تعليم و تعلم
دینی مدارس سے تعلیم مکمل کرنے والوں سے گزارشات
طفیل ہاشمی
عنقریب دینی مدارس کاتعلیمی سال مکمل ہونے کو ہے. اس موقع پر ہزاروں طلبہ اپنا تعلیمی سفر مکمل کر کے مستقبل کے دریچے کھولنے کے بارے میں سوچ رہے ہوں گے. مناسب سمجھا کہ ان فضلاء سے ان کے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے بات کی جائے.
سب سے اہم گزارش یہ ہے کہ :
ان سطور کو ایک یونیورسٹی پروفیسر کے ایک متحارب فریق کے بارے میں تبصرہ نہ سمجھا جائے بلکہ درس نظامی کے ایک ایسے فارغ التحصیل کی طویل زندگی کے تجربات کا نچوڑ اور آپ کے مستقبل کے بارے میں دل دردمند رکھنے والے کی پکار سمجھ کر پڑھا جائے.
ان تمام فضلاء مدارس دینیہ کو مبارک باد جن کو اگلے ہفتہ عشرہ میں دستار فضیلت پہنا دی جائے گی اور وہ اس سند کے مستحق قرار پائیں گے جو اس امر کی گواہی ہو گی کہ اب وہ اساتذہ کی رہنمائ کے بغیر مطالعہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔یہ باور کرنا بہت مشکل ہے کہ ہم درس نظامی کی تکمیل کے بعد عالم نہیں ہو جاتے بلکہ اساتذہ اس اعتماد کا اظہار کرتے ہیں کہ اب یہ طلبہ استاد کی رہنمائی کے بغیر مطالعہ کر کے دینی ادبیات کی کتب کا درست مفہوم اخذ کر سکیں گے، جب کہ مشاہدہ یہ ہے کہ بالعموم یہ واقعہ کے بجائے حسن ظن ہوتا ہے. تاہم مجھے امید ھےکہ اب آپ باقاعدہ مطالعہ کی عادت ڈالیں گے ۔آپ اگر مناسب سمجھیں تو اپنے مطالعہ کا آغاز شاہ ولی اللہ کی حجہ اللہ البالغہ سے کیجئے ۔میرے خیال میں حجۃ اللہ البالغہ کو درس نظامی کے نصاب کا حصہ نہ بنانا اسلامیان بر صغیر کے لیے موجب نقصان رہا ہے کہ موجودہ نصاب اور سماج میں کہیں نقطہ اتصال تلاش نہیں کیا جا سکتا. مولانا گیلانی کی تالیف برصغیر کا نظام تعلیم و تربیت آپ کو اس نصاب اور اس کے مالہ وماعلیہ سے آگاہ کرے گا جو آپ پڑھ کر فارغ ہوئے ہیں- مولانا ابوالحسن علی ندوی کی تاریخ دعوت و عزیمت آپ کو مقصد حیات سے روشناس کرائے گی ۔ مولانا وحید الدین خان کی تالیفات آپ کو زندگی کے سفر میں کامیابی کی راہوں سے آگاہ کریں گی ۔قاری محمد طیب صاحب کی بدولت آپ حکمت دین سے روشناس ہو سکیں گے ۔ مولانا مودودی کی تالیفات آپ میں اسلامی تہذیب کی بالا تری کا شعور اجاگر کریں گی ۔پہلا سبق یہ ہے کہ
کلمۃ الحکمۃ ضالۃ المؤمن حیث وجدھا فھو أحق بھا
آپ کے مدرسہ کی عقیدت و نفرت کی محور شخصیات اس ادارے کی ضرورت تھی، آپ اپنے ساتھ مخلص ہو کر اپنی مصلحت کو مقدم رکھیں. البتہ یہ یاد رکھیں کہ براہ راست قرآن کا مطالعہ ہی کشود قلب کا باعث بنتا ھے اور اس کا کو ئ متبادل ممکن نہیں ۔
میرا تجربہ یہ ہے کہ جب بھی کتاب اللہ کسی مفسر کے فہم قرآن کے تناظر میں پڑھا جائے قرآن سے براہ راست تعارف پیدا نہیں ہوتا اور قرآن انسانی ضمیر پر نازل نہیں ہوتا. حدیث میں موطا امام مالک کے لئے اس طرح وقت نکالیں گویا مجلس نبوی میں بیٹھ کر لسان نبوت سے براہ راست سن رھے ہیں ۔
