آواز دوست
غزہ کا المیہ اور مسلمان امت
محمد صديق بخاری
(يہ تحرير 2008 كے حوالے سے ہے ليكن آج 2023 ميں اسرائيلی حملے كےبعد بھی غزہ كی صورت حال وہی ہے )
مختلف اخبارات کے حوالے سے غزہ میں برپا ہونے والے انسانی المیے کی ایک دھندلی سی تصویر یوں بنتی ہے:
٭ریڈ کراس کے ایک اہلکار ایاد نصر نے بتایا کہ جو کچھ انہوں نے غزہ میں دیکھا ہے وہ آپ کا دل ہلا دے گا۔ ’لوگ خوراک اور پانی کی مدد کے انتظار میں دم توڑ رہے ہیں۔‘
٭آئی سی آر سی(انٹر نیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس) نے کہا کہ بھوک اور پیاس سے نڈھال بچوں کے علاوہ انہیں ایک شخص نیم مردہ حالت میں ملا جس کے پاس ایک دری پر بارہ افراد کی لاشیں پڑی تھیں۔
٭آئی سی آر سی نے غزہ میں زیتون کے علاقے میں اسرائیلی بمباری سے تباہ شدہ ایک مکان میں چار بھوکے، پیاسے اور سہمے ہوئے بچوں کو اپنی ماں کی لاش کے گرد بیٹھے ہوئے پایا۔
٭ایک اور گھر میں آئی سی آر سی کو پندرہ افراد ملے جن میں اکثر اسرائیلی بمباری سے زخمی بھی تھے۔ ایک اور گھر میں انہیں تین لاشیں ملیں۔
٭انتصار سلطانہ اپنے ۱۹ سالہ بیٹے اور اس کے دو کزنوں کو موت کے حوالے کر کے چپ چاپ اپنے گھر کو لوٹ رہی تھی۔ رنج و غم کی شدت نے اس کے آنسو بھی خشک کر دیے تھے ۔ اس نے بتایا کہ انہوں نے بمباری سے بچنے کے لیے سکول میں پنا ہ لی تھی مگر وہاں بھی اسرائیل نے حملہ کر دیا۔
٭ایک مصری ڈاکٹر نے گلف نیوز کو بتایا کہ وہ چھتیس چھتیس گھنٹے ڈیوٹی کر کے گھر پہنچتا ہے مگر پھر بھی سو نہیں پاتا کیونکہ زخمیوں کی تکلیف اسے کرب میں مبتلا رکھتی ہے۔ اس نے بتا یا کہ ایک چالیس سالہ ماں اپنے چھ بچوں اور خاوند کے لیے ناشتہ بنا رہی تھی کہ اسرائیلی جہاز آ گئے اور وہ سب کے سب بمباری کی نظر ہو گئے ۔ اب وہ ہسپتال میں اکیلی تھی اس کا رنج و الم ناقابل برداشت تھا۔
٭ڈاکٹرگلبرٹ نے کہا کہ زیادہ تر مریض جو انہوں نے دیکھے عام شہری تھے۔ انہوں نے کہا کہ کئی سو لوگ جو انہوں نے دیکھے ہیں ان میں صرف دو جنگجو تھے۔ انہوں نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں پچیس فیصد عورتیں اور بچے ہیں جبکہ زخمیوں میں ان کی تعداد پینتالیس فیصد ہے۔
٭بی بی سی کے صحافی اور غزہ کے شہری حمادہ ابو قمر غزہ میں مبینہ حماس ٹھکانوں پر اسرائیل کے فضائی حملوں سے پیدا ہونے والی صورت حال کے بارے میں بتاتے ہیں۔غزہ کی سڑکیں اور گلیاں ویران ہیں اور ان پر کوئی ایک آدھ کار یا گاڑی دوڑتی دکھائی بھی دیتی ہے تو وہ کسی کو فوری طبی امداد کے لیے ہسپتال لے جا رہی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ روتے دھاڑیں مارتے وہ لوگ دکھائی دیتے ہیں جو اپنے کسی عزیز کا جنازہ لے جا رہے ہوتے ہیں۔
