دين و دانش
ایک ہی سفر میں کئی عمرے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت
شاہ خان
1۔ ہمارے ہاں( انڈیا وپاکستان کے مسلمانوں میں) حج اور عمرے کے ایک ہی سفر میں ایک سے زیادہ عمرے کرنے کا رواج بہت عام ہو گیا ہے۔ جس کے لئے معتمرین حضرات مکہ سے میقات( بالخصوص مسجد تنعیم یا مسجد عائشہ جعرانہ ) تک جاتے ہیں اور وہاں سے دوسرے، تیسرے عمرے کی نیت کرکے ایک سے زیادہ عمرے کرلیتے ہیں۔ ایک ہی سفر میں ایک سے زیادہ عمرے کرنے کا یہ عمل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کے عمل کے خلاف ہے۔
2۔ اصل میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کا عمل اپنےشہر سے عمرے کی نیت کرنے کی ایک ہی سفر میں صرف ایک ہی عمرے کا ہے۔ ایک ہی سفر میں دوسرے عمرے کے لئے میقات تک واپس جانا اور عمرہ کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا نہ عمل ہے اور نہ ان سے ثابت۔ اپنے سفر حج میں اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وجہ سے مکہ میں رک گئے تھے۔ اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرہ عمرہ نہیں کیا۔
3۔ بظاہر لوگ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسجد تنعیم تک جانے اور وہاں سے عمرے کی نیت کرکے عمرہ کرنے سے ایک ہی سفر میں ایک سے زیادہ عمروں کا جائز اور مستحب ہونا ثابت سمجھ لیتے ہیں۔ لیکن انکا اسطرح عمرہ کرنا کوئی عام عمل نہیں تھا اور نہ وہ دوسرا عمرہ تھا۔ اصل بات یہ تھی کہ بیماری کی وجہ سے جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا حج نہیں کرسکی۔ تو انہوں نے اپنی پریشانی کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا. انکی اداسی دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو مسجد تنعیم تک جانے اور وہآں سے عمرہ کی نیت کرکے عمرہ کرنے کی اجازت دی۔ لہذا یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا دوسرا نہیں بلکہ پہلا عمرہ تھا۔ اس وجہ سے ان کے عمل سے ایک ہی سفر میں دوسرے عمرے کے لئے دلیل پکڑنا صحیح نہیں۔
4۔ ایک ہی سفر میں ایک ہی عمرے کی ادائیگی کا سنت اوربہتر ہونا اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ انکے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو مسجد تنعیم تک بھیجاتھا۔ لیکن ادھر جانے کے باوجود حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر نے دوسرا عمرہ نہیں کیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس طرح عمرہ کرنا کوئی عام حالات میں فعل نہیں تھا بلکہ انکی مجبوری کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص اجازت کے تحت تھا۔ ورنہ اس طرح دوسرا عمرہ بہتر ہوتا تو عبدالرحمن رضی اللہ عنہ جو ان کے ساتھ گئے تھے وہ بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، کے ساتھ عمرہ کرلیتے۔ ایک اہم بات یہ بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ یہ تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس سفر میں پہلا عمرہ تھا۔ تو ان کا یہ عمل دوسرے اور تیسرے عمرے کے لئے کیسے دلیل بن سکتا ہے؟ ۔ صحابہ کرام کے درمیان تو یہ بات بھی زیر بحث آئی تھی کہ ایک سال میں کیا دو عمرے ہوسکتے ہیں؟ یہ بات بھی اس کا ثبوت ہے کہ ایک سفر میں دوسرے عمرے کی نیت سے مکہ سے میقات تک واپس جانا اور دوسرہ عمرہ کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا عمل نہیں تھا۔
5۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے عمل کے برخلاف دین میں اس طرح سے چیزیں داخل کرنا اور اسے نیکی اور ثواب کا باعث سمجھنا ایک خطرناک رجحان کا عکاس ہے۔