دين و دانش
ہر شخص اپنا مقصد تخليق كيسے معلوم كرے؟
طفيل ہاشمی
ہر شخص اپنے بارے میں اپنا مقصد تخلیق کیسے معلوم کرے ؟شاید آپ نے سنا ہو کہ اللہ نے انسانوں اور جنات کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا-قرآن میں یہی مقصد تخلیق بتایا گیا ہے-ہم سوچتے ہیں کہ یہ تو بہت مشکل کام ہے-کتنا وقت کوئی عبادت کر سکتا ہے-اس کی عملی تعبیر میں لوگوں نے بے حساب پریشاں گوئی کی ہے-آئیے جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے-ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے
حالانکہ یہ بہت آسان کام ہے-آئیے ایک دو مثالوں سے سمجھتے ہیں-
ایک مرد اور عورت جب رشتہ ازدواج میں منسلک ہوتے ہیں تو کس مقصد کے لیےتاکہ دونوں اپنی جنسی ضرورت ایک دوسرے کے ذریعے پوری کریں-ایسا عمر کے ایک خاص حصے میں اور کبھی کبھی ہوتا ہے لیکن وہ ہمہ وقتی ایک دوسرے کو میسر رہتے ہیں اور رشتہ ازدواج سے وابستہ-پس ان میں سے ہر ایک پوری زندگی اس تعلق کے مقصد کو پورا کر رہا ہے.-یا ایک فرد فوج میں بھرتی ہوتا ہےاس کا مقصد ملک کا دفاع ہے، اس کی وہ تربیت حاصل کرتا ہے-عین ممکن ہے کہ اسے اپنی پوری سروس کے دوران کبھی جنگ کی نوبت نہ آئے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے اپنے فرائض ادا نہیں کئیے یا مقصد پورا نہیں کیا کیونکہ اس نے ان تمام سالوں میں اپنے آپ کو دفاع کے لئے مستعد رکھا-پس عبادت کا یہی مطلب ہے کہ ہم اپنے آپ کو جب، جس وقت، اللہ کا جو حکم ہو اسے بجا لانے کے لیے available رکھیں -امر واقعہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت خود اس کی رہنمائ کرتی ھے ۔آپ چند دن اطمینان سے اپنا داخلی اورخارجی تجزیہ کریں آپ کو اپنی صلاحیت دلچسپي اور وسائل ورجحانات کے حوالے سے خود معلوم ہوجائے گا کہ آپ کیا کر سکتے ہیں اسی کام کے آخری درجے کے حصول کو اپنا مقصد زندگی بنا لیں اوربس
انسان کی تخلیق کی تاریخ کا مطالعہ کریں، خواہ ایک انسان کے تخلیقی ارتقا کی سوانح پڑھیں، نظر آتا ہے کہ وہ الحی اور القیوم لمحہ بہ لمحہ الرحمن اور الرحیم کے جذبوں سےسرشار ہو کر انسان کو سینت رہا ہے. پہلے انسان کو زمین پر بھیجتے وقت اسے بتا دیا گیا تھا کہ میری طرف سے وقتا فوقتاً ہدایت کا نزول ہوتا رہے گا اور جو کوئی اس ہدایت کو مشعل راہ بنائے گا اسے ماضی کی واماندگیوں کا افسوس اور مستقبل کی ہولناکیوں کے اندیشے نہیں ہونگے.لیکن کتاب ہدایت میں اقوام و ملل کو ہدایت دی جا سکتی ہے. ہر فرد کو اپنے شبانہ روز کے معمولات میں، اپنی زندگی کے نشیب و فراز میں، اپنی معیشت کی تگ و تاز میں، اپنی سرگرمیوں اور دلچسپیوں کی حشر سامانیوں میں انفرادی رہنمائی کی بھی ضرورت ہوتی ہے. اس کا کیا انتظام ہے؟؟؟
رب علیم و قدیر ہر ہر فرد کو اس کے منتہائے کمال تک پہنچانا چاہتا ہے، جس کے لئے اس نے ہر فرد کی فطرت میں جذبہ پرواز رکھ دیا ہے. وہی جذبہ اور فطرت کی روشنی ہر فرد کو بتاتی ہے کہ اسے اپنے سفر زندگی کی بازی جیتنے اور بام عروج پر پہنچنے کے لیے کس شاہراہ حیات کو منتخب کرنا ہے. یعنی اس کی فطری صلاحیتوں کا عروج و ارتقا کس میدان عمل میں ہوگا. جو کارگہ حیات فطرت کے مطابق ہوتی ہے اسی پر سفر آسان ہوتا ہے اور ترقی کی ضمانت.