فكرو نظر
کیا سلاطین عثمانیہ نے پرنٹنگ پریس پر پابندی لگائی؟
ڈاکٹر ساجد علی
فیض صاحب کا ایک مصرع ہے:یہ ہمیں تھے جن کے لباس پر سر رہ سیاہی لکھی گئی-
سیاہی ملنے کا یہ کام غیروں یا مخالفوں کی طرف سے ہونا تو بنتا ہے لیکن خواہ مخواہ کہیں بھی پڑی سیاہی کو اٹھا کر اپنے منہ اور دامن پر مل لینا کوئی اچھی بات نہیں۔ آج کل نوحہ گران ملت کی طرف سے بالتکرار ایک بات کہی جا رہی ہے کہ ترک سلاطین نے اپنی تنگ نظری اور مذہبی تعصب کی بنا پر پرنٹنگ پریس لگانے کو جرم قرار دیا تھا اوراس کی سزا موت مقرر کی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بات کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں کہ عثمانی سلاطین نے پرنٹنگ پریس پر کبھی پابندی عاید کی تھی۔ متعدد جدید محققین کے نتائج تحقیق یہی ہیں کہ ان فرامین کی کوئی دستاویزی شہادت دستیاب نہیں ہو سکی۔ یہ چند یورپی سیاحوں کا وضع کردہ افسانہ ہے جس کا امر واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ابتدا ہی میں اس بات کی وضاحت کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا مقصد عثمانی سلاطین کا دفاع کرنا نہیں اور نہ مجھے اس کام سے کوئی دلچسپی ہے۔ میرا مقصد کسی دعوے کے حق میں پیش کی جانے والی شہادت کے معیار کو پرکھنا ہے کیونکہ برٹرینڈ رسل کے بقول شہادت یا استدلال کو پرکھنے کی صلاحیت پیدا کرنا برداشت اور رواداری کے فروغ کے لیے بہت ضروری ہے۔ترکوں کے پرنٹنگ پر پابندی عاید کرنے کی بات شاید سب سے پہلے فرانس کے فرانسسکن پادری آندرے توت (1502-90 ) نے بلا حوالہ کی تھی کہ سلطان بایزید ثانی نے 1483 میں سزائے موت کا اعلان کیا اور اس کے بیٹے سلیم اول نے 1515 میں اس کی توثیق کی تھی۔ اس پر بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ کیا یہ فرمان صرف مسلمانوں کے لیے تھا یا تمام شہریوں کے لیے تھا؟ تمام شہریوں کے لیے تو ہو نہیں سکتا کیونکہ اس عرصے میں یہودی اور مسیحی اپنی کتابیں طبع کر رہے تھے۔
ترکی میں یہودیوں کی آمد 1492 میں شروع ہوئی تھی جب انھیں سپین سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ وہ اپنے ساتھ پرنٹنگ پریس سمیت بہت سی نئی ٹکنالوجی بھی لائے تھے۔ اس لیے یہودیوں کی آمد سے نو سال قبل ہی پابندی عاید کرنا ناقابل فہم ہے۔ مزید براں آندرے توت نے جس فرمان کا ذکر کیا ہے اس میں بھی پریس میں چھپی ہوئی کتابوں کے استعمال سے منع کیا گیا ہے نہ کہ کتابوں کو طبع کرنے سے۔ عربی، فارسی یا ترکی زبان میں اس وقت تک کوئی کتاب چھپی ہی نہیں تھی جس کے استعمال سے منع کیا جاتا۔ عربی ٹائپ میں طبع ہونے والی اولین کتاب کا سن اشاعت 1514 ہے۔ یہ مختصر رسالہ تھا جو مصر کے یعقوبی نصرانیوں کو رومن کیتھولک چرچ کے ساتھ اتحاد کی جانب مائل کرنے کے لیے شائع کیا گیا تھا، جس سے مسلمانوں کو نہ کوئی دلچسپی ہو سکتی تھی نہ کوئی خطرہ محسوس ہو سکتا تھا۔اس کے برعکس کاونٹ لوئیجی فرنانڈو مارسیگلی ( 1685-1730 ) نے، جس کا ترکوں سے بہت قریبی تعلق رہا تھا، عثمانیوں کے طباعت، اشاعت کو قانوناً ممنوع قرار دینے کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے لکھا تھا۔ “یہ درست ہے کہ ترک اپنی کتابوں کی طباعت نہیں کرتے لیکن اس کا یہ سبب نہیں، جیسا کہ خیال کیا جاتا ہے، کہ انھیں حکماً طباعت سے منع کیا کیا گیا ہے یا ان کے پاس لائق طباعت کتابیں ہیں ہی نہیں۔” مارسیگلی نے اپنے اسفار کے دوران میں چھ سو سے زیادہ مشرقی مخطوطات جمع کیے، وہ پرنٹر بھی تھا اور میڈیچی اوریئنٹل پریس کے ساتھ وابستہ تھا۔ لیکن مارسیگلی کی یہ تردید بے سود رہی کیونکہ دوسرا خیال قبول عام کا درجہ حاصل کر چکا تھا اور اس وقت سے لے کر بیسویں صدی میں برنارڈ لوئس تک اس کا اعادہ کرتے رہے ہیں۔ جدید ترکی اور عرب دنیا سے تعلق والے مصنفین اپنے اپنے مقاصد کے تحت برنارڈ لوئس کی اتھارٹی پر اس کی تکرار کیے جاتے ہیں۔
اٹلی میں سن 1514 میں پہلی بار عربی حروف میں کتاب شائع کی گئی تھی جس کا ٹائپ کافی بھدا تھا۔ اس کے بعد سن 1584 میں فلورنس میں میڈیچی اورئینٹل پریس قائم کیا گیا جو 1614 تک کام کرتا رہا۔ اس کا ٹائپ کافی بہتر تھا۔ اس پریس میں پہلی بار 1591 میں چاروں انجیلوں کو عربی زبان میں طبع کیا گیا۔ ابن سینا کی کتاب القانون فی الطب 1593 میں چھاپی گئی اور اس کے بعد اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ 1994 میں اقلیدس کی کتاب کا وہ ایڈیشن شائع کیا گیا جو نصیر الدین طوسی نے عربی میں تیار کیا تھا۔
چنانچہ کسی ترک سلطان کا جو اولین فرمان ملتا ہے مراد ثالث کا 1588 میں جاری ہونے والا اجازت نامہ ہے جو دو یورپی تاجروں کو میڈیچی پریس کی عربی میں شائع ہونے والی کتابوں کی سلطنت عثمانیہ میں فروخت کی اجازت دیتا ہے۔ یہ فرمان اقلیدس کی کتاب کے عربی ترجمے کی اشاعت کے ساتھ طبع کیا گیا تھا۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ میڈیچی پریس کی طبع کردہ کتابیں ہی شہنشاہ جلال الدین اکبر کے دربار میں پیش کی گئی تھیں جن کو دیکھ کر اس نے پرنٹنگ پریس لگانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ظاہر ہے اس وقت جو ٹائپ استعمال کیا جا رہا تھا وہ کتابت کے مقابلے میں دیدہ زیب نہیں تھا۔ شہنشاہ اکبر کا دوسرا اعتراض یہی تھا کہ اس سے کاتب بے روزگار ہو جائیں گے۔ ترکی میں بھی کافی دیر تک کاتبین کی جماعت پریس کے خلاف مزاحمت کرتی رہی اور یہ سلسلہ ہر نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ آج تک جاری ہے۔
ترکی میں سلطان مراد کے اجازت نامہ کے بعد یورپ میں شائع ہونے والی کتابوں کی کھپت کافی بڑھ گئی تھی۔ دو صدیوں بعد ابراہیم متفرقہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ یورپ سے شائع ہونے والی عربی، فارسی اور ترکی کتابوں کی طلب بہت بڑھ چکی ہے۔دوسرا فرمان 1727 کا سلطان احمد کا ہے جس میں ابراہیم متفرقہ کو پریس لگانے اور کتابیں طبع کرنے کی اجازت عطا کی گئی ہے۔ اس نے 1729 میں پہلی کتاب جو دو جلدوں میں شائع کی وہ ترکی۔عربی کی لغت تھی۔ اس کتاب میں اس نے سلطان کا فرمان بھی شائع کیا تھا۔ متفرقہ کا لگایا ہوا یہ پریس کسی مخالفت کی بنا پر نہیں بلکہ اس کی وفات کی وجہ سے بند ہوا تھا۔
اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ترکوں نے پرنٹنگ پریس پر پابندی عاید نہیں کی تھی البتہ اس کو تاخیر سے ضرور اپنایا تھا اور ابتدا میں مذہبی کتابوں کی طباعت پر پابندی ضرور عاید کی تھی۔ اب دو سوالات سے تعرض کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ پریس کو اپنانے میں تاخیر کے کیا اسباب تھے اور مذہبی کتب کی طباعت کو کیوں منع کیا گیا۔اہل یورپ نے بالعموم ایک سبب یہ بیان کیا ہے کہ مسلمان یورپ میں ایجاد ہونے والی اشیا کو ناپسند کرتے اور ان کے بارے میں تعصب برتتے تھے۔ اس کے علاوہ علما کے فتوے بھی جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی راہ میں رکاوٹ بنتے تھے۔ کیا یہ حقیقت ہے؟
فرانسس بیکن نے تین نئی اختراعات،پرنٹنگ، گن پاوڈر اور کمپاس، کو بہت بنیادی قرار دیا تھا جو دنیا کو مکمل طور پر بدل دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے گن پاوڈر اور کمپاس کو تو مسلمانوں نے فوراً اپنا لیا تھا، جب کہ پرنٹنگ میں ضرور کچھ تاخیر ہوئی۔ دو ایجادات کو اپنانے سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پرنٹنگ کو رواج نہ دینے کا سبب تعصب نہیں ہو سکتا۔سولھویں صدی کے ایک یورپی سیاح نے لکھا کہ دنیا کی کوئی قوم ایسی نہیں جو ترکوں سے بڑھ کر غیر ملکی مصنوعات کو اپنانے کی شائق ہو اورمسیحیوں کے بنائے ہوئے اسلحہ جات اور توپوں اور بندوقوں کو استعمال کرنا اس کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ تاہم ان کو پرنٹنگ پریس لگانے یا پبلک مقامات پر گھڑیال نصب کرنے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا۔ پرنٹنگ پریس کے خلاف ان کی دلیل یہ ہے کہ مقدس متون طباعت کے بعد اپنا تقدس کھو بیٹھیں گے، اور گھڑیال نصب کرنا موذن کے کام میں مداخلت ہو گی۔علما نے فتوے ضرور دیے ہوں گے لیکن ان کے فتوے کبھی بھی درآمدات کی راہ میں حائل نہ ہو سکے۔ جنگی ہتھیاروں کی درآمد سے لے کر تمباکو اور کافی تک، حتی کہ شراب تک یورپیوں سے خریدی جاتی رہی۔ مسلم سلاطین کے دربار میں علما کو کبھی اتنا اثر و رسوخ حاصل نہیں رہا کہ وہ پالیسی سازی پر اثر انداز ہو سکتے۔ ان کے فتاوی اکثر و بیشتر سلاطین کی مرضی کے تابع ہوتے تھے۔اصل بات یہ ہے کہ عثمانیوں کا کسی نئی ٹیکنالوجی کو اپنانے یا رد کرنے کا فیصلہ اس کی افادیت پر مبنی ہوتا تھا۔ پرنٹنگ پریس اور گھڑیال کوئی ایسا کام نہیں کرتے تھے جو پہلے ہی سے موثر طور پر نہ کیا جا رہا ہو۔ پرنٹنگ پریس کا صرف یہ فائدہ دکھائی دیتا تھا کہ اس سے مختصر وقت میں ایک کتاب کی بہت زیادہ کاپیاں تیار کی جا سکتی تھیں۔ لیکن اگر صرف استنبول شہر میں درجنوں کی تعداد میں کاتب موجود تھے جو ہمہ وقت کتابوں کی نقول تیار کرنے میں مصروف تھے، تو پھر ان کی طباعت کی کیا ضرورت تھی۔ یہی حال آگرہ کا تھا۔ اگر ابوالفضل اور فیضی کو مطالعہ کے لیے اپنی من پسند کتاب حسب منشا دستیاب تھی تو ان کے لیے پریس کی چھپی ہوئی بدنما کتاب کی کوئی خاص افادیت نہیں تھی۔