اسلامی ادبیات کی مفید کتب اور ان کے مناھج سے آگاہی کے لیے میری تجویز یہ ھے کہ آپ ڈاکٹر محمود غازی کی تالیفات "سلسلہ محاضرات "سے آغاز کریں ۔یعنی محاضرات قرانی محاضرات حدیث محاضرات سیرت محاضرات فقہ محاضرات شریعت محاضرات معیشت و تجارت وغیرہ سے شروع کریں ۔ان تالیفات کا فائدہ یہ ھے کہ ان موضوعات پر آپ کو اتنی معلومات یک جا اور کہیں نہیں ملیں گی -دوسرے یہ کہ غازی صاحب صرف اپنی وضع و قطع میں جدت پسند تھے ورنہ اپنے افکار و نظریات میں ان کا تعلق روایت پسند طبقہ سے تھا ۔ وہ تحقیق کے بجائے روایت اور تراث کو ترجیح دیتے تھے ۔ان کی تربیت رپورٹ رائٹنگ کی تھی جو ان کی تحریر و تقریر میں سلاست و روانی کی ضمانت ھے ۔محاضرات کا آغاز انٹر میڈیئٹ کی طالبات کے معیار سے ہوا تھا اس لئے بھی انہیں دقیق علمی مباحث سے محفوظ رکھا گیا ۔ان کے مطالعہ سے آپ کی معلومات میں خاصی وسعت پیدا ہو جائے گی نیز اس مرحلے پر آپ دقیق علمی مباحث اور تحقیقی نقطہ ہائے نظر میں الجھے بغیر خاصی بنیادی معلومات حاصل کر سکیں گے ۔
البتہ دوران مطالعہ یہ ضرور ذہن میں رکھیں کہ یہ معلوماتی لٹریچر ھے تحقیقی نہیں ۔جب کبھی علمی تحقیق کے دوران آپ کو ان معلومات پر نظر ثانی کرنا پڑے تو ان معلومات کو آخری اور حتمی نہیں بلکہ ابتدائ اور روایتی سمجھیں ۔
آپ نے مدارس میں زیادہ تر عربی تالیفات پڑھی ہیں ۔ اس سے ہمیں یہ خیال ہونے لگتا ھے کہ شاید ہم عربی میں ماہر ہیں ۔لیکن امر واقعہ یہ ھے کہ مدارس میں عربی گرامر یعنی صرف و نحو اس حد تک پڑھائ جاتی ھے کہ عملاً زندگی میں اتنی تفصیلات کی ضرورت نہیں ہوتی حتی کہ شواذ اور تفردات سے بھی متعارف کروا دیا جاتا ھے جس کے نتیجے میں بالعموم فضلاء مدارس عربی زبان کے قواعد اور اعراب و وجوہ اعراب سے خاصے متعارف ہوتے ہیں ۔لیکن فہم مسموع اور تکلم و انشاء کی مشق نہ ہونے کے باعث بالعموم یہ پہلو کمزور رہ جاتا ھے-لیکن اس سے بھی اہم بات یہ ھے کہ ہر زبان میں ہر شعبہ علم سے متعلق الگ الفاظ مصطلحات اور مفردات ہوتے ہیں مثلا فقہی زبان میڈیا کی زبان سے مختلف اور سائنسی اصطلاحات سماجی لغت سے الگ ہوتی ہیں ۔مدارس میں پڑھنے کے نتیجے میں آپ نے دینی ادب اور اصطلاحات کی مہارت حاصل کی ھے شاید آپ نے کبھی محسوس کیا ہو کہ روزمرہ استعمال کی بہت سی اشیاء کے نام ہمیں عربی میں نہیں آتے ۔ آپ اپنی موجودہ لسانی مہارت کو تھوڑا سا بہتر کر کے عربی اخبارات رسائل افسانے ناول ڈرامے پڑھ کر ریڈیو اور ٹی وی کے پروگرام توجہ سے سن کر اپنی موجودہ مہارت کو حیرت انگیز حد تک بڑھا سکتے ہیں ۔اسے ضائع نہ ہونے دیں اور اس کی بہتری اور ترقی پر توجہ دیں صرف 6 ماہ کی توجہ آپ کو حیرت انگیز نتائج دے دے گی.
