فكر و نظر
عالم كون ہوتاہے
ساویز ندیم
پچھلے سو سالوں میں عرفی اعتبار سے عالم اور غیر عالم کی تعریف میں کچھ ترمیمات کیں گئی ہیں۔عالم کون ہے؟ اس کی صفات کیا ہیں؟ اور سب سے ضروری سوال یہ ہے آیا صرف درس نظامی کا فاضل ہی عالم ہے؟ کیا یونیورسٹی، انفرادی طورپر کسی ماہر استاذسے علم کی تحصیل کرنا یا دیگر علمی اداروں میں علوم اسلامیہ پڑھنے والے بھی عالم ہوسکتے ہیں؟کیا عالم ہونے کے لیے محض معلومات کا ذخیرہ ہونا کافی ہے؟
عالم کون؟ اس کا ایک آسان اور عرفی جواب یہی ہے کہ عالم ہر وہ شخص ہے جس نے درس نظامی پڑھا ہو(مدرسہ پڑھا ہو)کسی مدرسے کی سند(ڈگری اس کے ہاتھ میں ہو)۔ اس سے صرف نظر کہ اس کے پاس دین کا فہم بھی موجود ہے یا نہیں۔اس کا اخلاقی تزکیہ ہو چکا ہے یا نہیں۔وہ زمانے کے حالات سے واقف ہے یا نہیں۔ اس کو موعظہ حسنہ حاصل ہے یا نہیں ۔لیکن ضروری یہی سمجھا جاتا ہے کہ مدرسہ کا سند یافتہ ہی عالم ہے چاہے وہ جیسا بھی ہو اسی کو ہر معاملہ میں فوقیت دی جائے گی،کیوں کہ وہی حضور ﷺ کے اصل وارثین ہیں۔عام طور پر عالم کا معنی جاننے والا ہے وہ کسی بھی مضمون میں ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی سائنس دان ہے تو وہ سائنس کا عالم ہے۔لیکن یہاں عالم کے لفظ سے ہماری مراد عالم دین ہے۔ظاہر ہے عالم ہر وہ شخص کہلائے گا جس کو دین کا بنیادی فلسفہ حیات معلوم ہو، جس کو دین کی ضروریات کا علم ہو( عقائد و عبادات اور معاملات)۔ اگرچہ اس کو جزیات کا علم نہ بھی تب وہ عالم ہی کہلائے گا۔ اور جس کو جزیات کا بھی علم ہو یا تخصص کیا ہو تو لازما یہ ایک فضیلت کی بات ہے۔ بنیادی طور پر یہ سمجھیے کہ علم دین کوئی مخصوص نصاب کا نام نہیں۔ کہ آپ نے ایک کورس کر لیا تو آپ عالم بن گئے ۔ ایسا پر گز نہیں ہے۔ ہر سال ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں مدرسے سے فاضل نکل رہے ہیں۔ کیا ہر ایک کو آپ صحیح معنوں میں عالم کہہ سکتے ہیں؟ ہر سال لاکھوں کی تعداد میں یونیورسٹیوں سے لوگ سائنس پڑھنے والے ڈگریاں لے رہے ہیں تو کیا ان کو سائنس دان کہہ سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ نہیں ۔سند یا ڈگری کا ہونا کسی کو عالم یا سا ئنس دان نہیں بنا سکتا۔ سند اور ڈگری ایک شناخت تو ہوسکتی ہے لیکن قابلیت اور علم کا معیار نہیں ۔یہ بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ علم کے مراتب ہوا کرتے ہیں۔ جو شخص جس درجہ و مرتبہ پر ہو وہ عالم ہی کہلائے گا۔ نہ کہ عامی یا جاہل۔ سند اور شعور میں یہ فرق رکھنا ضروری ہے ۔ہمارے ہاں عموماً دینی سندیں اور ڈگریاں تو پائی جاتیں ہیں لیکن شعور کا فقدان ہوتا ہے۔فاضل کی باتوں سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس کا علمی معیار کیا ہے۔ مطالعہ و شعور کی کس سطح پر ہے۔ بعض اداروں میں مخصوص شعبہ دین پڑھائے جاتے ہیں جیسے کہ کسی نے فقہ یا اصول فقہ کی تعلیم چار سال حاصل کی۔ ظاہر ہے کہ اس کے نصاب میں دیگر کتب بھی ہوں گے لیکن ان کی حیثیت ثانوی ہوگی ۔ اس شخص کو حدیث اور اصول حدیث کی شد بد بھی حاصل ہوگی۔کچھ تاریخ اور تفسیر کا علم بھی ہوگا۔اب یہ شخص فقہ کا تو عالم کہلائے گا لیکن دیگر شعبوں میں اس کو چونکہ مہارت یا مطالعہ وسیع نہیں اس لیے اس کو دیگر شعبوں میں عالم کا درجہ حاصل نہیں۔ اگر حاصل بھی ہے تو ناکافی حد تک۔
اگر کسی کو ضروریات دین کا علم حاصل ہے تو وہ بھی عالم ہے اپنے علم و معرفت کی حد تک ۔ ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہوتا ہے خود کو عالم سمجھنے والے سماجی دباؤں میں فتوی بھی دینا شروع کر دیتے ہیں۔یہ رویہ خطرناک ہے۔ فتوی دینا ایک الگ فن اور اس کے کچھ اصول و ضوابط ہیں۔اسی طرح عالم ہونے کا یہ مطلب بھی نہیں جو میدان آپ کا نہ ہو اس میں بھی طبع آزمائی کریں۔ اور نہ ہی عالم ہونے کا مطلب سماجی،معاشی ،اور سیاسی ماہر ہے۔ یہ الگ الگ شعبہ علوم ہیں ان میں مہارت کے لیے دیگر ذرائع و کتب کا مطالعہ درکار ہے نہ کہ صرف دینی علوم کا۔ آج کل دینی علم حاصل کرنے والا خود کو سماجیات ،معاشیات اور سیاسات کا بھی ماہر تصور کر لیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ان تینوں میدانوں میں ٹھوکر کھا تا ہے۔ اور اپنی شخصیت کااپنے آپ ہی مذاق اڑوا تا ہے۔ان میدانوں کے اپنے اپنے ماہرین ہیں۔
عالم کی صفات کیا ہیں؟ عالم کا درجہ حاصل کرنے کے لیے تزکیہ نفس اول کام ہے جس میں اخلاق حسنہ کا حصول اور رزائل سے دوری اختیار کرنا ہے۔ عالم کے لیے حسد ،بغض و عداوت ، غیبت، لا یعنی بحث و مباحثہ ، چغل خوری اور دیگر برائیوں سے دوری اختیار کرنا ضروری ہے۔اسی طرح عالم کی اولین صفات حسنہ میں خشیت الہی کا حصول ہے[1]۔ اللہ تعالیٰ کے سامنے جوابدہی کا خوف۔ یا جس کو تقوی بھی کہتے ہیں۔اب اگر تقوی نہیں ہے اور آپ لوگوں کی طرف جھوٹی باتیں منسوب کر رہے ہیں تو کیا آپ عالم ہیں؟ حقیقی معنوں میں تو نہیں ہاں البتہ عرفی معنی میں آپ کی واہ واہ ہو جائے گی۔
کیا درس نظامی (مدرسہ) کا فاضل ہی صرف عالم کہلائے گا ؟ علم کی یہ صفت ہے کہ وہ کسی ادارے یا نصاب کا محتاج نہیں۔ علم اپنا راستہ خود ہی طے کرتا ہے۔ البتہ علم کے لیے اساتذہ کی ضرورت ہر حال میں رہتی ہے۔ علم کا کوئی دورانیہ بھی نہیں ہوتا یہ دورانیہ صرف انتظامی امور کے لیے بنایا جاتا ہے نہ کہ علم کےلیے۔کوئی بھی شخص کسی ایک مخصوص مدت میں عالم نہیں بن سکتا۔ علم تو ایک ایسا سفر ہے جس کی منزل انسان پوری زندگی ڈھوندتا ہے۔جیسے کہ میں نے پہلے وضاحت کر دی کہ علم کے مختلف مراتب ہوا کرتے ہیں جس کو آدمی طے کرتا جاتا ہے۔ جتنا طے کر لے گا اتنا عالم کہلائے گا۔