لسانيات
اردو کو نادان دوستوں سے بچائیے!
محمد اظہار الحق
تین چار دن پہلے ایک معروف ادارے کی طرف سے ایک تقریب کا دعوت نامہ موصول ہوا جو کسی کانفرنس کے ضمن میں تھا۔ اس میں لکھا تھا ''بر خط‘‘۔ دماغ چکرا گیا! یا اللہ! یہ ''بر خط‘‘ کیا بلا ہے؟ خط پر یعنی مکتوب پر؟ یا اس خط پر جو منحنی ہوتا ہے یا مستقیم! کافی دیر سوچنا پڑا۔ اچانک دماغ میں بجلی کوندی! ہت تیرے کی! ''آن لائن‘‘ کا ترجمہ داغا گیا ہے۔ آن لائن یعنی ''بر خط‘‘۔سنا ہے کہ میرٹھ میں 'اللہ کے بندے‘---رگِ گُل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں-یہ ''اللہ کے بندے‘‘ تو اس لیے لکھا ہے کہ اصل الفاظ کی، جو اس شعر میں ہیں، اجازت ہمارے ایڈیٹر صاحب کبھی نہیں دیں گے!
اردو کا بھی عجیب المیہ ہے۔ دو انتہاؤں کے درمیان پِس رہی ہے۔ ایک طرف تو لارڈ کلائیو اور میکالے کی وہ ذریت ہے جو اردو بولتے ہوئے ایک ایک فقرے میں انگریزی کے دس دس پیوند لگاتی ہے‘ اور دوسری طرف اردو کے وہ نادان دوست ہیں جو اردو کو اجنبی اور غیر مانوس الفاظ سے بھر کر غرابت زدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ فیس بک کو 'کتاب چہرہ‘ کہہ رہے ہیں جب کہ مزدور بھی فیس بک ہی کہتا ہے۔ اب ہو سکتا ہے ''آن لائن‘‘ کو ایرانی ''بر خط‘‘ کہتے ہوں مگر فارسی فارسی ہے اور اردو اردو! اور پھر اگر شرحِ آرزو، زبانِ غیر ہی سے کرنی ہے تو ''بر خط‘‘ بھی زبانِ غیر ہے اور ''آن لائن‘‘ بھی زبانِ غیر! مگر فرق یہ ہے کہ پاکستان میں شاید ہی کوئی ہو جسے آن لائن کا مطلب نہ معلوم ہو۔ دو سال سے کورونا چھایا ہوا ہے۔ طلبا اور طالبات کے ان پڑھ والدین کو بھی معلوم ہے کہ آن لائن کس چڑیا کا نام ہے۔ اداروں کے نائب قاصدوں اور خاکروبوں کو بھی پتا ہے کہ میٹنگ یا کانفرنس آن لائن ہو تو اس کا کیا مطلب ہے! اس کے بر عکس ''بر خط‘‘ مکمل اجنبی لفظ ہے۔ اور اگر ایران ہی کی تقلید کرنی ہے تو صرف ''بر خط‘‘ کیوں؟ آئس کریم کو بستنی کہیے، جوڑنے والی ٹیپ کو چسب اور ڈرائیور کو رانندہ!
بچے بچے کو معلوم ہے کہ اردو کا خمیر آمیزش سے اٹھا ہے اور اس کے مزاج میں وسعت اور فراخ دلی ہے۔ انگریزی کے سینکڑوں الفاظ گاؤں گاؤں قصبے قصبے میں سمجھے اور بولے جاتے ہیں۔ مگر اب اگر یارانِ ہوش مند، ان الفاظ کو ہٹا کر غیر مانوس اور نہ سمجھ آنے والے الفاظ سے اردو کی ''خدمت‘‘ کرنا چاہتے ہیں تو اس کارِ خیر میں ہم بھی اپنا حصہ ڈال کر ان یارانِ ہوش مند کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آن لائن کو 'بر خط‘ اور فیس بک کو 'کتاب چہرہ‘ کہنا چاہیے تو بائی پاس آپریشن کو ''ساتھ گزرنا جراحی‘‘ کہنا چاہیے۔ نکٹائی ''گردن باندھ‘‘ کہلائے گی۔ پاسپورٹ کو ''گزر بندرگاہ‘‘ کہیں گے، کریڈٹ کارڈ ''ادھار گَتہ‘‘ ہو جائے گا۔ بجلی کی لائن کو 'بجلی کا خط‘ کہیں گے۔ رجسٹرار سے مراد لمبی کاپی والا ہو گا۔ ہاکی کو آگے سے مڑا ہوا ڈنڈا کہا جائے گا۔ آج کل دکانوں کا نام کیش اینڈ کیری رکھنے کا رواج ہے۔ اگرچہ سب سمجھتے ہیں کہ کیش اینڈ کیری کیا ہے مگر چونکہ ہمارا مشن نامانوس اور ناقابل فہم الفاظ کو زبردستی اردو میں گھسیڑنا ہے اس لیے کیش اینڈ کیری کو کہیں گے ''نقد اور اٹھاؤ‘‘۔ ٹوتھ پیسٹ کا نام ''دانت قوام‘‘ رکھیں گے۔ ٹوتھ برش کو ''دانت جھاڑو‘‘ کہیں گے۔ کار کی بریک کا نام ''گاڑی روک‘‘ ہو گا۔ چیلنج کرنے کو للکارنا کہیں گے۔ کرکٹ بھی انگریزی کا لفظ ہے۔ اسے بھی بدلنا لازم ہے‘ چنانچہ اس کا مناسب نام 'ولایتی گلی ڈنڈا‘ ہو گا۔ فٹ بال کو 'پاؤں گیند‘ کہیں گے۔ الارم کو 'خطرہ چیخ‘ کہیں گے۔ ایک اور مصیبت دیکھیے کہ ریل اور ٹرین دونوں انگریزی الفاظ ہیں۔ دیہاتی بھی ریل گڈی کہتے ہیں‘ مگر ریل کے لفظ سے جان چھڑانی ضروری ہے۔ اس لیے آئندہ ریل کو 'لوہے پر چلنے والی گاڑی‘ کہیں گے۔ پنسل کے لیے 'سیسے والا قلم‘ فاؤنٹین پین کے لیے 'فوارہ قلم‘ اور ربڑ کے لیے 'رگڑنے والی‘ مناسب نام ہیں۔ یہ انٹرنیٹ کا زمانہ ہے۔ انٹرنیٹ اہل مغرب کی ایجاد ہے۔ کمبختوں نے ایجاد کرنے کے بعد ہم سے پوچھا ہی نہیں کہ اس ایجاد کا نام کیا رکھا جائے۔ اب ہم خود اس کا نام رکھیں گے۔ آج سے انٹرنیٹ کا نام 'درمیان جال‘ ہوگا۔ پاس ورڈ کو 'کامیاب لفظ‘ کہیں گے۔ کیک بھی فرنگی لغت ہے۔ اس کا نام ہو گا 'انگریزی مٹھائی کا ٹیلہ‘ اور پیسٹری کو کہیں گے 'انگریزی مٹھائی کی چھوٹی سی پہاڑی‘! بیگم کے لیے نئی لپ سٹک خریدیں گے تو پیش کرتے وقت کہیں گے جان من یہ لیجیے نئی 'ہونٹ ڈنڈی‘! ڈبل روٹی کا مسئلہ تو بہت آسان ہے 'دُہری روٹی!‘ کالر کا نام ہو گا گریبان پٹہ! سویٹر کو 'پسینہ آور‘ کہیں گے۔ بچے کو ریموٹ کنٹرول پکڑانے کے لیے کہنا ہو تو کہیں گے بیٹے! ذرا یہ 'دور اختیار‘ دینا!! کچھ الفاظ کی اردو ہماری محدود اور ناقص سمجھ سے باہر ہے۔ جیسے ایکسرے، وٹس ایپ، ٹریکٹر، ٹکٹ، بِل، انجن، سرنج۔ اس کے لیے انہی نابغوں اور عبقریوں کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرنا ہو گا جن کا ذکر خیر اوپر ہو چکا ہے۔
صرف مفتوح کی زبان میں فاتح کی زبان کے الفاظ نہیں در آتے! فاتح کی زبان بھی نئے الفاظ قبول کرتی ہے۔ یہ دوطرفہ عمل ہے۔ چلم، چادر، چٹنی، کھوپرا، لاکھ، کروڑ، دھتورا، درویش، اچار، امیر، آنہ، بازار، پشمینہ، دیوالی، دھوبی، دھوتی، دربار، فقیر، فتویٰ، ساری، سلطان، زمیندار، پکوڑا، دارالحرب، دارالاسلام، ڈھابہ ان سینکڑوں الفاظ میں سے محض چند ایک ہیں‘ جو ہمارے ہاں سے انگریزی زبان میں داخل ہوکر ان کی لغت کا حصہ بن چکے ہیں۔ دو انگریز سکالرز نے ایک لغت تالیف کی ہے جس میں ان الفاظ اور محاوروں کو یکجا کیا ہے جو چینی، عربی، فارسی اور برِصغیر کی زبانوں سے انگریزی زبان میں داخل ہوئے اور انگریزی کا حصہ بن گئے۔ ایک ہنری یُول تھا جو اصلاً انجینئر تھا۔ دوسرا آرتھر برنل تھا‘ جو جج تھا۔ دونوں انیسویں صدی میں ہندوستان رہے اور یہ لغت مرتب کی۔ اس لغت کا نام ہابسن جابسن ہے۔ پہلی بار یہ 1886ء میں شائع ہوئی۔ گزشتہ ایک سو پینتیس برسوں میں ہابسن جابسن کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس کا ایک نسخہ اس کالم نگار کی لائبریری میں بھی موجود ہے جو برطانیہ کا چھپا ہوا ہے۔
زبان دریا کی طرح ہوتی ہے۔ یہ اپنے راستے خود بناتی ہے۔ کس زبان سے کون سا لفظ لے کر اپنے اندر جذب کرنا ہے، کون سا باہر اگل دینا ہے، اس کا فیصلہ زبان خود کرتی ہے۔ چند افراد لاکھوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اگر لاکھوں کروڑوں لوگ ہسپتال کا لفظ استعمال کررہے ہیں تو کوئی بھی انہیں شفاخانہ کہنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ایک عامل یہ بھی ہے کہ کوئی شے ایجاد کس نے کی ہے؟ کھانڈ ہندوستان میں ایجاد ہوئی۔ قند اور کینڈی کھانڈ ہی کی بگڑی ہوئی شکلیں ہیں۔ الجبرا عربوں کی ایجاد ہے تو یہی نام انگریزی میں بھی رائج ہے۔ مُشک کو انگریزی میں مسک کہتے ہیں۔ پلاؤ ترکوں کی ایجاد ہے۔ ساری دنیا پلاؤ ہی کہتی ہے۔ ہاں روسیوں نے پلاف کردیا۔ جدید ایجادات ساری جن کی ہیں نام بھی انہی کے چلیں گے۔ ہم نے خود کُش جیکٹ ایجاد کی ہے۔ یہ لفظ بھی انگریزی زبان میں داخل ہو جائے گا مگر کچھ وقت لگے گا۔ ہمیں صبر سے کام لینا ہو گا-