتی ہوگی۔دھوپ اور چھاؤں کی طرح ارمان دلوں میں مچلتے ہونگے۔ کسی کا فتح کا کوئی نعرہ بلند ہوتا ہوگا۔ کوئی سر جھکا کراپنی شکست پر سر تسلیم خم کرتا ہوگا۔ کسی کو دروازے پر لگے پردے کے اس پار کسی کے آنچل کی سرسراہٹ کا انتظار ہوگا۔ بچے اس پر کشتیاں کرتے ہوں گے۔ لڑتے جھگڑتے ہوں گے۔ کبھی پانی کا گلاس کسی ٹھوکر سے گر جاتا ہوگا تو ماں سے ڈانٹ کا سوچ کر سب کو سانپ سونگھ جاتا ہوگا۔
ایک پرانے سے ٹی وی کو دیکھ کر تنہایاں اور دھوپ کنارے یاد آگئے، اور اندھیرااجالا ، الف نون، ففٹی ففٹی، کے دن یاد آگئے۔جب آٹھ بجے کے بعد گلیاں ویران ہوجایا کرتی تھیں۔ جب شادیوں کی تاریخ رکھنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھا جاتا تھا ، اس دن کسی ڈرامے کا دن تو نہیں ہے۔ ٹی وی ایک ساتھی کی طرح تھا جو ہر روز ایک نیا جذبہ لے کر آتا تھا،ایک نئی خوشی پہنچاتا تھا۔ایک جذباتی گرفت تھی اس کی زندگی کے اوپر۔
پرانی اخباروں کو دیکھ کر دل میں ایک آہ سی اٹھی کہ یہی وہ اخبار ہے۔ ہر صبح جس کے انتظار میں نظریں گھر کے بیرونی دروازے کا طواف کرتی تھیں۔ ہر آہٹ پر دل دھڑکنے لگتا تھا۔ کہیں آج دھند زیادہ تو نہیں، کہیں آج ٹرانسپورٹ کی ہڑتال تو نہیں۔ جب تک اخبار ہاتھوں میں پہنچ نہیں جاتا تھا، ایسے ہی کتنے اندیشے سینے میں اٹھتے رہتے تھے۔ چند منٹوں کا انتظار گویا صدیوں کا سماں لئے ہوتا تھا۔
ایک ٹوٹی ہوئی سائیکل کے ٹوٹے ہوئے حصے، جو کبھی کسی نے اپنی کئی مہینوں کی جمع پونجی خرچ کرکے خریدی ہوگی۔ جب وہ اس کے پیڈل پر پاؤں کا زور دیتا ہوگا تو خود کو ہوا میں اڑتا ہوا محسوس کرتا ہوگا۔ اس کا ذہن تیزی سے بھاگتا ہوگا۔ وہ آسمان کو چھونا چاہتا ہوگا۔وہ ہر گلی ہر محلے ہر بستی کو ڈھونڈنا چاہتا ہوگا۔دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہوتی ہونگی۔ لبوں پر کوئی گیت مچلتا ہوگا۔کسی کی یاد ستاتی ہوگی۔
پرانے برتن، مشروبات کی خالی بوتلیں، گھروں کے آرائشی سامان، پرانے قالین، دریاں، پرانے صوفے، الیکٹرانکس کا خراب سامان، ایسا ہی ان گنت سامان جب خریدا گیا ہوگا تو ان کیلئے چاہت کے کتنے آلاؤ بھڑکے ہونگے، کتنے خواب دیکھے گئے ہوں گے۔ کتنے سپنے خیالوں میں ڈگمگائے ہونگے۔ کتنے منظر اپنی بے تاب روح کی تسکین کیلئے دیکھے ہونگے۔لیکن جب وقت گزرتاہے۔ ان کی ضرورت ان کی طلب ان کی چاہت میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ جنون میں بھی وہ تڑپ باقی نہیں رہتی۔ امنگوں میں بھی وہ جذباتیت موجود نہیں رہتی۔۔اور شائد اگر وہی خواب دوبارہ دیکھنے کو کہا جائے تو ان میں وہ لذت باقی نہ ہو جو پہلی بار محسوس کی تھی۔ وہ دیوانگی نظر نہ آئے جو پہلی بار دکھائی دی تھی۔ایک جذبہ وہ تھا جو پہلی بار محسوس کیا تھا اور ایک جذبہ وہ ہے ، جس کا احساس آج دلایا جارہا ہے۔دونوں میں کتنا تضاد ہے ، کتنا فاصلہ -
رات بھر کے خوابوں کو جب تعبیر ملتی ہے تو وہ فرحت بخش تسکین میں ڈھل جاتے ہیں۔لیکن ان خوابوں کا ایک شعور ہوتا ہے۔وہ شعور خودآگہی کے ساتھ تبدیل ہوتا رہتا ہے۔جن باتوں پر آپ آج اصرار کر رہے ہوتے ہیں کل ان کی نفی میں دلائل گھڑ رہے ہوتے ہیں۔۔جن باتوں کو آج حتمی سمجھ رہے ہوتے ہیں، کل ان کے ارتقا کے بارے میں نوید سنا رہے ہوتے ہیں۔۔آج جن نظریات کے ترجمان ہیں، ہوسکتا ہے کل وہ نظریات اپنا مفہوم کھو چکے ہوں۔
ہر دور کا ایک شعور ہوتا ہے۔اس دور کے فیصلوں، رویوں، قدروں، کو اس شعور کی روشنی میں سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن ہم آج کے شعور کو لیکر ماضی کے احساسات اور اور جذبات سے لیکر آج کے سماج کی آلائشوں اور خواہشوں کو ایک ہی لڑی پر پڑونا شروع کردیتے ہیں.آج کے شعور کو حتمی سمجھتے ہوئے ماضی کے شعور کو تسلیم کرنے سے انکار کردیتے ہیں۔ انکار تو کیا اس کے وجود سے ہی انکاری ہوجاتے ہیں۔۔جو لاشعوری طور پر ایک تعصب کو جنم دیتا ہے۔وہ تعصب جو ہماری نسل ہماری قوم کی اصل بیماری ہے۔