آپ نے لگ بھگ آٹھ سال مدارس میں گزارے ہیں ۔اس عرصے میں آپ نے حاضر و مرحوم اکابر سے استفادہ کیا ھے ۔ان میں سے کچھ اساتذہ سے آپ کی عقیدت بے پناہ ہو گی ۔ یوں بھی مدارس میں شاید اتنی توجہ کسی دوسرے تربیتی پہلو پر نہیں دی جاتی جتنی عقیدت راسخ کرنے پر دی جاتی ھے ۔ اس کے فوائد و نقصانات اس وقت ہمارا موضوع نہیں ۔
اس وقت میری آپ سے درخواست یہ ھے کہ جس طرح آپ بتدریج تعلیمی سلسلے میں آگے بڑھتے رھے ادارے کے بڑے اور سینیئر اساتذہ سے آپ کو استفادہ کا موقع ملتا رہا ۔آئے اب فراغت کے بعد اس سلسلے کو مزید آگے بڑھائیں اور اگلے سال کے لئے براہ راست معلم انسانیت رحمہ للعالمین مولائے کل ختم الرسل دانائے سبل ﷺ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کریں ۔ تاکہ ہمیں اپنے تعلیمی سلسلے کو مزید آگے بڑھانے مستحکم اور مستند کرنے کا موقع مل سکے ۔اس کا طریقہ بہت آسان ھے اور وہ یہ کہ روزانہ آپ کم از کم ایک گھنٹہ باقاعدگی سے مجلس نبوی میں حاضری دیں اور اس کا طریقہ یہ رکھیں کہ سیرت طیبہ کی چند کتب منتخب کر لیں اور ان کو محبت ادب اور عقیدت سے اس طرح پڑھا کریں کہ آپ اس سفر میں ہر جگہ اور ہر مقام پر نبی اکرم ﷺ فداہ ابی و امی کے ساتھ ساتھ چل رھے ہیں ۔اس طرح ایک کے بعد ایک کتاب پڑھتے جائیں ۔ بالخصوص مولانا مناظر احسن گیلانی کی النبی الخاتم سے آغاز کریں کہ میں نے اس سے زیادہ موثر کوئ تالیف سیرت نہیں دیکھی ۔شبلی کی سیرت النبی اور مولانا ادریس کاندھلوی کی سیرت مصطفی مولانا ابوالحسن علی ندوی کی نبی رحمت مولانا عبدالرؤف کی اصح السیر عربی میں سیرہ ابن ہشام اور البدایہ والنہایہ کا سیرت طیبہ کا حصہ یا اور کوئ مستند سیرت کی کتاب جو آپ کو میسر آئے ضرور زیر مطالعہ رکھیں ۔پیر کرم شاہ صاحب کی ضیاء النبی بہت محبت سے لکھی گئ تالیف ھے شاہ مصباح الدین شکیل کی سیرت احمد مجتبی اثر آفرینی میں بے مثال تالیف ھے ۔
بس اپنے مرکز عقیدت کو بلند تر کر کے دربار نبوت میں حاضر ہوجائیں اور قسمت کی یاوری سے فیض یاب ہوں ۔
اب ہم فضلاء کرام کو مدارس سے فارغ ہونے کے بعد کے حالات کا جائزہ لیں گے.
