يسئلون
سوال-حمد اللہ ہی كے ليے – اس ميں "ہی" كا مفہوم كہاں سے آيا
جواب – مولانا عمارخان ناصر
سورۃ فاتحہ میں ’’الحمد لله رب العلمين’’ میں جتنے بھی مختلف تراجم ہیں، ان میں ایک بات مشترک ہے کہ سب نے کلمہ حصر استعمال کیا ہے یعنی ’’تمام تعریفیں یا تعریف یا حمد یا شکر اللہ ہی کے لئے ہے’’۔ یہاں ’ہی’ کی شکل میں کلمہ حصر سب نے کیوں استعمال کیا ہے؟ حصر کے لئے زبان کے لحاظ سے کوئی قرینہ نہیں ملتا، نہ ہی حصر کے اسالیب میں سے کسی اسلوب کا اطلاق ہوتا نظر آتا ہے۔ تو پھر اس کی کیا وجہ ہے؟
جواب
علمائے عربیت کے ہاں ’’الحمد’’ کے مفہوم میں ’’تمام تعریفوں’’ کو شامل کرنے یا حصر کا مفہوم پیدا کرنے کے ضمن میں مختلف انداز نظر ملتے ہیں۔ امام طبری کی رائے میں ’’الحمد’’ پر داخل الف لام، استغراق کا معنی دیتا ہے، یعنی ’’ال’’ سے یہ مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ ہر طرح کی تعریف کا اثبات یا تخصیص اللہ تعالیٰ کے لیے پیش نظر ہے۔
فإن قال لنا قائل: وما وجه إدخال الألف واللام في الحمد؟ وهلا قيل: حمدًا لله رب العالمين؟ قيل: إن لدخول الألف واللام في الحمد، معنى لا يؤديه قول القائل "حَمْدًا"، بإسقاط الألف واللام. وذلك أن دخولهما في الحمد مُنْبِئٌ عن أن معناه : جميعُ المحامد والشكرُ الكامل لله. ولو أسقطتا منه لما دَلّ إلا على أنّ حَمْدَ قائلِ ذلك لله، دون المحامد كلها. إذْ كان معنى قول القائل: "حمدًا لله" أو "حمدٌ لله": أحمد الله حمدًا، وليس التأويل في قول القائل: ﴿الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ﴾ ، تاليًا سورةَ أم القرآن: أحمدُ الله، بل التأويلُ في ذلك ما وصفنا قبلُ، من أنّ جميع المحامد لله بألوهيّته وإنعامه على خلقه بما أنعم به عليهم من النعم التي لا كِفاء لها في الدين والدنيا، والعاجل والآجل.
زمخشری کو اس سے اختلاف ہے۔ وہ لام استغراق کی صنف نہیں مانتے۔ ان کی رائے میں یہ جنس کا الف لام ہے اور اس کے مفہوم میں استغراق پر دلالت شامل نہیں۔ بیضاوی نے دونوں آرا کو اس طرح بیان کیا ہے۔
والتَّعْرِيفُ فِيهِ لِلْجِنْسِ ومَعْناهُ: الإشارَةُ إلى ما يَعْرِفُ كُلُّ أحَدٍ أنَّ الحَمْدَ ما هُوَ؟ أوْ لِلِاسْتِغْراقِ، إذِ الحَمْدُ في الحَقِيقَةِ كُلُّهُ لَهُ، إذْ ما مِن خَيْرٍ إلّا وهو مُوَلِّيهِ بِوَسَطٍ أوْ بِغَيْرِ وسَطٍ كَما قالَ تَعالى: ﴿وَما بِكم مِن نِعْمَةٍ فَمِنَ اللَّهِ﴾
بعض مفسرین یہ مفہوم ’’للہ’’ کی لام سے اخذ کرتے ہیں جو استحقاق کا مفہوم رکھتی ہے۔ یعنی حمد کا سزاوار اور حق دار اللہ ہے۔ اس کا اردو میں ترجمہ کرتے ہوئے خود بخود ’’حمد وشکر کا سزاوار اللہ ہی ہے’’ کا اسلوب پیدا ہو جاتا ہے۔
الف لام یا لام جر کی دلالت کے علاوہ، ایک دلالت محل کلام سے بھی پیدا ہوتی ہے جس کی طرف بیضاوی کی مذکورہ عبارت میں اشارہ ہے۔ اور وہ یہ کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی عظمت شان بیان کی جا رہی ہو، وہاں محل کلام کا تقاضا بن جاتا ہے کہ محض حمد بیان کرنا یا شکر بجا لانا مراد نہ لیا جائے، بلکہ یہ مانا جائے کہ ہر تعریف کا سزاوار دراصل اللہ تعالیٰ ہی ہے۔
ابن عاشور نے یہ نکتہ یوں واضح کیا ہے۔
ولَيْسَتْ لامُ التَّعْرِيفِ هُنا لِلِاسْتِغْراقِ لِما عَلِمْتَ أنَّها لامُ الجِنْسِ ولِذَلِكَ قالَ صاحِبُ الكَشّافِ ”والِاسْتِغْراقُ الَّذِي تَوَهَّمَهُ كَثِيرٌ مِنَ النّاسِ وهْمٌ مِنهم غَيْرَ أنَّ مَعْنى الِاسْتِغْراقِ حاصِلٌ هُنا بِالمِثالِ لِأنَّ الحُكْمَ بِاخْتِصاصِ جِنْسِ الحَمْدِ بِهِ تَعالى لِوُجُودِ لامِ تَعْرِيفِ الجِنْسِ في قَوْلِهِ (الحَمْدُ) ولامِ الِاخْتِصاصِ في قَوْلِهِ“ لِلَّهِ ”يَسْتَلْزِمُ انْحِصارَ أفْرادِ الحَمْدِ في التَّعَلُّقِ بِاسْمِ اللَّهِ تَعالى لِأنَّهُ إذا اخْتَصَّ الجِنْسُ اخْتَصَّتِ الأفْرادُ؛ إذْ لَوْ تَحَقَّقَ فَرَدٌ مِن أفْرادِ الحَمْدِ لِغَيْرِ اللَّهِ تَعالى لَتَحَقَّقَ الجِنْسُ في ضِمْنِهِ فَلا يَتِمُّ مَعْنى اخْتِصاصِ الجِنْسِ المُسْتَفادِ مِن لامِ الِاخْتِصاصِ الدّاخِلَةِ عَلى اسْمِ الجَلالَةِ،
بیشتر اردو مترجمین نے اسی پہلو کو ملحوظ رکھتے ہوئے ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں’’ یا ’’تعریف اللہ ہی کے لیے ہے’’ کا اسلوب اختیار کیا ہے۔