٭اتوار کی صبح میں شفا ہسپتال کا حال دیکھنے گیا جو غزہ کا مرکزی ہسپتال ہے۔ میں نے ایک شہری سے بات کی اور ایک چودہ سالہ نوجوان سے، یہ دونوں اتوار کی صبح مشرقی غزہ کے ایک پولیس سٹیشن پر کیے جانے والے حملے کے دوران زخمی ہوئے تھے۔ قدرے بڑی عمر کے آدمی نے بتایا کہ وہ ایک کلینک میں کام کرتا ہے اور کام پر جا رہا تھا کہ اس نے طیاروں کی آواز سنی اور واپس گھرکی طرف پلٹا۔ اسے اس کے بعد کچھ پتا نہیں کیا ہوا۔ اس کے بعد جب اسے ہوش آیا تو وہ ہسپتال میں تھا اور اسے ہاتھوں، ٹانگوں اور پیٹ پر زخم آئے تھے۔ نو عمر نوجوان کا سر خون میں لتھڑا ہوا تھا اور اتنی شدید تکلیف میں تھا کہ اسے اپنا نام تک یاد نہیں تھا۔ اسے یہ بھی نہیں پتا تھا کہ وہ کہاں ہے اور وہاں کیسے لایا گیا۔میں نے ایمرجنسی روم میں بھی ایک لڑکے کو دیکھا جس کے سینے میں لکڑی کا بڑا ٹکڑا گھس گیا تھا۔ سنیچر کو بھی میں ہسپتال آیا تھا اور میں نے ہسپتال کے مردہ گھر کو لاشوں سے پٹا ہوا دیکھا تھا۔ یہ وہ لاشیں تھیں جو گلیوں سے اٹھائی گئی تھیں۔
٭ایک صحافی نے بتایا کہ میں نے ہسپتال میں والدین کو دیکھا جو بچوں کی لاشیں تلاش کر رہے تھے۔ میں نے ہسپتال کی عمارت میں ایک عورت کو ادھر سے اْدھر بھاگتے ہوئے دیکھا، وہ بھاگ رہی تھی اور چلا رہی تھی: ’میرے بیٹے، میرے بیٹے‘۔ آخر ہسپتال کے عملے نے اس کے بیٹے کی لاش کو تلاش کر لیا لیکن انہوں نے عورت کو لاش دیکھنے کی اجازت نہیں دی۔ لیکن میں نے وہ لاش دیکھی۔ وہ ایک بیس سالہ نوجوان کی بے سر لاش تھی۔ اس کا پیٹ بھی پھٹ چکا تھا۔ عورت کچھ دیر تک سفید چادر میں لپٹی ہوئی لاش کو دیکھتی رہی اور پھر اس پر گر کر بے ہوش ہوگئی۔ ہسپتال ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے عزیزوں کی آہ و بکا سے گونج رہا تھا۔
٭ایک شہری نے بتایامیں اپنے بچوں کو رونے سے روکنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ وہ کھیلنے کی کوشش کریں۔ میں ابھی ان کے ساتھ ہی ہوں۔ میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ وہ جو کچھ بھی ہورہا ہے اسے نظر انداز کرسکیں۔ گزشتہ شب وہ کچھ دیر تک سوئے، لیکن بمباری کی آوازوں سے وہ جاگ جاتے تھے۔ میں اپنے بچے کو بتاتا تھا کہ بمباری ابھی دور ہے، لیکن وہ مجھے بتاتا کہ دو ہیلی کاپٹر ہمارے گھر کے اوپر ہیں۔ میرا بیٹا ابھی چھ سال کا ہے، لیکن وہ ہیلی کاپٹروں، ڈرون، ایف سولہ طیاروں، میں فرق سمجھتا ہے۔