جب اچانک ایک روزدینی مدرسہ کا طالب علم اپنی تعلیم مکمل کر لیتا ھے تو چند روز مبارک سلامت میں گزر جاتے ہیں ۔شہر العسل گزرتے ہی بندہ اپنے آپ کو اس طرح خلا میں معلق محسوس کرتا ھے کہ ایک طرف آٹھ دس سال تک اخراجات کا ایک حصہ برداشت کرنے والا خاندان یہ توقع رکھنے لگ جاتا ھے کہ اب مولانا پر فتوحات کا نزول شروع ہو جانا چاھیے ۔ وہ جیب خرچ سے ہاتھ کھینچ لیتا ھے۔ مدرسہ میں رہتے ہوئے یہ عادت پختہ ہو جاتی ھے کہ معمولات زندگی اور کسب رزق کے باہمی تعلق کے بغیر تینوں وقت عمدہ اور اعزازی کھانے میسر ہوں ۔ ہمیں صرف نمازاور کتاب خوانی کی مصروفیات کے عوض ضروریات زندگی میسر آنی چاھیے لیکن --آں قدح بشکست وآں ساقی نماند
غور کرنے پر معلوم ہوتا ھے کہ ہمیں صرف نماز پڑھانا وعظ کہنا یا کوئ کتاب پڑھانا آتا ھے لیکن ابن خلدون پہلے سے لکھ چکا ھے کہ اہل علم جو مال فروخت کرتے ہیں عوام میں ان کی مارکیٹ نہیں ھے اس لئے غربت و فلاکت کا شکار رہتے ہیں ۔۔صرف کسی احمق بادشاہ کے دامن سے وابستہ کوئ فقیہ مجتہد یا شیخ الاسلام ہی عنایات خسروانہ سے فیض یاب ہو کر خوش حال ہوسکتا ھے ۔ اور اب کوچہ جاناں میں ایسے بھی حالات نہیں ۔6ماہ سال کے اندر تقطعت بھم الاسباب کا نقشہ سامنے آجاتا ھے ۔ ماں کی پسند کی ہوئ لاڈ لی کو لانے کے اسباب اور خاندان کی توقعات کا پشتارہ اٹھانے کے وسائل کہاں۔ بہاں اپنے حالات ایسے ہیں کہ دل و جاں کا خریدار بھی میسر نہیں ۔ایسے میں کیا کریں ؟
پہلا فیصلہ یہ کہ جو تعلیم حاصل کی اس سے معاشی ضروریات پوری ہونے کی خواہش عام طلبہ کا مقدر نہیں اس لئے ادخلوا البیوت من ابوابھا کے تحت حصول معاش کے لئے معاشی جد و جہد کا راستہ اختیار کرنا ھے ۔دوسرا فیصلہ یہ کریں کہ زندگی کے عملی میدان میں داخل ہونے کے لئے مزید اپنے آپ سے دو سال کی مہلت لے لیں ۔تیسرا یہ کام کریں کہ اپنی موجودہ تعلیم کی بنا پر جو چھوٹا موٹا ایسا کام ملے کہ جس میں بھلے آمدنی کم ہو لیکن کچھ وقت فارغ بھی ہو اختیار کرلیں -چوتھا کام یہ کہ کوئ ایسا ٹیکنیکل کام تلاش کیجیئے جس کی اگلے 6 ماہ میں ٹریننگ حاصل کر کے روزانہ اتنا کمانے کے قابل ہو جائیں کہ آپ اپنی ذات کے لئے خود کفیل ہو جائیں ۔اپنی دینی تعلیم کو بس اپنے عمل کے لئے اور دوسرے خواہش مند مسلمانوں کو دین کی کوئ بات بتانے تک محدود رکھیں اور آیت انلزمکموھا وانتم لھا کارھون
کو اپنا لائحہ عمل بنائیے ۔ان شاء اللہ دو سال کے اندر آپ خود کفیل اور انسانوں کی بندگی سے آزاد ہو جائیں گے ۔اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو -مدارس سے فارغ ہونے کے بعد ہزارہا فضلاء کو جس معاشی بحران کا سامنا ہوگا اس کا آپ کو کبھی اندازہ نہیں ہوا. جونہی آپ فارغ ہوں گے ممکن ہے کہ مہیب مسائل آپ کے سامنے کھڑے ہوں -سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کتاب و سنت کی رو سے آپ کے رزق کا تعلق محض قسمت سے نہیں بلکہ آپ کی محنت اور اس پیشے سے ہے جو آپ اختیار کریں گے. لیس للانسان الا ما سعی--اور ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسهم
نیز نوحصے رزق تجارت میں اور صرف دسواں حصہ باقی تمام پیشوں میں ہونے کا یہی مطلب ہے کہ رزق محنت اور پیشے سے وابستہ ہے. رزق کی سب سے کم مقدار ملازمت میں ملتی ہے کیونکہ یہ پرائیویٹ ہو خواہ سرکاری. غلامی کی ترقی یافتہ شکل ہے اور غلام ہمیشہ مفلوک الحال رہتے ہیں.