عثمانی سلاطین ہوں یا اکبر جیسا روشن خیال اور وسیع الظرف شہنشاہ، ہم ان کے بارے میں یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ پرنٹنگ پریس کو رد کرکے انھوں نے زیادہ دور اندیشی کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن ان کے فیصلے کو کسی قسم کے تعصب پر مبنی قرار دینا زیادتی ہو گی۔اس بات کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے کہ پرنٹنگ پریس کو تمدنی تبدیلی کا ذریعہ قرار دینا بہت بعد کی بات ہے۔ انیسویں بلکہ بیسویں صدی میں پرنٹنگ پریس کی افادیت اور اس کے ہمہ گیر تعلیمی اور ثقافتی اثرات کے متعلق جن خیالات نے جنم لیا ہے ان کا پندرھویں اور سولھویں صدی پر اطلاق کرنا درست نہیں ہو گا۔
گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں امریکہ میں الزبیتھ آئزن سٹائن نے پریس پر اپنے مطالعات پیش کرنا شروع کیے۔ ازاں بعد 1979 میں اس کی کتاب دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ چار برس بعد اس کی ایک جلد میں تلخیص بھی شائع ہوئی۔ آئزن سٹائن نے پریس کو ایک نئے دور کا پیغامبر قرار دیا بلکہ ٹامس کوہن کی مشہور زمانہ اصطلاح پیراڈائم شفٹ استعمال کرتے ہوئے اسے ایک بنیادی انقلابی تبدیلی قرار دیا، جس نے یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک کو توانائی بخشی، سائنس کو مستحکم کیا اور یورپ کو معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا۔ پریس کی ایجاد نے کتابوں کے مصدقہ متون کو رواج دیا۔
اب بہت سے مورخین آئزن سٹائن کے دعووں سے اختلاف کرتے ہوئے انھیں مبالغہ آرائی پر مبنی قرار دیتے ہیں کیونکہ تاریخی شواہد ان دعووں کی تائید نہیں کرتے۔دورپ میں بھی ایسا نہیں ہوا کہ پرنٹنگ پریس آیا اور چھا گیا، اس کو سب نے بلاتردد قبول کر لیا اور طباعت نے کتابت کو فی الفور حتمی شکست سے دوچار کر دیا ہو۔ پریس کو اپنی حتمی فتح کے لیے وہاں بھی کوئی تین سو سال تک انتظار کرنا پڑا تھا۔ پھر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ پریس جو کچھ چھاپ رہا تھا اس کی علمی وقعت اور افادیت کیا تھی؟ اٹھارویں صدی میں یورپ میں 500 کتب خاںوں کے کیٹلاگ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلا کہ صرف روسو کی ایک کتاب سوشل کنٹریکٹ تھی جو کسی اہمیت کی حامل تھی۔ باقی سب ردی مال ہی تھا۔ یورپ میں بھی پریس نے آہستہ آہستہ ہی ترقی کی تھی۔کچھ یورپی مصنفین نے یہ دعوی کیا ہے کہ مسلمان مذہبی بنیادوں پر پریس کو اپنا ہی نہیں سکتے تھے کیونکہ ان کا مذہب بنیادی طور پر زبانی روایت پر انحصار کرتا ہے۔ لہٰذا پریس سے احتراز کرنا محض تاریخی اتفاق یا حادثہ نہیں تھا۔ اس دعوے کا جواب کسی قدر تفصیل کا تقاضا کرتا ہے اس لیے اس کو آئندہ کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔یہ تحریر کسی ذاتی تحقیق کا نتیجہ نہیں بلکہ اسے بس حاصل مطالعہ سمجھا جائے۔ اس میں بطور خاص ان دو مضامین سے استفادہ کیا گیا ہے۔
Dana Sajdi, “Print and Its Discontents: A Case for Pre-Print Journalism and Other Sundry Print Matters, The Translator15, Number 1 (2009)
Kathryn A. Schwartz, “Did Ottoman Sultans Ban Print?”, Book History 20 (2017)