فكرو نظر
مسکینی اور شرافت میں فرق کیجیے!
طارق احمد—معلمہ رياضی
میں اچھا خاصا مہذب اور پڑھا لکھا انسان ہوں۔ بیوی کو آج تک نہیں ڈانٹا۔ تین بچے ہیں۔ بچپن سے لے کر آج تک انھیں مارنا تو دور کی بات کبھی گھور کر بھی نہیں دیکھا۔ میرا یقین ہے۔ اگر ایجوکیشن ہمیں مہذب نہیں بنا سکی تو یہ ایجوکیشن ضائع گئی۔ تعلیم مکمل کرکے تینوں ڈاکٹر بن چکے ہیں۔ ڈگریوں سے زیادہ ان کا مؤدب پن، ان کی محبت، ان کی کیئر، اور رشتوں پر فخر کرتا ہوں۔تیس سال سے انگریزی ادب پڑھا رہا ہوں۔ بیس پچیس سال پرانے میرے شاگرد آج بھی میرے ساتھ جڑے ہوے ہیں۔ مجھ سے محبت کرتے ہیں۔ یہی معاملہ میرے دوستوں کا ہے۔ بیس پچیس سال سے اخبار میں لکھ رہا ہوں ۔ چار کتابیں پبلش ہو چکی ہیں۔ دو پر کام جاری ہے۔ چالیس سال سے عملی و تحریری طور پر سیاست میں ملوث ہوں۔ مختلف ادوار سے گزرتے اب ایک مخصوص نقطہ نظر کا حامل بن چکا ہوں۔
سوشل میڈیا پر ایکٹو ہوں ۔ لیکن کسی سے الجھتا نہیں۔ احباب کی بےشمار ایسی پوسٹیں دیکھتا ہوں۔ جن سے اختلاف رکھتا ہوں۔ لیکن خاموشی سے گزر جاتا ہوں۔ کبھی کسی دوست کی وال پر جا کر اس کی انسلٹ نہیں کی۔ تنگ نہیں کیا۔ میری وال پر کچھ احباب جانے یا انجانے میں الفاظ کا مناسب چناؤ نہیں کرتے۔ کوفت ہوتی ہے۔ لیکن ان سے بحث نہیں کرتا۔ دو تین موقعے دیتا ہوں۔ پھر بلاک کر دیتا ہوں۔میرا ماننا ہے كہ بحث و مباحثہ لا حاصل ھے۔ کوئی کسی کے کہنے پر تبدیل نہیں ہوتا۔ ہاں حالات و واقعات کا تسلسل اور زندگی کا ذاتی مشاہدہ و تجربہ اور علم انسان میں تبدیلی لاتا ہے۔ بچپن، لڑکپن، جوانی، درمیانی عمر اور بڑھاپے کی اپنی حرکیات ہیں۔ شور مچاتے، پتھروں سے سر ٹکراتے پہاڑی ندی نالے جب میدانوں کا رخ کرتے ہیں تو توازن اور خاموشی سے بہنے لگتے ہیں۔ اور پھر سمندروں میں گم ھو جاتے ہیں۔
بطور والد اور بطور استاد میں نے یہ جانا بچوں کو آپ انسپائر کر سکتے ہیں۔ لیکن آپ بچوں کو براہ راست خشک نصیحت نہیں کر سکتے۔ انہیں ڈانٹ ڈپٹ یا ڈرا دھمکا کر یا لالچ سے ڈھب پر نہیں لا سکتے۔ بچوں میں فطری مزاحمت ھوتی ھے۔ وہ نہ کہنے میں بڑائی سمجھتے ھیں۔ اپنی عزت نفس کا دفاع کرتے ہیں ۔ بچوں کو بلاواسطہ (ان ڈائریکٹ) طریقوں سے انسپائر کریں۔ ان کی سوچ، ان کے تخیل اور ان کی مثبت قوت فیصلہ کو انگیخت کریں۔ اپنے اوپر ان کا اعتماد قائم کریں۔ ان سے دوستی کریں۔ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت شیئر کریں۔بچے اپنی خواہشات پوری ہونے پر خوش ھوتے ہیں۔ لیکن والدین سے دوستی انہیں خوشی کے علاوہ تحفظ کا احساس دیتی ھے۔ اپنے بچوں کو اتنی اجازت دیں۔ وہ اپنے واہیات اور احمق تجربے بھی آپ سے بیان کر لیں۔ یاد رکھیں جو بچے آپ سے ڈرتے ھیں۔ یا آپ کی محرومی کا شکار ہیں۔ وہ یا باہر نکل جاتے ہیں اور یا پھر اپنے کمروں میں مقید ہو جاتے ہیں۔ یہ دونوں صورتیں خرابی کی جانب جاتی ھیں۔
