دين و دانش
مرزا قاديانی اور موجودہ قاديانی
رضوان خالد
مرزا غُلام احمد قادیانی کی تصانیف پڑھنے اور انکی تحریروں اور شخصیت میں سینکڑوں تضادات دیکھنے کے بعد بھی میں اس بات کا فیصلہ نہیں کر پایا ہُوں کہ مرزا قادیانی اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے جن خیالات کو اللہ کی جانب سے الہام سمجھتے تھے آیا اُنکے اس وہم کا سبب اُنکا کوئی ذہنی مرض تھا یا شیطان نے اُنہیں یہ باور کروایا کہ وہ اللہ سے ہم کلام ہوتے ہیں, مرزا قادیانی کی آخری دوسال کی تحریروں سے البتّہ یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اُنکا اپنی نبُوّت کا وہم نہ صرف متزلزل ہو چکا تھا بلکہ وہ اپنے دعویٰ جات سے پسپائی اختیار کر کے واپِس اسلام میں داخل ہونا چاہتے تھے. لیکن وہ پہلے ہی اسلام کے بُنیادی عقائد سے مُتضاد اتنا کُچھ لکھ چکے تھے کہ ایک تو اپنے سبھی دعوی جات کا توڑ اُنکے لیے ممکن نہ ہُوا ,دوسرے اُنکی انا ,خاندان اور فالوورز نے اُنہیں کھُل کر ایسا کرنے نہ دیا, ورنہ وہ محمدی بیگم سے نکاح کے حوالے سے کی گئی اپنی پیشین گوئیوں کے انجام کے ساتھ ہی اپنے ہی دعوۂ نبُوّت میں اپنا یقین متزلزل کر چُکے تھے۔
میں قادیانیت پر اپنے زیرِ تکمیل پیپر کے آخر میں مرزا غُلام احمد قادیانی کی آخری سالوں میں لکھی ہوئی تحریروں سے چند اقتسابات پیش کرونگا جنمیں مرزا صاحب کھل کر اس بات کا اشارہ دیتے نظر آتے ہیں کہ انکا اپنے مبیّنہ الہامات سے یقین اُٹھ گیا تھا۔مسلمان عُلماء سے لڑنا جھگڑنا تو انہیں تازہ دم کردیتا تھا البتہ محمدی بیگم اور خدائی کے دعوے دار پِگٹ نامی انگریز کے معاملوں میں اُنکی پیشین گوئیوں کے جھوٹ ثابت ہونے نے اُنکا اپنے الہام پر یقین توڑ دیا تھا اور پھر اپنی زندگی کے آخری روز اُنہیں اپنے الہاموں کے جھوٹ ہونے کا ثبوت بھی مل گیا جسکا اُنہوں نے اظہار بھی کردیا جسے اللہ نے مرزا صاحب ہی کے الفاظ میں قادیانیت کے نصاب میں محفوظ بھی کروا دیا لیکن شاید ابھی تک کسی سکالر نے اُن الفاظ پر باقائدہ غور نہیں کیا۔اگر آپ مرزا صاحب کے بعد قادیانی جماعت کی جانب سے لکھی جانے والی سیرتِ مہدی میں انکے آخری الفاظ پڑھیں تو علم ہوگا کہ مرزا صاحب جان گئے تھے کہ وہ حق پر نہیں تھے۔
یاد رہے کہ انہوں نے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں دعا کی تھی کہ اُن میں اور مولانا ثناءاللہ میں سے جو جھوٹا ہو وہ دوسرے کی زندگی میں کالرا سے مرے۔ اپنی زندگی کے آخری دن جب اُنہیں علم ہوا کہ اُنہیں یہی بیماری ہو گئی ہے تو انہوں نے اپنی بیوی سے کہا ''یہ وہی ہے جو میں کہتا تھا۔''انکی سادہ لوح بیوی نے یہ الفاظ سیرتِ مہدی نامی کتاب میں لفظ بلفظ نقل کروا دیے- یہ کتاب آج بھی مرزا قادیانی کی حدیث کی کتاب کے طور پر ہر قادیانی کے گھر میں موجود ہے۔ مرزا قادیانی کا اپنی بیماری سے مُتعلق جانتے ہی یہ الفاظ کہنا ظاہر کرتا ہے کہ اپنے آخری لمحات میں اُنہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ اُنہیں شیطان نے بہکا کر اللہ پر جھوٹ باندھنے پر مجبور کیا ہے تبھی اُنہیں وہی مہلک بیماری آ لگی ہے جسکے جھوٹے کو لگنے کو وہ اپنی سچائی یا جھوٹ کا پیمانہ بتاتے رہے تھے۔ اسی پس منظر میں انہوں نے اپنی بیماری کا جانتے ہی اپنی بیوی سے یہ الفاظ کہے۔یاد رہے کہ مرزا قادیانی کی موت کے وقت انکے وہ تمام مخالفین زندہ تھے جنہیں مرزا صاحب اسی بیماری میں اپنی زندگی میں نہ صرف مرنے کی خبریں اور بد دعائیں دیا کرتے تھے بلکہ یہ بھی لکھتے تھے کہ جو جھوٹا ہوگا سچے کی زندگی میں کالرا نامی بیماری سے مرے گا۔ انکے اپنے مخالفین کے خلاف چھپوائے گئے یہ سب اشتہارات آج بھی مجموعۂ اشتہارات نامی کتاب میں موجود ہیں۔ ۔ ایک لمحے کو میں مان بھی لُوں کہ مرزا صاحب کسی ذہنی بیماری کے باعث غلط فہمی میں اُلٹے سیدھے دعوے کر بیٹھے ,لیکن یہ بات سچ ہے کہ انکے فالوورز کے سامنے تو اس صدی میں انکی حقیقی تصویر موجود ہے جو پہلوں کے پاس کمیونیکیشن کی راہ میں عصری رکاوٹوں کی وجہ سے نہ تھی۔ یہ تو مرزا صاحب کی شخصیت اور دعوں میں موجود سینکڑوں تضادات اپنی ہی کتابوں میں دیکھ اور پرکھ سکتے ہیں۔انہیں تواپنے بزرگوں کے برعکس موجودہ صدی میں ہر وہ سہولت موجود ہے جسکے ذریعے یہ جان سکیں کہ اسلام اور قادیانیت دو الگ اور متضاد عقائد والے مذاھب ہیں. لیکن یہ فقط اپنی سماجی مجبوریوں اور انا کے باعث قادیانیت نامی اس کَلٹ میں موجود ہیں جو مذھب سے زیادہ ایک فیملی کا ملٹی نیشنل کاروبار ہے۔ تبھی میں سمجھتا ہُوں کہ مرزا قادیانی کو ذہنی بیماری کے شک کا فائدہ دے بھی دیا جائے تب بھی موجودہ قادیانیوں کو یہ فائدہ نہیں مل پائے گا ۔