فكر ونظر
زرعی معاشروں كی خصوصيت
رؤف كلاسرا
’’زرعی معاشروں کے لوگ جہاں سر سبر زمینں ہوں، چار موسم ہوں، سات دریائوں کی دھرتی ہو، اناج کی وافر فراہمی ہو، قناعت پرستی عام ہو، چٹنی پیاز یا نمک مرچ ساتھ بڑی خوشی ساتھ کھانا کھایا جاتا ہو، وہاں اس طرح زندگی مشکل سخت یا تلخ نہیں ہوتی جیسے پہاڑوں، صحرائوں یا سرد خطے کے لوگوں کو زندہ رہنے کے لیے روز جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے وہ قومیں یا حملہ آور جو دنیا پر حملہ آور ہوئیں اور فتح کیا وہ ساری نہیں تو زیادہ تر صحرائوں، پہاڑوں یا سرد خطوں سے تھیں۔ ہندوستان پر یہی الزام لگتا ہے یہاں کی قومیں بزدل تھیں، لڑاکی نہیں تھیں۔ انہوں نے ہندوستان سے باہر نکل کر دوسروی قوموں پر حملے نہیں کیے۔ ان کے بچے عورتیں غلام اور مرد قتل نہیں کیے، سونا جواہرات یا کوہ نور ہیرا نہیں لوٹا، وجہ وہی تھی کہ سات دریائوں کے کنارے کی تہذییوں کو اس کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کہ سب کچھ وافر تھا۔ اناج تھا۔ موسم تھے۔ عیاشی تھی۔ آرام تھا، پتہ تھا ہر تین ماہ بعد نئی فصل اگ ائے گی جس کا انتظار وہ میلوں ٹھیلوں، گائوں کی چوپال، ڈھول کی تھاپ پر جھمر مار کر کرتے تھے۔ اس خطے کے لوگوں کو کسی کام کی جلدی نہ تھی ( ماسوائے شادیاں کرنے کے) لہذا ہمارے مزاج میں وہ صدیوں سے سستی کہہ لیں یا دریائوں کی بدولت اناج کی خوشحالی کہہ لیں ہم زیادہ ایڈونچر، مار دھاڑ ، وقت کی پابندیاں یا دوسری قوموں پر دور جا کر حملوں سے دور رہے۔ زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے ساتھ ان قوموں نے ڈنڈے سوٹے سے لڑ کر کام چلا لیا یا ہاتھیوں کو شراب پلا کرمخالف فوج پر چھوڑ دیا
یہ وقت کی پابندی بھی مغربی معاشروں میں صنعتی انقلاب کے بعد کا کام ہے جب مل مالکان کو ورکرز وقت پر فیکٹری میں درکار تھا۔ پھر کاروبار پھیلے، صنعتی انقلاب نے ان معاشروں کو وقت کا پابند بنایا۔ ہمارے خطے میں نہ صنعتی انقلاب آیا نہ ہی ہمیں وقت کی پابندی کی سمجھ آئی۔ ہمارے پاس گھڑیاں بھی ابھی کچھ برسوں پہلے عام ہوئیں ورنہ سورج کے ابھرتے ڈھلتے سائے دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا تھا کہ اب دن کا کون سا پہر تھا۔ اس لیے یہ سب باتیں ہمارے مزاج میں صدیوں سے اب ڈی این اے کی شکل اختیار کر چکی ہیں اور وہ اسانی سے نہیں بدلیں گی۔ صنعتی اور ہمارے جیسے زرعی معاشرے کی عادتیں، خصلتیں الگ الگ ہوتی ہیں۔ ڈی این اے تک الگ ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں وقت ہی سب سے بڑی عیاشی ہے جسے خرچ یا ضائع کر کے ہم چس لیتے ہیں۔ ہمیں سکون ملتا ہے ۔ ہماری صدیوں پرانی ٹھرک پوری ہوتی ہے۔ اس لیے بے چاری ہماری بھینس کو الزام نہ دیں۔ میں خود بچپن سے بھینس کا دودھ پی کر بڑا ہوا ہوں۔‘‘