فكر ونظر
موٹيويشنل سپيكرز كا دھوكہ
منصور نديم
ایک معروف جملہ جو اکثر بولا جاتا ہے، جسے کئی لوگ بہت فخر سے سناتے ہیں کہ "غریب پیدا ہونا جرم نہیں ہے، اصل جرم غریب مرجانا ہے" ۔
اپنی اصل بنیاد میں یہ ایک گھٹیا ترین موٹیویشنل جملہ ہے جو خصوصاً پاکستان میں رہنے والے نامساعد حالات میں زندگی کی جنگ لڑنے والوں کو شدید احساس کمتری میں مبتلا کردیتا ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں یہ ایک ترغیبی و موٹیويشنل جملے کے طور پر سراہا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کا اصل بیڑا غرق موٹیویشنل اسپیکرز نے کیا ہے، جو خود تو کسی غیر ملک میں جا کر نوکریاں یا کاروبار کرنے لگ لگ جاتے ہیں، اور بغیر سوچے سمجھے دنیا کو کاروباری بننے کے گر سکھانا شروع کردیتے ہیں۔ جو شخص اپنی معاشرتی ساخت کی کاروباری یا نوکری کی زندگی کو کسی دوسری معاشرتی ساخت کے ساتھ تقابل کرتا ہے اس سے بے وقوف شخص کوئی نہیں ہوسکتا، کیونکہ ایسے تقابل بالکل غیر ضروری ہے، اور غیر حقیقی ہیں۔
دنیا کے کئی ممالک میں لوگوں نے صرف اپنی زندگی اچھی گزارنی ہوتی ہے، یہی ان کی بنیادی ترجیحات ہوتی ہیں، ان معاشروں کی ساخت اسی بنیاد پر ہوتی ہے، وہاں پر ایک عام فرد میں امیر ہونے کی خواہش وہ معاشرہ پیدا نہیں ہونے دیتا, اور یہی اس معاشرتی ساخت کی خوبصورتی ہوتی ہے کہ ہر سطح کی ذہنی و تعلیمی استعداد کا فرد اپنی زندگی بہتر گزارتا ہے۔ ایک شخص کیشئیر کی زندگی گزار رہا ہے تب بھی اس کی زندگی بہتر گزر رہی ہوتی ہے۔ بلکہ وہ معاشرہ ان کی زندگیوں ميں نوکریوں سے بھی بہت سکون سے زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کردیتا ہے، تو وہاں 9 سے 5 والی زندگی ہی بہترین گنی جاتی ہے جس میں وہ اپنی پوری زندگی اچھی گزارتے ہیں۔ عرب دنیا میں بھی مقامی لوگ نوکری یا محدود اوقات کار کے کاروبار کے بعد ترجیحاً اپنا وقت اپنی فیملی کے ساتھ گزارنا چاہتے ہیں آؤٹنگ کرنا چاہتے ہیں، تفریح میں وقت لگاتے ہیں، ان کی عام زندگی کے موضوع میں ان کی خواہشات ان کی ضروریات زندگی اور فیملی کے ساتھ وقت گزارنا ہوتا ہے، کولہو کے بیل کی طرح کاروبار یا نوکری کے لیے مرجانا نہیں ہوتا۔ یورپین ممالک میں بھی ایک نوکری پیشہ چاہے جو بلیو کالر جاب کرتا ہوں ، میسر دنیا کے وسائل تک رسائی رکھتا ہے، سال میں ایک ماہ فیملی کے ساتھ سیاحت بھی کرتا ہے، شام کو کلب یا تفریح بھی کرتا ہے، بچوں کی ضروریات بھی آرام سے پوری کرتا ہے۔ بدقسمتی سے یہ بدنصیب سوچ ہماری ہے جو ہم امیر و غریب کی ایک الجھن کا شکار ہیں، افسوس یہ ہے کہ لوگ دوسری سماجیات میں جا کر وہاں کی لائف اسٹائل کے فیبریکیشن کو سمجھنے کے بجائے اپنی سماجیات سے تقابل کرنے لگ جاتے ہیں۔ اپنی ساری زندگی انہی ملکوں میں گزارنا چاہتے ہیں، اور تقابل کا میدان اپنی معاشرت سے کرتے ہیں، ہر بات میں غیر ضروری اچھائیوں و برائیوں کو میزان بنا لیتے ہیں۔ ہماری سماجیات میں غریب و امیر کی لا تعداد درجہ بندیاں ہیں، جہاں ان غربت کی درجہ بندیوں میں واقعی ایمانداری سے بندہ بنیادی ضروریات تک رسائی نہیں پاتا۔ ایک غریب شخص کیسے کاروبار کرسکتا ہے۔ جس کی صبح بنیادی ضروریات گیس پانی اور بجلی اور عام سی غذائی ضرورت پوری کرنے کے لئے سولہ گھنٹوں کی مشقت بھی ناکافی ہوتی ہے، وہاں اس غریب فرد سے آپ کیسے توقع کرسکتے ہیں کہ وہ کاروبار ہی کرلے۔ مثالیں آپ چائنیز بزنس سے لے کر بل گیٹس تک کی دینے لگ جاتے ہیں۔ آپ اپنی معاشرت سے کوئی درست مثال دینے کے قابل نہیں ہوتے، جس معاشرے کی ساخت کو آپ بخوبی جاننے کے باوجود اس کی حقیقت کو نہیں جانتے تو آپ سے بڑا بے وقوف کون ہو سکتا ہے؟ یہاں جو لوگ کاروبار کرتے ہیں، ان میں سے اکثریت اپنے ملازموں کا استحصال کرتے ہیں، مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ یہ کیسے تقابل کرتے ہیں، بیرون ممالک میں کام کرنے والے مزدور کی ہفتہ وار مشقت کا دورانیہ طے ہوتا ہے، پاکستان میں اس سے دو گنا مشقت کا دورانیہ اسی تنخواہ میں دیا جاتا ہے- بیرون ممالک میں آجر اور اجیر کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد مزدور یا ورکر کی صحت یعنی انشورنس کارڈ یا کسی بھی طرح سے صحت کے لئے کوئی پیکج لازمی ہوتا ہے، پاکستان میں دکانوں کے سیلز مین سے لے کر ورکشاپوں میں کام کرنے والے فیکٹریوں کے مزدوروں پیٹرول پمپ کے ورکرز اور عام دفاتر کے کلرك کو کوئی ایسا کوئی پیکج نہیں ملتا- بیرون ممالک ورکرز یا لیبر کو سالانہ بیماریوں کی چھٹیاں، اور مع ادائیگی تنخواہ کم از کم 40 دن کی چھٹی ملتی ہے، پاکستان میں دکانوں سے لے کر فیکٹریوں تک کسی بھی شخص کو ایسی کوئی بھی چھٹی نہیں ملتی، یہ وہی سب کاروباری لوگ ہیں، جنہیں آپ برکت کے فسانے سناتے ہيں۔
بظاہر ایسی باتیں آپ کو اچھی لگ سکتی ہیں, کیونکہ آپ ایک خاص ماحول سے نہیں نکلتے، ایسی تحاریر لکھنے والے خود کتنے لوگ پردیس سے نکل کر اپنے ملک میں کاروبار کرنے آگئے ہیں، خود تو یہ کبھی نہیں آتے ، لیکن یہ ایک غیر ضروری سوچ پیدا کرتے ہیں، حالانکہ کئی معاشروں میں عام افراد میں ایسی سوچ ہی پیدا نہیں ہوتی، کہ انہیں امیر ہونا ہے۔ جو لوگ کاروبار سے امیر ہونے کی بات کرتے ہیں تو پاکستان میں غیر معمولی طور پر امیر ہونا کاروبار سے بھی ناممکن ہے جب تک اس میں بے ایمانی اور دھوکہ نہ دیں۔ ٹیکس چوری نہ کریں، پاکستان میں کاروبار بے ایمانی کے بغیر ممکن ہے؟ آپ کتنی مثالیں دے سکتے ہیں، جو لوگ کاروباری اخلاقیات اور کاروبار میں دھوکہ دہی سے پرہیز کرتے ہیں ان کا کاروبار محدود سطح تک ہی رہتا ہے۔ باقی آپ ملک ریاض جیسوں کی مثال دیں گے تو سوچ لیں کہ ہم پھر اصل میں کاروبار میں ہر غیر اخلاقی سرگرمی اور دھوکوں کو قبول کرلیتے ہیں مگر دوسری معاشرت کے سماجی ساخت کو سمجھنے سے محروم ہوتے ہیں۔ یہ دکھ پاکستانی معاشروں کے ہیں۔ ان کے لئے ایسی مثالیں دینا عجیب ہے، جب بندہ باہر کی دنیا میں رہے مگر یہ نہ سمجھ سکے کہ اصل وجوہات کیا ہیں۔ فیسبک کی تحریروں یا ایسے موٹیوشنل اسپیکرز کی تقریروں میں یہ آئیڈیاز ایک عام آدمی کو شدید ذہنی اذیت سے دو چار کردیتے ہیں، جو نفسیاتی الجھاؤ کا سبب پیدا کرتے ہیں، معاشرے کی درست سمت پر آپ نظر نہیں ڈال سکتے، ایسے کہانیاں سناتے ہیں جو لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرکے قرص لے کر کاروبار کرنے پر مجبور کردیتے ہیں، جن لوگوں کی ذہنی و مالی استعداد نوکری کرنے والی ہے، انہیں نوکری پر قانع رہنے دیں۔ ان غریبوں کی زندگی میں ویسے بھی بہت مصائب ہیں، انہیں مزید ذہنی اذیت میں مبتلا مت کریں۔