٭اقوام متحدہ کے رابطہ کار میکس گیلارڈ نے سوموار کو کہا کہ ’بہت سے لوگ جن میں بچے بھی شامل ہیں بھوکے ہیں، انہیں سردی کا سامنا ہے اور طبی سہولیات بھی میسر نہیں ہیں، پانی اور بجلی نہیں ہے اوران سب کے علاوہ وہ شدید خوف کا شکار ہیں۔ یہ ہر لحاظ سے شدید انسانی بحران ہے۔‘
٭اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ دس لاکھ فلسطینی بغیر بجلی کے ہیں۔ اس علاقے کا واحد بجلی گھر تیس دسمبر کو ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گیا تھا۔ اس بجلی گھر کو پانچ جنوری کو دو لاکھ پندرہ ہزار لیٹر صنعتی ایندھن مہیا کیا گیا تھا جو کہ اسرائیلی سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ایک حکمنامے میں غزہ کے لیے ہر ہفتے ایندھن کی منظور کردہ کم از کم مقدار کاصرف دس فیصد ہے۔ سوموار کی رات کو ایک لاکھ مزید ڈیزل فراہم کر دیا گیا تھا لیکن فلسطین کی طرف سے اس کو وصول کرنے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ ان لوگوں کو محفوظ راستہ فراہم کرنے پر اسرائیل سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکا تھا۔ اس کے علاوہ گیس کی بھی شدید قلت ہے۔
٭اقوام متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق پانچ جنوری کو ڈھائی لاکھ لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں تھا۔ غزہ کے بہت سے کنویں بجلی کے پمپوں پر چلتے تھے۔ ان پمپوں کو بجلی جنریٹروں سے فراہم کی جاتی تھی لیکن اب ان جنریٹروں کا ایندھن ختم ہو گیا ہے۔ غزہ کو پانی فراہم کرنے والے ادارے کا کہنا ہے کہ غزہ میں ایک سو تیس کنویں ہیں جن میں سے اڑتالیس سے پانی کی فراہمی بجلی نہ ہونے کے باعث بند ہو گئی ہے۔ جبکہ باقی بھی جزوی طور پر کام کر رہے ہیں۔ آئی سی آر سی کے مطابق پانچ لاکھ کے قریب لوگ آئندہ اڑتالیس گھنٹوں کے دوران بغیر پانی کے ہوں گے۔غزہ کے فراہمی آب کے ادارے نے کہا ہے کہ اتوار کو گندے پانی کو پمپ کرنے والے سینتیس میں سے پانچ سٹیشنوں کو بجلی کی فراہمی بند ہونے سے گندہ پانی آبادی والے علاقوں، کھیتوں اور سمندر میں جا رہا ہے۔ باقی ماندہ پمپنگ سٹیشنوں کا بھی اگلے تین چار دنوں میں بند ہو جانے کا خطرہ ہے۔ حکام کو خطرہ ہے کہ لگاتار بمباری کی وجہ سے شمال میں گندے پانی کے ایک بہت بڑے تالاب میں شگاف نہ پڑ جائے جس سے یہ پانی بیت لہیہ کی آبادی میں پھیل جانے کا خطرہ ہے۔
یہ وہ دھندلی سی تصویر ہے جو ڈیڑھ ارب مسلمانوں اور ستاون مسلمان ممالک کے ہونے کے باوجود بن رہی ہے ۔یہ تصویر اور اس جیسی بہت سی تصویریں اس وقت تک بنتی رہیں گی جب تک کہ مسلمان ملکوںبالخصوص عرب ممالک میں اتحاد اور اتفاق کی فضا پیدا نہیں ہوتی۔
