اصلاح و دعوت
بندہ مومن كے ليے عاجزی كی اہميت
جاويد احمد غامدی
ہم عاجز بندے کشمکش میں زندگی بسر کرتے ہیں اور اپنی اس عاجزی کے احساس کے ساتھ یہ سفر جاری رکھنا چاہیے. انسان کا اپنا نفس بھی بار بار غلطیوں کی طرف ابھارتا ہے. باہر بھی بڑی ترغیبات موجود ہوتی ہیں. ان کے اندر رہ کر اپنے رب سے تعلق استوار رکھا جاے. جب کبھی غفلت ہو فوراً اس کو یاد کیا جاے. اگر کوئی خطا ہوجائے تو معافی مانگی جاے، اس کی طرف رجوع کیا جاے. یہی ایک بندہ مومن کے شب و روز ہیں. انہی میں زندگی بسر کرنی چاہیے.اس دنیا میں موت سے پہلے یہ خیال کرنا کہ کشمکش ختم ہو جائے گی، شیطان کے حملے رک جائیں گے، یہ ممکن نہیں ہے. یہ بات اللہ تعالیٰ کو ہر بندے کے بارے میں معلوم ہے. اسی لیے تو فرمایا ہے کہ ولا تموتن الا وانتم مسلمون یعنی موت کے استقبال تک تمہیں تقویٰ پر رہنا ہے، اللہ کے سامنے سر افگندہ ہو کر زندگی بسر کرنی ہے.اس لیے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ شیطان کو پوری شکست دے دیں، وہ دائیں بائیں سے حملہ آور ہوتا رہتا ہے. اللہ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے. ہر موقع پر اللہ سے رجوع کرتے رہنا چاہیے. ہر موقع پر یہ کوشش کرنی چاہیے کہ پہلے سے بہتر اقدامات کریں اور پہلے سے بہتر زندگی کی طرف آگے بڑھیں. اس جدوجہد اور کشمکش کے بارے میں اگر لمحہ برابر بھی غفلت ہو گئی تو شیطان غلبہ پالے گا. اس سے نہ کبھی نچنت ہونا چاہیے اور نہ اپنے اوپر اس طرح کا اعتماد پیدا کرنا چاہیے. ہاں اپنے پروردگار پر پورا بھروسہ رکھیں -آپ نے اس کی راہ اختیار کی ہے، وہ آپ کا ہاتھ پکڑے گا اسکے فرشتے آپ کی مدد کریں گے. اگر کسی موقع پر کوئی غلط خیال پیدا ہوگا تو وہ اس سے نجات دلاے گا. اور اگر اس کے ساتھ وفاداری کا حق پہچانا ہے تو بڑی سے بڑی نعمت اس کی طرف سے وہی ہے جو سیدنا یوسف کے بارے میں بیان ہوئی ہے کہ لولا أن رأى برهان ربه، کہ نازک موقع پر اللہ کی برھان نمودار ہو جاتی ہے اور وہ بندے کو ہاتھ سے پکڑ کر دلدل سے نکال لیتی ہے. اللہ پر بھروسہ، اللہ پر اعتماد، اللہ کے پیغمبروں کے ساتھ سچی وفاداری اور اللہ کی کتاب کو رہنما بنا کر زندگی بسر کرتے رہیے.
اس خیال میں ادنیٰ درجے میں بھی مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ اب ہم نے بازی جیت لی ہے. یہ احساس پیدا ہوا تو آپ بازی ہار جائیں گے. اللہ کے سامنے اپنے آپ کو عاجز بندے کے طور پر پیش کریں اور عاجز بندے ہی کے طور پر یہ منازل طے کریں اور آخری وقت تک عاجزی ہی پر قائم رہیں. سب سے بڑی چیز جو اللہ کو پسند ہے وہ عاجزی ہے اور سب سے زیادہ اللہ کو جو نا پسند ہے وہ استکبار ہے. یہ بات کہ میں بہت کچھ ہوگیا اور میں نے بہت معرکہ مار لیا اور میں بہت نیک ہوں، یہ تو شیطان کو دعوت دینا ہے کہ وہ آئے اور حملہ آور ہو جائے. ہمیشہ اپنے آپ کو ایک عاجز بندے ہی کی حیثیت سے رکھیے.
میرے نزدیک زندگی کا سب سے بڑا سبق اور سب سے بڑی حقیقت اپنی عاجزی کا ادراک ہے. ہم بہت محتاج بندے ہیں، ہمارے اندر بہت خامیاں ہیں. ان خامیوں کا ادراک کرتے ہوے اگر آپ جیئں گے تو یہ حقیقت ہے کہ وہ جو رسالت مآب صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ پھر زیادہ روئیں گے کم ہنسیں گے. یعنی یہ بڑی مشکل زندگی ہے جس میں قدم قدم پر انسان کو اللہ پر بھروسے، اللہ کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے. یہ اس کی عنایت اور اس کی توفیق ہے ورنہ ہم سب بہت عاجز بندے ہیں.بس میں درد مندی سے توجہ دلاتا ہوں کہ احتیاج، عاجزی، اپنے پروردگار پر آخری درجے کا بھروسہ، اس کی یاد سے اپنے دل و دماغ کو ہمیشہ آباد رکھنے اور غفلت سے پرہیز کرنے کی کوشش کرتے رہیں، یہ موضوع تو آخری درجے کا سنجیدہ موضوع ہے.(گفتگو سے اقتباس)