یہ زندگی اتنی طویل نہیں جسے لڑائی جھگڑوں، نفرت، حسد اور مقابلہ بازی کی نذر کر دیا جائے ۔ خون کے رشتے پانی سے گہرے ہوتے ہیں۔ والدین، اولاد، سگے بہن بھائی نعمت خداوندی ہیں۔ آپ کے بچپن کے سنگی ساتھی جن کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے ہماری زندگی کا ایک خوبصورت وقت بسر ہوا۔ ایک ھی ماں کی ہاتھ کی پکی روٹی کھائی۔ ایک باپ کی گود میں جھولے لیے۔ اس کی کمر پر سواری کی۔ بہن بھائی دوبارہ نہیں ملتے۔ ان سے مقابلہ کیسا۔ ان سے شریکا کیسا؟ وہ چھوٹی بہن جس کی انگلی پکڑ کر اسکول چھوڑنے گئے۔ بڑی بہن سے پیار لیا۔ دل کے جانی سگے بھائی جو آپ کا تحفظ کرتے۔ اکھٹے کھیل تماشے۔ کیسے محبت بھرے رشتے۔ زندگی کا اصل حسن زندگی کی اصل خوبصورتی ۔ ھم کیوں ان سے ڈرتے ھیں۔ دور ہو جاتے ہیں۔ یہ زندگی پچھتاووں اور رونے دھونے کے لیے نہیں۔
لیکن اس زندگی میں برائی بھی ہے۔ یہ زندگی، یہ دنیا، اور یہ کائنات تضادات پر کھڑی ہے تاکہ توازن قائم رہے۔ یہی اللہ پاک کی حکمت ہے۔ ہم برائی سے الجھ نہیں سکتے، البتہ اپنا راستہ تبدیل کر سکتے ہیں۔ اپنے ذہنی سکون، آرام، اور تحفظ کے لیے برائی کے وجود سے دور رہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ برائی نہ کریں۔ برائی کچھ انسانوں اور واقعات کی صورت میں آپ کے اردگرد موجود ہے۔ ان سے مت ملیں۔ ان سے مت جھگڑیں، اور نہ اس زعم میں آئیں کہ آپ برائی کو ختم کرسکتے ہیں۔ برائی ختم کرنے کا دعویٰ کرنے والوں نے اس دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔ اپنی زندگی کی قدر کریں اور کوشش کریں کہ اپنی زندگی کو آپ جییں گے۔ ہاتھی والوں کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں۔
نوٹ: میں کچھ اور لکھنے بیٹھا تھا۔ تمہید سے باہر نکلا تو تخیل کہیں سے کہیں اڑا کے نکل گیا۔ پھر واپس نہیں آ سکا۔ واپس کون آتا ہے۔ واپسی کے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ بس پھر خاموشی سے آگے اور آگے چلتے جاؤ اور گہرے سمندروں میں گم ہو جاؤ۔
طارق احمد
پروفیسر طارق احمد کی تحریر کا خلاصہ انھی کے الفاظ میں یہ ہے:"ہم برائی سے الجھ نہیں سکتے، البتہ اپنا راستہ تبدیل کر سکتے ہیں۔""ان سے مت ملیں۔ ان سے مت جھگڑیں۔"
عرض یہ ہے کہ ہم کتنی ہی کوشش کریں مگر کبھی کبھی راستے میں آئی ہوئی برائی سے الجھنا ضروری ہوتا ہے۔ کامیابی ہو یا نہ ہو مگر کوشش کرنا ضروری ہوتا ہے۔
اب آپ معلمہ ریاضی کی تحریر پڑھیے:
"چند سال پہلے معلمہ جب ایک نئے علاقے میں منتقل ہوئيں تو کچھ عرصے بعد علاقے کا ٹرانسفارمر کے الیکٹرک نے بند کردیا کہ علاقے کے لوگ بل نہیں بھرتے۔یہاں آکر ہم کو بجلی کی چوری، کنڈا مافیا، پی ایم ٹی نمبر، بغیر میٹر کے گھر اور سیاست کی گندگی کا معلوم ہوا۔ہم نے بل نہ دینے والے لوگوں کو بھی سمجھانا شروع کیا اور کے الیکٹرک کے افسران کو بھی قائل کرنے کی کوشش کی۔
دونوں طرف ہٹ دھرمی عروج پہ تھی۔ بہرحال کوشش جاری رکھی، مگر کے الیکٹرک کے افسران تقریباً خود کو نعوذباللہ خدا سمجھے بیٹھے تھے۔اس ساری کوشش میں تین ماہ ہونےوالے تھے، یعنی تین ماہ سے ہمارے گھروں میں بجلی نہیں تھی۔اہلِ علاقہ کی طرف سے جب ہم ایک جنرل مینیجر جس کا نام غالباً ج سے شروع ہوتا تھا سے بات کرنے گئے تو اے سی والے آفس میں بیٹھ کر اس نے انتہائی رعونت سے کہا، ہم کاروبار کرنے بیٹھے ہیں جب نوے فیصد لوگ بل نہیں بھریں گے تو ہم باقی دس فیصد کو بھی بجلی نہیں دے سکتے