دوسری بات یہ ہے کہ اگر آپ صاحبزادے یا پیر ادے نہیں ہیں تو جس قدر جلد ممکن ہو اپنے نفاست زدہ، نخریلے اور میک اپ آلود مزاج سے نجات حاصل کریں. کئی سال تک دھلے دھلائے، کتاب و قلم سے وابستہ رہنے کی وجہ سے آپ کی مردانگی کا حقیقی جوھر زنگ آلود ہو گیا ہے. محنت کش صحابہ کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کریں جو اپنے اور اپنے بچوں کے لیے رزق کمانے کے لیے لوہار، بڑھئی، مستری، مزدور کسان، رہٹ چلانے، بوجھ اٹھانے تک ہر کام پوری تن دہی سے کرتے تھے. کوئی فاضل ابوبکر صدیق سے بالاتر نہیں کہ وہ کپڑا کندھے پر رکھ کر بیچتے اور کوئی علی مرتضی سے معزز نہیں کہ وہ رات بھر یہودی کا کنواں چلاتے رہے. دست کاری سے کمایا ہوا رزق سب سے زیادہ حلال ہونے کی حدیث صرف لوگوں کو سنانے کی نہیں، خود بھی عمل کرنے کی ہے.
تیسری بات یہ ہے کہ مدارس اس کا اہتمام کر سکتے تھے لیکن ان کا کاروبار حیات اعلی پیمانے پر چل رہا ہے، انہیں نیا پنگا لینے کی کیا ضرورت ہے لیکن آپ کی ضرورت ہے آپ اگلے دو تین مہینے میں کوئی نہ کوئی کام یعنی ہنر سیکھ لیں. آپ جہاں رہتے ہیں یا رہنا چاہتے ہیں وہاں کا جائزہ لے کر، مختلف کاروباروں سے وابستہ افراد سے مشورہ کر کے کوئی ہنر سیکھ لیں. ہمارے ایک دوست فاضل تھے، فیصل آباد میں رہتے تھے. ہوزری والوں سے بنیان کے تھان لے آتے اور کٹائی، سلائی کر کے اپنی اجرت لے لیتے. بجلی یا الیکٹرانکس کے کام، دیگر مصنوعات کی گھریلو سطح پر تیاری، کھیلوں کا سامان اس کے علاوہ جہان بھر کے کام پھیلے ہوئے ہیں اور وہ ڈھونڈنے والے کو دنیا بھی نئی دیتا ہے
اگر آپ نے کبھی پختون سماج کا مطالعہ کیا ہو تو وہ اپنے بچوں کو بہت چھوٹی عمر سے خودکفیل بنانے کے لیے رہنمائی کرتے ہیں. میرے پڑوس میں ایک فیملی رہتی ہے ان کا اتنا چھوٹا بچہ جو بمشکل چھ سات سال کا ہے آج ہنڈا سٹی چلا رہا تھا. جو والدین بڑے بڑے بزنس میں ہیں ان کے بچے نوجوان عمر میں ہی بڑے بزنس مین ہو جاتے ہیں، یہی بات شیخ فیملیز میں ہوتی ہے. ایسے گھرانے جو ردی جمع کر کے اور کاغذ چن کر گزارا کرتے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کو چھوٹی عمر میں ٹرینڈ کر دیتے ہیں.
چوتھی بات یہ ہے کہ یہ بھول جائیں کہ آپ نے جو دینی تعلیم حاصل کی ہے وہ آپ کی معاشی کفالت کرے گی. آپ اپنی تعلیم اور دین سے وابستگی کے لیے کوئی آزادانہ مصروفیت اختیار کریں. آپ محض اللہ کی رضا کے لیے کہیں درس قرآن دے دیں. ایک آدھ نماز پڑھا دیں. یا اپنے معاملات ہی درست رکھیں یہی کافی ہے.پانچویں بات یہ ہے کہ جو کمائیں اس میں سے جس قدر آسان ہو روزانہ خواہ کم سے کم ہو راہ خدا میں ضرور دیں تاکہ آپ اپنی پوری اس کیمسٹری کو تبدیل کر سکیں کہ دینی شخصیات محض لینے والی ہوتی ہیں دینے والی نہیں، اس میں یاد رکھیں کہ اللہ کا وعدہ ہے
وما انفقتم من شئ فھو یخلفہ--جو، جتنا تم خرچ کرو گے اللہ اس کے متبادل دیتا رہے گا.