اصلاح و دعوت
مذہبی حلیہ کسی کے اچھے ہونے کا معيار ہرگز نہیں ہے
منصور نديم
ایک اسرائیلی روایت ہے کہ ایک چڑیا پیاسی تھی اور وہ پانی کی تلاش میں تھی، اڑتے اڑتے اس نے پانی کا تالاب دیکھا، لیکن وہاں قریبی گاؤں سے عورتوں اور بچوں کا مجمع لگا ہوا تھا، تو چڑیا نے سوچا کہ اسے اس وقت تک انتظار کرنا چاہئے، جب تک لوگ نہ چلے جائیں، تاکہ کسی بچے کو تکلیف نہ پہنچے، جب وہاں موجود لوگ چلے گئے تو اس نے دیکھا کہ ایک نیک اور پرہیزگار چہرے پر داڑھی والا شخص تالاب پر آیا۔ چڑیا نے سوچا، اس آدمی کی لمبی داڑھی ہے، اور وہ متقی اور عبادت گزار لگتا ہے، کیونکہ اس کے ماتھے پر ایک بہت بڑا محراب کا نشان بھی تھا، تو گمان اسے دیکھ کر یہی بنا کہ یقینا پانی پیتے وقت اگر وہ مجھے دیکھے گا تو وہ مجھے تکلیف نہیں پہنچائے گا۔۔
لیکن جب چڑیا پانی پینے کے لیے نیچے تالاب کے پاس گئی تو ایک پتھر اسے آن کر لگا اور جس سے اس کی آنکھ پھوٹ گئی، وہ شدید غم و غصہ اور زخمی حالت میں اڑ کر حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس گئئ اور انصاف مانگا کہ دیکھیں اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں پہنچ کر چڑیا نے جب اپنا قصہ سنایا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا ک اس داڑھی والے شخص کو گرفتار کر کے لے آئیں۔ جب وہ آدمی گرفتار کرکے لایا گیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے انہیں حکم دیا کہ اس کی آنکھ پر بھی اسی طرح پتھر مارو جس طرح اس نے چڑیا کی آنکھ پر مارا تھا، لیکن چڑیا نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہا: اس کی آنکھ نہ ضائع کی جائے، اس کی آنکھ کے جانے سے میری تکلیف کم نہیں ہوگی، لیکن اس کی داڑھی کاٹ دو جس کی وجہ سے مجھے دھوکہ ہوا۔ جس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ وہ ایک نیک آدمی ہے۔اور یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔
ریفرنس: حالیہ موضوعات پر اسرائیلی ویب سائٹس پڑھ رہا تھا تو یہ اسٹوری وہاں دیکھی، یہ ان کی مذہبی اسٹوری ہے، اسی نسبت سے آپ اسے اسرائیلی روایت مان سکتے ہیں، مزید کہ یہاں داڑھی کا ذکر ہے تو جان لیں کہ روایت پسند صیہونی بھی داڑھی لازم رکھتے ہیں۔
بات یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہماری سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ ہم عموما حلیوں سے لوگوں کے لئے رائے بنا لیتے ہیں، مطلب داڑھی والے، شلوار گھٹنے کے قریب یا باپردہ خواتین ہوں گی تو وہ لازمی متقی، نیک ہوں گے، ان کے اخلاقیات یا معاشرت کیسی ہے، انہیں سمجھے بغیر ہم انہیں فرشتہ بنا لیتے ہیں۔ ہم شکل و صورت اور میٹھی مذہبی گفتگو سے آسانی سے دھوکہ کھا جاتے ہیں۔ ہم نے ظاہری شکل میں مذہب کا مکمل خاکہ قبول کیا ہوا ہے اور ہم بھول جاتے ہیں کہ ظاہری شکل اکثر دھوکہ دیتی ہے۔ اسلام صرف مساجد میں جانا اور رمضان کے روزے رکھنا اور داڑھی رکھنا ہی نہیں بلکہ احسن اخلاق بھی ہے۔ اکثریت لوگ صرف حلیہ اختیار کرتے ہیں اور وہ معاشرت کے لئے شدید ترین نقصان دہ طبقات ہوتے ہیں جو اس حلئے کو اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرکے اس کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ایک روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت میں بطور حاکم ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جو ان کے پاس کسی کی گواہی دینے کے لئے آیا تھا، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ضامن کے حوالے سے لوگوں سے پوچھا کہ کیا کوئی اس ضامن کی گواہی دے سکتا ہے۔ ایک آدمی نے ان سے کہا: اے امیر المومنین! میں اس کی ضمانت دیتا ہوں۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے پوچھا: کیا تم اس کے پڑوسی ہو؟، اس نے کہا، نہیں، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اگلا سوال پوچھا: کیا تم نے اس کے ساتھ کاروبار یا معاملات برتے ہیں ؟ اس شخص نے کہا: نہیں ۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے پھر پوچھا: کیا تم نے اس کے ساتھ سفر کیا اور گھر سے دور رہنے سے آدمی کے معاملات کو جانا-اس شخص نے کہا : نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے کہا: شاید تم نے اسے صرف مسجد میں آتے جاتے ہوئے، اور نماز پڑھتے دیکھا ہو؟ اس شخص نے کہا ؛ جی ہاں۔ بس میں نے مسجد میں ہی دیکھا ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، چلے جاؤ، تمہاری گواہی ہرگز قبول نہیں ہے کیونکہ تم اسے نہیں جانتے۔
" شرح زاد المستقنی، جلد 65، صفحہ 3 (عربی)
سوچ لیں آپ صرف حلیوں اور عبادت سے لوگوں کو متقی اور ایماندار سمجھتے ہیں ، حالانکہ یہ میزان انتہائی کمزور ہے۔