فكر ونظر
مسلمان اور بت پرستی
رضوان خالد
مکّہ سے واپسی پر میرے الجیرین میزبان جو تاریخِ اسلام کے پروفیسر ہیں ، سے مُسلمانوں میں بُت پرستی کے ارتقاٴ پر بات ہُوئی-اُنہوں نے میری معلُومات میں اضافہ کرتے ہُوئے بتایا کہ مُحمدؐ کی پیدائش سے بہت پہلے یہُود بھی مکّہ میں اللہ کے گھر کا طواف کرنے کے لیے آیا کرتے تھے -حضرت اسمائیلؑ کی اولاد اتنی پھیلی کہ سب کے لیے مکّہ میں رہنا مُمکن نہ رہا -اور تب اُنکی اولاد نے مکّہ کے اردگرد کے علاقوں میں رہائش اختیار کرنا شُروع کر دی -وہ جاتے ہُوئے اللہ کے گھر سے تعلُق بنائے رکھنے کے لیے مُحبّت میں صفا اور مروٰی سے بڑے بڑے پتھر ساتھ لے جایا کرتے-تاکہ مکّہ سے تعلُّق کا علامتی احساس باقی رہے.-اگلی نسلوں نے آہستہ آہستہ اُنہیں پتھروں کو تراش کر اسمائیل یا اُنکے بیٹوں کی شکل دینا شُروع کر دی.مکّہ سے باہر رہنے والے تمام قبائل حج کے دنوں میں اپنے اپنے قبیلے کے لوگوں پر مُشتمل قافلوں کی شکل میں مکّہ آتے-ہر قبیلے کا قافلہ حج کے لیے آتے ہُوئے اپنے ساتھ اسمائیلؑ یا اپنے پڑدادا یعنی اسمائیل کے کسی بیٹے کا بُت بھی برکت کے لیے ساتھ لانے لگا-اگلی نسلوں میں اسمائیلؑ کے پوتوں اور پڑپوتوں وغیرہ کے بُت بھی بننے اور قافلوں کے ہمراہ مکّہ آنے لگے-چُونکہ قبائل حج کے دنوں کے علاوہ بھی حرم پاک آتے رہتے تھے لہٰذا اُنکی سہُولت کے لیے تمام قبائل کے تین سو ساٹھ بُتوں کو حرم پاک میں ہی رکھ لیا گیا.-جس سال ہر قبیلے نے اپنا بُت حرم پاک کے اندر لا رکھا اُس کے بعد توحید پرست یہُود نے اللہ کے گھر کا طواف کرنا بند کر دیا-حضرت مُحمدؐ کے دور میں اس بُت پرستی کو مکّہ اور گردونواح میں بُری طرح کُچل دیا گیا -لیکن اُنکے پردہ فرماتے ہی عرب کے دیگر علاقوں کے نومُسلموں کو نسلوں سے گھُٹّی میں ملی بُت پرستی اپنی شکل تبدیل کر کے نبیؐ اور اُنکے صحابہ ؓ یا اہلِ بیت کی عقیدت کی صُورت میں پھر ظہُور پزیر ہُوئی -اور پھر اسمائیلؑ کی نسلوں کی طرح مُسلمانوں میں بھی بُت بڑھتے ہی چلے گئے.-نبیؐ ، اہلِ بیتؓ اور صحابہؓ کے بعد تابعین تبع تابعین اور آئمّہ کے بُت بنے، ہر بُت کا بننا ایک نئے فرقے کو جنم دیتا رہا -یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے-اسمائیل کی اولاد کی طرح کوئی کربلا کی مٹی لاتا ہے -کوئی نبیؐ کے جُوتے کی شبیہہ اپنے سینے سے چپکائے پھرتا ہے-ہر فرقے کے ہاں کسی نہ کسی قسم کی بُت پرستی ہے -حقیقی اسلام کہیں کھو چُکا ہے.-آئیے ختمِ نبُوّت پر اٹل ایمان لاتے ہُوئے قُرآن اور توحید کی طرف لوٹ جائیں-مان لیجیے کہ مُحمدؐ ہی اللہ کے آخری نبی اور رسُول ہیں -اور وہ اپنی زندگی میں ہی دین مُکمل کر کے جُوں کاتُوں ہمارے لیے چھوڑ گئے.قُرآن میں بیان کی گئی عبادات اور بُنیادی مُعاملات کی تشریح نبیؐ نے اپنی سُنّت کی شکل میں اپنی زندگی میں ہی اُس وقت موجُود امّت میں رائج کر دی تھی جو آج بھی رائج ہے.
عقیدت اور شرک کے درمیان لائن عبُور مت کیجیے. کسی صحابیؓ یا اہلِ بیتؓ اور امام کا نبُوّت میں اتنا حصّہ بھی نہیں جتنا ریگستان میں ریت کے ایک ذرّے کا حصّہ ہے.مُحمدﷺ کا اللہ کی توحید میں اتنا حصّہ بھی نہیں جتنا سمندر میں اُس کے ایک قطرے کا ہوتا ہے.مُحمدﷺ نے اپنے پیچھے قُرآن اور رائج سُنّت کے علاوہ کُچھ نہیں چھوڑا. قُرآن ہی اللہ کا مُکمّل دین ہے. قُرآن ہر مومن پر فرض ہے. اسے سمجھ کر خُود سے پڑھنا شُروع کیجیے -تاکہ اسمائیلؑ کی نسلوں کی طرح گُمراہی اور شرک مُقدّر نہ بنے.کل اللہ کے سامنے پیش ہونا ہے وہاں ہر ایک اپنا حساب دے گا کس کی مجال ہوگی کہ اللہ کے سامنے کسی مُشرک کی سفارش کرے. ابھی سانس چل رہی ہے یعنی مہلت باقی ہے -اس سے پہلے کہ سانس رُکے اللہ کے قُرآن کو مُکمل دین مان کر توحید کا راستہ پکڑ لیں-