آپ چاہے وہ مد رسے میں طے کریں یا کسی خانقاہ میں ، یونیورسٹی میں یا کسی گھر میں یا دریا کے کنارے یا جنگلات میں ، علم حاصل کر لیں گےاور وہ بھی عالم ہی کہلائے گا ، جاہل نہیں۔ کیوں کہ جو معلومات و صفات عالم بنے کے لیے ضروری تھیں وہ اس نے حاصل کرلی ہیں۔اصل علم معلومات کو اکٹھا کرنا نہیں بلکہ شعور کی بیداری کا نام علم ہے۔یہاں یہ بات بھی یاد رکھی جائے کہ علم کے لیے پڑھنا لکھنا بھی شرط نہیں،ایک شخص بغیر کتاب سے پڑھے لکھے بھی عالم ہو سکتاہے۔کیوں کہ پڑھنا لکھنا تو ایک فن ہے ۔ یہ علم کے ذرائع تو ہو سکتے خود علم نہیں۔ یہ جو لکھاری ہوتے ہیں جو دیواروں پر لکھتے ہیں کیا یہ عالم ہیں؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔اسی طرح بحث و مباحثہ اور تکرار اور محض سماعت سے بھی علم حاصل کیا جا سکتا ہے اور یہ علم دیگر ذرائع سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے ۔ اسی ذریعہ سے صحابہؓ تابعینؒ اور تبع تابعینؒ اور کثیر علماء امتؒ نے علم حاصل کیا۔ کتنے ہی اندھے ، گونگے اور بہرے لوگ عالم رہے ہیں۔ سیکھنے سکھانے کے دوران اگر مفہوم ادا ہو گیا اور اس مفہوم کو آپ سمجھ گئے تو آپ نے اس چیز کا علم حاصل کر لیا اگر چہ آپ اس کو لکھنا پڑھنا نہ جانتے ہوں۔
اس بات کا ثبوت قرآ ن سے بھی ملتا ہے۔ آپﷺ امی تھے ۔ اب امی (جو پڑھا لکھا نہ ہو) ہونا کوئی عیب نہیں۔عیب تو جاہل ہونا ہے۔حضور ﷺ تو نور نبوت سے فیض یاب تھے جو کہ علم کا اعلیٰ درجہ ہے۔ آپﷺ نے جبرائیلؑ سے بھی قرآن کی تعلیم تکرار کے ذریعہ ہی حاصل کی۔جیسے کہ بخاری شریف میں حدیث ہے کہ ابتداء میں جب وحی نازل ہوتی تو آپﷺ اس کو جلدی جلدی اپنی زبان سے دوہراتے تاکہ بھول نہ جائیں تو اللہ تعالی نے آیت نازل کی کہ آپﷺ قرآن کو یاد رکھنے کے لیے اپنی زبان کو تیزی سے حرکت نہ دیں اس کو جمع کرنا اور پڑھانا ہمارا کام ہے۔[2]
اس بات میں بھی کوئی شک نہیں عمومی طور پر دیگر اداروں سے زیادہ یکسوئی مدارس میں پائی جاتی ہے۔ اس تفصیل سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم دین کا واحد مرکز و منبع مدرسہ نہیں بلکہ دیگر علمی اداریں بھی ہیں۔ اس بات سے بہت سو کو تکلیف بھی ہوگی۔ ان سے گزارش ہے کہ جذبات سے نکل کر علم و فکر کے معیار پر سوچیں تو ان شاء اللہ تفہیم میں آسانی ہوگی۔ باقی کچھ معروضات جناب ڈاکٹر حافظ محمد زبیر حفظہ اللہ تعالی نے بھی فیس بک پر لکھی ہیں ان کا مطالعہ بھی کر لیجیے۔ مذکوہ تفصیل معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے ہاں بڑی آسانی سے کہہ دیا جاتا ہےکہ مولانا مودودیؒ تو عالم نہیں تھے، جاوید احمد غامدی عالم نہیں ہیں۔ڈاکٹر اسرار ؒ اور ڈاکٹر ذاکر نائک عالم نہیں ہیں۔ اب یہ جملے مضحکہ خیز اور کہنے والوں کے تصور علم پر سوالیہ نشان ہے !