-انسانوں نے اپنی کوتاہ نگہی کے باعث ہر دور میں ترقی کے کچھ راستے طے کئے ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ وہ خود اور ان کے بچے اسی شاہراہ پر چلیں جبکہ فطرت اس سے ابا کرتی ہے. جب کوئی فرد فطرت کے داعیہ کے برعکس سفر شروع کرتا ہے یا کسی دوسرے کو مجبور کرتا ہے تو قادر و قیوم ذات اسے بے مہار چھوڑ نہیں دیتی کہ جائے اور بھلے ناکام ہو جائے بلکہ اسے راہ راست پر لانے کے لیے جابجا ناکامیوں کی باڑ کھڑی کر دیتی ہے کہ شاید اسے احساس ہو جائے اور یہ واپس اس راہ پر آ جائے جس کے لئے اس کی تخلیق عمل میں آئی. -بچوں کو تعلیم کے ایسے شعبوں میں ڈال دیا جاتا ہے جو ان کی فطرت سے ہم آہنگ نہیں ہوتے اور ان کی ترقی کا میدان نہیں ہوتے. اس سفر میں ان کی راہ میں ناکامی کے کانٹے بکھرے ہوتے ہیں، اور اگر ہم اسی راہ پر چلنے پر اصرار جاری رکھیں تو ہماري ساری زندگی بے رونقی، عدم استحکام اور ترقی و خوش حالی سے دور گزر جاتی ہے، کیوں کہ ہم نے قدرت کے لطیف اشاروں کو اہمیت نہیں دی- اگر آپ کو ملازمت کے لئے پیدا نہیں کیا گیا اور آپ نے ملازمت میں اپنا مستقبل گزارنے کا فیصلہ کر لیا تو آپ کو سارے راستے جان لیوا جھٹکے لگتے رہیں گے جو آپ کو یاد کروانے کے لیے ہیں کہ آپ کے لیے کامیابی اور عزت کا مقام کسی دوسرے شعبے میں ہے.
آپ نے کاروبار کو منزل بنایا لیکن اس میں آپ کا مستقبل نہیں ہے تو بار بار آپ کو کاروباری نقصان کے ذریعے متنبہ کیا جائے گا کہ برخوردار، غلط وادی میں نکل آئے ہو، تمہارا مستقبل یہاں نہیں ہے-
ممکن ہے آپ کسی ایک ادارے یا ملک سے وابستہ ہو گئے ہوں اور قدرت نے آپ کا ارتقا بین الاقوامی سطح پر رکھا ہو، نہ کہ لوکل سطح پر. سمندروں کو کنوؤں میں بند کرنے سے دونوں کی تباہی یقینی ہوتی ہے-.
اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اس کا تعلق تعلیم یا روزگار سے ہی ہے اس کا تعلق زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملہ سے ہے. ممکن ہے کچھ لوگوں کو تعلیم کے بجائے کسی دوسرے کام کے لیے تخلیق کیا گیا ہو، ممکن ہے کہ آپ کو جیون ساتھی کوئی دوسرا راس آئے.-قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کی شاہراہ پر لگنے والے جھٹکے یہ بتانے کے لیے ہوتے ہیں کہ تھوڑی دیر رک کر از سر نو غور کرو کہیں ایسی راہ پر تو نہیں نکل آئے جو آپ کی منزل تک نہ جاتی ہو-تاہم یہ امر طے ہے کہ ہر فرد اللہ کا شاہکار تخلیق ہے اور وہ اسے کامیابی کے مینارہ عروج پر دیکھنا چاہتا ہے.-انسانی فطرت ہے کہ وہ مرنا نہیں چاہتا. جو لوگ ایسے موذی امراض میں مبتلا ہوتے ہیں جن سے کوئی جانبر نہیں ہو سکتا وہ بھی کوشش کرتے ہیں کہ جس طرح ممکن ہو زندگی کے شجرہءنا تراشیدہ سے جس قدر لمحات کشید کر سکتے ہوں کر لیں. ارباب وسائل لاکھوں اور کروڑوں خرچ کر کے کئی کئی فاضل پرزے لگوا کر طول عمر کا سامان کرتے ہیں حالانکہ ہر کسی کو پتہ ہوتا ہے کہ اس کوشش کے آخری سرے پر ہرکارہ پیام اجل لے کر کھڑا ہے.دنیا بھر کے انسان جس واحد حقیقت مطلقہ پر بالاتفاق یقین رکھتے ہیں وہ موت ہے کہ موت سے کس کو رست گاری ہےآج وہ کل ہماری باری ہے-اس حقیقت سے شناسا ہونے کا نتیجہ ہے کہ انسان نے زندہ رہنے کے ایک دوسرے طریقے کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا ہے اور وہ ہے اولاد کا حصول. نہ معلوم کیوں لیکن سمجھا جاتا ہے اور ہمیشہ سے کہ اولاد کسی انسان کی زندگی کے امتداد کی ضمانت ہے، بعض معاشروں میں اس کے لیے سکون و راحت، دولت، عزت اور ناموس تک داؤ پر لگا دئیے جاتے ہیں لیکن کیا واقعتاً اولاد انسان کی زندگی کی بقا کی ضامن ہے. کسی فرد کے زندہ رہنے کا جو سب سے کمزور حوالہ ہے وہ یہ ہے کہ اس کا نام باقی رہے. آپ تجربہ کر لیں، کسی ایسی جگہ جہاں سینکڑوں لوگ موجود ہوں، ان سب سے ایک سوال کریں کہ کون ہے جسے اپنے دادا کے دادا کا نام معلوم ہے؟؟ شاید ایک بھی نہ ہو جبکہ اس بیچارے نے بھی اپنا نام زندہ رکھنے کے لیے بے حد محنت کی تھی لیکن نام تک باقی نہیں رہا. معلوم ہوا کہ یہ تصور کہ انسان اولاد کے ذریعے زندہ رہتا ہے درست نہیں-لیکن إنسان کے اندر زندہ اور باقی رہنے کی خواہش موجزن رہتی ہے اور کسی خواہش کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ خالق کائنات نے اس کی تکمیل کی کوئی راہ ضرور رکھی ہو گی.-جی ہاں فطرت نے زندہ رہنے کی راہ نہ صرف رکھی ہے بلکہ افادہ عام کے لیے بتا بھی دی ہے. قرآن حکیم میں سورہ الرعد اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس میں "فلسفہ تقدیر، مسئلہ جبر و قدر، علم و عدل الوہی کی آویزش کا سوال، اور تقدیر کے بدل جانے کا نظریہ" شرح و بسط کے ساتھ سمجھاتے ہوئے اسی سورہ میں بتایا ہے کہ اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض (باقی وہی رہتا ہے جو خلق خدا کے لئے نفع بخش ہو)اس کو سمجھانے کے لیے دومثالیں بھی دیں کہ جب بارش برستی ہے اور پانی نشیب میں بہنے لگتا ہے تو اس پر جھاگ آ جاتا ہے یا سونے کو آگ پر تپانے سے اس پر جھاگ آ جاتا ہے. جھاگ بے مصرف شے ہے تھوڑی دیر بعد خشک ہو کر اڑ جاتا ہے لیکن پانی اور سونا جو نفع بخش ہیں باقی رہتے ہیں. گویا جو باقی رہنا چاہتا ہے وہ پانی کی طرح نفع بخش اور سونے کی طرح قیمتی ہو جائے تو اسے کوئی مٹا نہیں سکے گا. (پانی اور سونے کی مثالوں میں تہہ در تہہ معارف و حکم ہیں)
آپ کو یاد ہوگا کہ جب پہلی وحی کے حیرت زا تجربے کے بعد رسول اللہ صلي اللہ علیہ و آلہ و سلم گھبرائے ہوئے گھر تشریف لائے اور سیدہ خدیجہ کو ساری روداد سنا کر پریشانی کا اظہار کیا توسیدہ خدیجہ نے، جو کسی دارالعلوم کی فاضلہ تھیں نہ کسی یونیورسٹی کی فلاسفر لیکن اس الوہی صداقت سے آگاہ تھیں کہ جو خلق خدا کے لیے نفع بخش ہے اللہ اسے تنہا نہیں چھوڑتا، جواب دیا "ہرگز نہیں، بخدا، اللہ آپ کو تنہا نہیں چھوڑے گا کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیتے ہیں، خود کماتے ہیں اور غریبوں کو کھلاتے ہیں، مہمانوں کی خاطر و مدارات کرتے ہیں اور ناگہانی آفات میں لوگوں کی مدد کے لیے موجود ہوتے ہیں." اس موقع پر کسی عبادت و ریاضت، کسی چلے اور وظیفے کا حوالہ نہیں دیا گیا بلکہ پانچوں ایسے کام ذکر کئے جو خدمت خلق سے متعلق ہیں کیونکہ وہ جانتی تھیں :اما ما ینفع الناس فیمکث فی الارض.-خدمت خلق ایک ایسا کام ہے کہ اس کی ہزارہا صورتیں ہیں اور ہر شخص اپنے شعبے سے وابستہ رہ کر اور اپنے فرائض کو ادا کرتے ہوئے خدمت خلق کی سعادت حاصل کر سکتا ہے مثلاً اہل ثروت کو ہاتھ اور دستر خوان کھلا رکھنا چاہئے- اہل علم کی خدمت خلق تعلیم و تدریس ہے، اہل تجارت کی خلق خدا کو وافر، عمدہ اور مناسب داموں پر ضروریات زندگی کی فراہمی ہے، ارباب سیاست کی عوام کی فلاح کی پالیسیاں بنانا اور انہیں دیانتداری سے مکمل کرنا ہے. سیاست یا اقتدار کا تقاضا یہ نہیں کہ ہنگامی حالت میں کسی ضرورت مند کی مدد کی جائے، ان کی اصل ذمہ داری یہ ہے کہ کسی کو ضرورت مند نہ ہونے دیا جائے. کسان کا کام زیادہ سے زیادہ غلہ پیدا کرنا ہےاور طلبہ کا حصول تعلیم ہے،.....الغرض ہر شخص کسی نہ کسی پہلو سے خلق خدا کے لیے نفع بخش ہو کر طویل اور نیک نامی کی زندگی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے اور دنیا سے کوچ کر جانے کے بعد بھی اس کے ذکر خیر کی عطر بیزیاں فضا کو معطر کرتی رہیں گی-