خود عربوں کی کتابوں میں یہ لکھا ہے کہ کسی جنگل میں تین بیل رہتے تھے اور ایک شیر۔ ایک بیل کا رنگ سفید تھا دوسرے کاسرخ اور تیسرے کا سیاہ۔ شیر نے سوچا کہ ان تینوں بیلوں کو کھایا جائے ۔ اس نے سرخ اور کالے بیل سے کہا کہ دیکھو یہ سفید رنگ کا جو بیل ہے ،اس کارنگ دور ہی سے شکاری کو متوجہ کر دتیا ہے اس طرح یہ ہمارے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے کیوں نہ میں اس کو کھالوں تا کہ ہم سب امن سے رہیں۔ دونوں بیلوں نے اس کی اجازت دے دی۔ اس کے کچھ دن بعد اس نے سرخ بیل سے کہا کہ تمہارا اور میرا رنگ تو ایک جیسا ہے لیکن یہ کالا کہاں سے آگیا ۔صرف تمہیں اور مجھے ہی جنگل میں رہنے کا حق ہے کیونکہ ہم دونوں ایک جیسے ہیں۔ کیوں نہ میں کالے بیل کو کھالوں تا کہ میں او رتم دونوں مزے سے جنگل میں رہیں۔سرخ بیل نے کہا بہت اچھا۔ جب یہ معاملہ بھی صاف ہو گیا تو ایک دن اس نے سرخ بیل سے کہا کہ اب تمہاری باری ہے ۔وہ چیخا اور چلایا، مگر شیر نے ایک نہ سنی ۔ بیل پکارا ، اصل میں تو، میںاس دن ہی مارا گیا تھا جس دن سفید بیل کو کھانے کی میں نے اجازت دی تھی۔
مسلمان ملک بھی آج کل بیل بنے ہوئے ہیں۔ سب نے مختلف رنگ لگائے ہوئے ہیں اور آہستہ آہستہ ایک ایک رنگ کی باری آ رہی ہے اور یہ باریاں آتی رہیں گی جب تک کہ ان بیلوں کو یہ سمجھ نہ آئے کہ وہ اصل میں بیل نہیں شیر ہیں۔ لیکن ا س کے لیے آئینے کی ضرورت ہے اور آئینے ہم نے سب توڑ رکھے ہیں۔ چنانچہ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ بہت سے آئینے فراہم کیے جائیں اور مسلسل ان بیلوں کو دکھانے کا اہتمام کیا جائے، شاید کہ کبھی ان کو اپنی شکل دیکھ دیکھ کر یہ یقین آ ہی جائے کہ ہاں ہم واقعی میں شیر ہیں۔
دوسری طرف اسرائیل اور اس کے حواریوں کویہ سمجھانے او ربتانے کی ضرورت ہے کہ تشد د ہمیشہ تشد د کو جنم دیتاہے ۔ فلسطین کے مسئلے کاحل تشد د نہیں بلکہ بات چیت ہے اس راہ سے امن نہ کبھی پہلے فراہم ہوا ہے نہ اب ہو گا۔
غزہ اور اس جیسے بہت سارے دوسرے المیوں کااصل حل یہی ہے کہ بیک وقت دونوں محاذوں پر کام کیا جائے ۔ ایک تو مسلمانوں میں گھسے بیل کو باربار آئینہ دکھا کر یہ یقین دلایاجائے کہ تم شیر ہو اور دوسرے تشدد کے بد مست حامیوں کو تاریخ کا سبق یاددلایا جائے کہ تشدد ہمیشہ تشدد کو جنم دیتا ہے۔ امن چاہتے ہو تو ہر علاقے کے حماس اور ہر علاقے کے طالبان کو آگے آنے دو ، اگر و ہ ٹھیک نہ ہوئے تو ان کے عوام خود ہی انہیں رخصت کر دیں گے ،تمہیں تکلیف کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی اور اگر ان کے عوام انہیں پسند کرتے ہیں تو پھر تمہاری جمہوریت ہی یہ کہتی ہے کہ ان کو حکومت کاحق ہے لیکن کیا کیاجائے کہ تمہاری جمہوریت بھی گھر کے لیے اور ہے اور باہر کے لیے اور ۔