معلمہ کا غصے سے برا حال ہوگیا۔ ہم نے باہر آکر اہلِ علاقہ سے کہا، ہم اپنی کوشش کرچکے۔ یہ لوگ لاتوں کے بھوت ہیں باتوں سے نہیں مانیں گے۔ اہلِ علاقہ نے کہا کہ پھر ہم کے الیکٹرک کے دفتر جاکر احتجاج کریں۔۔ جب توڑ پھوڑ کریں گے تب ان کا دماغ ٹھکانے آۓ گا۔ہم نے کہا، یہ اس طرح کا احتجاج ہمارا مزاج نہیں۔ مگر ہم آپ لوگوں کو روکیں گے بھی نہیں۔يہ کہہ کر ہم گھر آگئے -اہلِ علاقہ کے الیکٹرک دفتر گئے۔ گیٹ پہ دھرنا دے دیا۔ کسی کو اندر جانے باہر آنے نہیں دیا۔اسی ج نامی جنرل مینیجر نے علاقے کی سیاسی پارٹی کو کال کرکے ”مدد“ مانگی۔ وہ خود کنڈا مافیا کی سب سے بڑی سرپرست تھی۔ اس پارٹی کا ناظم بھاگا بھاگا ہمارے پاس آیا اور ہم سے درخواست کی کہ آپ لوگوں کو سمجھا کر احتجاج ختم کرائيں اور جتنے بل بھرے ہوۓ ہیں اس کی کاپی مجھے دیں، میں کل ہی ٹرانسفارمر لگواتا ہوں۔ہم نے ایسا ہی کیا اور پورے تین ماہ بعد بجلی بحال ہوگئي-
معلمہ ریاضی، لبنیٰ سعدیہ عتیق
معلمہ ریاضی کی طرح اگر ہم سب اپنے مسائل کے لیے مسلسل کوشش کریں (انھوں نے تین مہینے کوشش کی) تو ہمارے مسائل حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ معلمہ ریاضی ایک مضبوط خاتون ہیں، اس لیے انھوں نے اتنی قوت سے کوشش کی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے زیادہ تر اتنی قوت سے کوشش نہیں کرسکتے۔ کوئی بات نہیں۔جتنی آپ کوشش کر سکتے ہیں اتنی تو کیجیے۔چند سال پہلے، ہماری گلی میں گیس کا مسئلہ شدید ہوگیا۔ گلی کی کچھ خواتین نے ہمت کی اور دفتر جا کر شکایت کی؛ مسئلہ حل ہو گیا۔ عرض یہ ہے کہ آپ تہذیب کی لذیذ آئس کریم کھانے میں مگن رہیں گے تو آپ کے حصے کا سارا کھانا دوسرے کھاتے رہیں گے۔ آپ پسپا ہوتے رہیں گے تو لوگ آپ کو صرف دیوار سے نہیں لگائیں گے بلکہ دیوار میں چن دیں گے۔ اس لیے،ہم پر لازم ہے کہ معاشرے کی برائی اور زیادتی کے خلاف آواز اٹھائیں۔ عملی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں ہے تو زبان سے ہی مذمت کریں۔ دس جملے بولنے کی ہمت نہیں ہے تو ایک جملہ یا ایک ہی لفظ بول دیں۔ اگر معاشرے کی برائی کے خلاف بات کرنا آپ کو حماقت لگتا ہے تو اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف ہی کچھ کریں:
اپنی اولاد کو اپنا باپ بنانے کی بجائے اس کے ساتھ باپ والا رویہ اختیار کیجیے۔ شفیق ہونے کا مطلب بچوں کی تابعداری کرنا نہیں ہے۔
بھائیوں اور دوستوں کے خودغرضانہ تقاضوں پر نہ کہنا سیکھیے۔
کوئی کمانڈو ایکشن نہیں لیجیے۔ سوچ سمجھ کر آہستہ آہستہ مگر مسلسل کوشش کیجیے۔
قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے۔ اگر پوری پاکستانی قوم برائی کے خلاف روزانہ صرف ایک جملے کا بھی چندہ دینا شروع کردے تو چند سال میں قوم کی گزارے لائق تعمیر تو یقیناً ہو سکتی ہے۔مثال کے طور پر،گھر میں یا دوستوں میں کسی کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو اس کی حمایت میں ایک جملہ ہی بول دیں۔
آخر میں یہ یاد دہانی کرادوں کہ قوت سے مگر سلیقے سے کسی برائی کی مذمت کرنا اور اس کے خلاف قدم اٹھانا تہذیب کے خلاف ہرگز نہیں ہے،بلکہ مہذب معاشرے کی تعمیر کی بنیاد ہے۔