آواز دوست
جلوت اور خلوت
محمد صديق بخاری
وہ ایم ایس سی پاس سائنس کے استاد ہیں اور ایک اچھے ادارے میں بچوں کو سائنس پڑھا نے پہ مامور ہیں۔ ان کی چال ڈھال ، شکل وصورت اور لباس سے یہ اندازہ نہیں ہو سکتا کہ ان کا تعلق تبلیغی جماعت سے ہے مگر ان کا اپنا دعویٰ یہی ہے ۔پانچ برس ہو چلے، وہ میرے کولیگ ہیں مگر میں نے انہیں کبھی سہ روزے پہ بھی جاتے نہیں دیکھا اور نہ ہی کبھی انہیںکسی سے کوئی دعوتی بات کرتے پایا۔ان کی زیادہ سے زیادہ دعوت یہ ہے کہ جمعرات کوبعض اوقات ہلکی سی آواز میں کہیں گے کہ شب جمعہ پہ چلنا ہے تو چلے چلو۔ البتہ تبلیغ کے علاوہ ہر مذہبی فکر کو گھٹیا سمجھنا اور لوگوں کا مذاق اڑاناان کا پسندیدہ مشغلہ ہے ۔ان کی باتیں تمسخر ، تضحیک ، تنقید ، تردیداور تنقیص کے زمرے میں آتی ہیں مگر یا تو انہیں ا سکا پتا نہیں چلتا اور یا پھر وہ جان بوجھ کر انجان بنے رہتے ہیں۔اپنے قبیلے اور برادری پہ انہیں بہت ناز ہے اور اس کا برملا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔لوگ توپدرم سلطا ن بود کہا کرتے ہیں لیکن یہ خود ہی سلطان بنے پھرتے ہیں۔ ان کی ڈکشنری میںلفظ ِ’’میں‘‘ کو خصوصی اہمیت حاصل ہے ۔میں نے بہت غور کیا کہ یہ جان پائوں کہ اصل میں یہ صاحب ہیں کیامگر کوئی سرا ہاتھ نہ آیا البتہ جب میں نے ان کی خلوت اور فی البدیہہ معاملات پہ غور کیا تو بہت سے ایسے رنگ مل گئے جنہیں باہم ملا کر اک پوری تصویر بنائی جا سکتی ہے ۔ مثلاً جب انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اب انہیں کوئی نہیں دیکھ رہا تو وہ کوئی نہ کوئی گیت گنگنانے لگتے ہیں۔تنہائی میں ان کی زبان سے نکلنے والے جملے یا توفلمی گانوں کے بول ہوتے ہیں اور یا پھر غیر مہذب الفاظ۔ان کی زبان سے بے ساختہ جو الفاظ ادا ہوتے ہیں، وہ بھی سنسر کی زد میں آنے والے ہوتے ہیں۔ انسان بیٹھے بیٹھے اچانک سے کوئی الفاظ بول دیتا ہے اس طرح کے مواقع پہ میں نے کبھی نہیں سنا کہ اچانک انہوں نے اللہ ،رسول کا نام لیا ہو یا کوئی دینی بات کہہ دی ہو۔کلاس روم میں بھی بعض اوقات ان کی زبان سے گالیاں نکل جاتی ہیں اور جب فری موڈ میں ہوتے ہیں تو سارے کے سارے شائستہ الفاظ ان کا ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ ان کی جلوت کو ان کی خلوت سے ملائیے تو میرا خیا ل ہے اس سے جو تصویر بنتی ہے وہ آپ بھی بآسانی بنا سکتے ہیں۔
دوسرے صاحب زبان و ادب کے استاد ہیں۔ میں نے غور کیا کہ ان کی زبان سے اچانک کیا الفاظ ادا ہوتے ہیں تو دیکھا کہ وہ جب اچانک انگڑائی لیتے ہیں یا اپنی سوچ اور مراقبے سے باہر آتے ہیں تو پکار اٹھتے ہیں ’’ یا حسین ‘‘ اور یا پھر ’’ یا علی ‘‘ ۔ میں نے سوچا کہ اس کا متشرع انسان تو عموماً اللہ ، رسول کا نام لیا کرتا ہے لیکن یہاں معاملہ اور ہے ۔ میں نے بہت جاننے کی کوشش کی تو پتا چلا کہ میرا انداز ہ صحیح تھا کہ ان کابچپن شیعہ حضرات کے سائے میں گزرا کہ ان کا ننھیال شیعہ ہے اور شیعہ تصورا ت ان کے لا شعور کا حصہ بن چکے ہیں۔ جلوت میں تووہ شعور کو کنٹرول کر لیتے ہیں لیکن خلوت یا فی البدیہہ معاملات میں ان کا لاشعور، شعور کو کنٹرول کر لیتا ہے اور عموماً ایسے ہی ہوا کرتا ہے ۔ انسان کے دل میں جو چیز رچ بس گئی ہو وہ بے ساختہ لمحات میں سامنے آجایا کرتی ہے ۔ آپ کبھی نوٹ کریںجب لوگ آپریشن کے بعد ہوش میں آتے ہیںتو عجیب و غریب باتیں کر رہے ہوتے ہیں یہ اصل میں ان کا لاشعور بول رہا ہوتا ہے ۔جلوت میںکسی کو چیک کرناہو تو اسے غصے کی حالت میں دیکھیے یاپھر بے ساختگی کی حالت میں اس کی زبان سے ادا ہونے والے الفاظ پہ غور کیجیے۔ اس سے اس کی اصل شخصیت کو جاننے میں بہت مدد ملے گی ۔ اصل تو خلوت ہوتی ہے لیکن چونکہ اس کے حال کا علم میں آنابہت مشکل امر ہے اس لیے یہ دو،وہ متبادل حالتیں ہیں جو اصل میں خلوت کی نمائندگی کر تی ہیں۔
تیسرے صاحب جب تنہا ہوتے ہیں تو سیٹیاں بجاتے ہیں ، چوتھے صاحب جب صرف اپنے آپ میں ہوتے ہیں تو مختلف گلو کاروں کی نقل اتارنے کی کوشش کرتے ہیں اور پانچویں صاحب اکثر و بیشتر خاموش رہتے ہیں ان کو بلانے کی ہر کوشش ناکام رہتی ہے البتہ ان کی زبان کھلوانی ہو تو کوئی جنسی موضوع چھیڑ دیجیے تو پھر ان کے علم کے تما م سوتے پھوٹ پڑتے ہیں اور ایک دریا ہے تو جو رواں ہو جاتا ہے ۔
یہ جلوت و خلوت کے وہ معاملات ہیں جو کسی بھی انسان کی اصل شخصیت کو جاننے میں بہت ممد ومعاون ثابت ہوتے ہیں۔ ان میں بھی خلوت اصل ہے لیکن چونکہ خلوت کا حال جاننا ہر ایک کے لیے ممکن نہیں ہوتا تو اس کے متبادل کے طور پر، بے ساختہ ادا ہونے والے الفاظ ، فی البدیہہ معاملات اور غصے کی حالت میںظاہر ہونے والاانسانی رویہ، انسانی شخصیت کو جاننے کابہت بڑا انڈیکیٹر بن جاتاہے ۔ہاںالبتہ انسان اپنے بارے میں جاننا چاہے تو اس کا اصل انڈیکیٹر خلوت ہی ہے ۔ جس کی خلوت بہتر ہو گئی اس کی جلوت بھی بہتر ہو جائے گی۔اور یہ نسخہ میرا نہیں محترم احمد جاوید صاحب کاہے ۔وہ کہا کرتے ہیں "اپنی تنہائی کو بہتر بنا لو" اور "سچے بن جاؤ" تو سارا منظر ہی بدل جائے گا۔
دوسروں کو ان پیمانوں سے جاننے کی کوشش کیجیے تا کہ آپ ان کے شر سے بچ سکیں اور خود کوان پر پرکھیے تا کہ آپ وہ انسان بن سکیں جنہیں اللہ ’’ میرے بندے ‘‘ کہتا ہے۔ اورجو ’’میرے بندے‘‘ ہوتے ہیں انہیںتنہائی میں نماز پڑھنے کی ایسی ہی رغبت محسوس ہوتی ہے جیسی لوگوں کو فلم دیکھنے کی۔اور جو میرے بندے ہوتے ہیں انہیںتنہائی میں نیکی کو چھوڑنے کے لیے ایسے ہی مجاہدہ کی ضرورت پیش آتی ہے جیسے لوگوں کو تنہائی میں گنا ہ چھوڑنے کے لیے ۔اور جو اپنی تنہائی کو ایسا بنا لے گا ،وہ پھر اپنے مالک کو ہر اُس جگہ پائے گا جہاں وہ تنہا ہو گا اور قبر سے زیادہ تنہا جگہ اور کون سی ہو گی۔۔۔!