اسی طرح یہ ضد کرنا کہ مدرسہ میں بیٹھ کر ہی جو پڑھا ہوگا وہی عالم ہوگا دوسری جگہوں پر نہیں تو یہ جملہ خود حد درجہ جہالت پر مبنی ہے ۔ اس جملہ کی جگہ علم و عقل کے میدان میں نہیں۔ یہ فرق یا تصور نہ رکھنے کی وجہ ہے ہمارے ہاں بعض مفکرین اس طرح کے جملے لکھ لیتے ہیں جن کا دفاع بعد میں گلے پڑ جاتی ہے۔ مولانا یوسف لدھیانویؒ نے تجدد پسندوں کے افکار نامی کتاب میں ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کے بارے میں جو گفتگو کی ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ ہم کس جرت سے اوروں کی نیتوں اور علم و تقوی کا فیصلہ کرتے ہیں۔[3]جو قیود مولانا نے لگائی ہیں وہ شاید ہی کسی فاضل درس نظامی میں پائی جاتی ہوں ۔ الا ماشاءاللہ۔اسی طرح ڈاکٹر مفتی عبد الواحد صاحب کی کتاب جو ڈاکٹر اسرار احمد افکار و نظریات کے نام سے ہے ، میں بعض فقہی مسائل میں تو اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن جو بحث فاضل نے ڈاکٹر اسرار ؒ کی علمی معیار پر کی ہے وہ کسی مضحکہ خیزی سے کم نہیں ۔جہاں دوسرے مسالک کی کتابیں پڑھنا ، گمراہی ٹھہرتا ہو وہاں تنگ نظری تو آسکتی ہے لیکن علم نہیں۔ مدارس کا نصابی نظام باقاعدہ طور پر سب سے پہلے جامع ازہر سے شروع ہوا تھا۔جامع ازہر سے پہلے کیا طریقہ کار تھا؟اس کا جواب یہی ہےکہ باقاعدہ اداروں کے قیام سے پہلے لوگ اساتذہ کے پاس جا کر علم سیکھتے تھے۔کوئی کتاب ایک استاذ سے پڑھ لی کوئی دوسرے سے۔اس طرح علم کا سفر جاری رہتا تھا۔اگر آ ج بھی ایسا ہی کیا جائے اور علم حاصل کر لیا جائے تو اگر وہ فاضل درس نظامی نہیں بھی ہو تب بھی عالم ہی کہلائے گا۔ یہ بات بھی بیان کی جاتی ہے کہ کوئی کتاب بغیر استاذ کے پڑھنا گمراہی ہے۔یہ بات خود محل نظر ہے ۔ بلکہ سطحیت پر مبنی ہے۔ہر کتاب کی اپنی اصطلاحات ہوتی ہیں اگر اصطلاحات کا علم آپ نے حاصل کر لیا ہے تو بغیر استاذ کے کتاب پڑھنا کوئی برا عمل نہیں بلکہ ہر کتاب استاذ سے پڑھنا ناممکن ہے۔البتہ یہ ضرور ہے کہ کتاب کے مغلق مقامات کے لیے استاذ کی ضرورت پڑتی ہے لیکن یہ مقامات بہت قلیل ہوتے ہیں۔اور پڑھنے والے پر یہ لازم ہے ان مغلق مقامات کی تفہیم حاصل کرے۔
عمومی طور پر غیر درس نظامی کے فاضل کو یہ کہا جاتا ہے کہ اس کو تو عربی پڑھنا نہیں آتی یہ کیا عالم ہے؟ یہ بات میں نے عرض کر دی کہ لکھنا پڑھنا تو ایک فن ہے۔اگر کسی معاملہ کی تفہیم آپ کو ترجمہ یا کسی ماہر سے بحث و تکرار کے ذریعہ حاصل ہو گئی تو اب عربی پڑھنے کی حاجت اس معاملے میں نہ رہی۔ کیا ترجمہ میں مکمل بات منتقل ہوجاتی ہے؟ یہ بھی علمی بحث ہے۔ اگر تراجم پڑھنے والے شخص کی علمیت میں شک ہے تو یہ مترجمین کی تراجم پر سوالیہ نشان ہے۔ اصل یہی ہے کہ ترجمہ سے مفہوم ادا ہو جاتا ہے۔ جو کہ مقصود ہے۔ کیوں کہ جو مفہوم تھا وہ آپ کے ذہن میں بیٹھ گیا۔ البتہ اس بات سے انکار بھی ممکن نہیں کہ علوم اسلامیہ کے طالب علم کو عربی زبان میں مہارت کی اشد ضرورت تحقیق میں پڑتی ہے۔ اور اس کو چاہیے کہ وہ عربی پر خصوصی توجہ دے۔ہمارے ہاں اس علم کے ذرائع میں خلط مبحث پایا جاتا ہے جس کا اوپر کسی حد تک ازالہ کیا گیا ہے۔