فكر ونظر
فقیہ اور صوفی کی لڑائی
ابو الحسين آزاد
اپنے ظہور کے ایک صدی بعد جب اسلام مختلف تہذیبوں، قوموں اور ثقافتوں کا مذہب بن گیا اور فکر و عمل کےپیچیدہ معمے اس کے سادہ اصولوں کے سامنےآ کھڑے ہوئے تو اس میں غور و فکر کی متنوع جہتیں نکل آئیں۔ ہر ثقافت، ہر فکر اور ہر ذوق کے لوگوں نے ”اسلام“ کی حقیقت کو سوچنا شروع کر دیا۔ سوچنے والوں کے سامنے یہ سوال موجود تھا کہ بندے اور خدا کے رشتے کی نوعیت کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں دو مختلف طرح کی وضاحتیں سامنے آئیں:ایک وضاحت تصوف کی تھی۔تصوف نے مغز پالینے کا دعوی کیا۔ تصوف نے بتایا کہ اصل چیز دل ہے۔ یہی ”رب سچے دا حجرہ“ ہے۔ یہی بیت اللہ ہے اور یہیں حجِ اکبر ہوتا ہے۔باطن ظاہر پر مقدم ہے اور روح کا واصل بحق ہونا ہی مقصودِ اعظم ہے۔ دعوے اپنی ابتداء میں کچی، خام اور دھندلی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اِن میں وضاحت، تفصیل اور پختگی آنے لگتی ہے۔ چناں چہ ایک دن بغداد میں ”انا الحق“ کی آواز بلند ہوئی، اگلے دن ”سبحانی ما اعظم شانی“ کی تسبیح گونجی اور پھر ”لیس فی جبتی الا اللہ“ کا ورد ہونے لگا۔ایک نے لوٹا اٹھایا کہ جہنم کی آگ بجھادوں تو دوسرے نے آگ اٹھائی کہ جنت کو خاکستر کردوں۔ یہ سب تصوف کی ”مغز شناسی“ کے مظاہر تھے۔
یہ سیلِ رواں یہیں رُکا نہیں بلکہ آگے چل کر باطنیت کی جولانیاں بھی اس کا حصہ بن گئیں: ”نماز تو اُن ظاہر پرستوں کی حماقت ہے جنھیں یار کو یاد کرنے کا اصل ڈھنگ نہیں آتا اور پتھروں والی عمارت کا حج کرنے تو وہ جاتے ہیں جو دل کے کعبے میں جلوۂ یزدانی دیکھنے سے عاجز ہیں۔“ باطنیت اور زندقے میں حد فاصل ڈھونڈنی مشکل ہوگئی : ”حسین صورتوں کو دیکھنا ہی سب سے بڑی عبادت ہے اور بادۂ ناب کی مستی ہی اُس سے ملاقات کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ جب ہر طرف وہی ہے تو حرام چہ معنی دارد؟ جب سب ایک ہیں تو فرض، واجب کا کیا چکر ہے؟“ نوبت بایں جا رسید کہ ”مست حال“ صوفی نوخیز لڑکوں کی ڈار سامنے بٹھا کر لہک لہک کے گاتے:
امروز چوں جمالِ تو بے پردہ ظاہر ست--در حیرتم کہ وعدۂ فردا برائے چیست
جب آج ہی تمھارا جمال بے پردہ ظاہر ہے تو مجھے حیرت ہے کہ کل کے دیدار کا وعدہ تم نے کس لیے کر رکھا ہے۔
خدا اور بندے کے تعلق کی دوسری وضاحت فقہ کی صورت میں سامنے آئی۔ فقہ کیا تھی؟ یہ انسان کے اس سوال کا جواب تھی کہ خدا بندےسے کیا مطالبہ کرتا ہے۔”خدا تم سے مطالبہ کرتا ہے تم ان مخصوص اوراد اور حرکات و سکنات پر مبنی نماز پڑھو، وہ تم سے مطالبہ کرتا ہے کہ 10 شعبان کو اگر تمھارے پاس 200 دراہم ہیں اور پھر اگلے سال کی 10 شعبان کو بھی تمھارے پاس 200دراہم ہیں تو تم اُن میں سے 5 دراہم اُس کی راہ میں صدقہ کرو۔“ فقہ کا آغاز خدا کے مطالبوں کی قانونی تشریح سے ہوا لیکن ایک وقت گزرنے کے بعد اس نے بھی چیستان کی شکل اختیار کر لی: ”خدا کا مطالبہ ہے کہ دادی کو میراث دو، اچھا اگر دادی کی دادی کی دادی کی دادی ۔۔۔۔ زندہ ہو تو خدا کا کیا مطالبہ ہوگا کہ اُسے کتنی میراث دی جائے؟ خدا کا مطالبہ ہے کہ امامت وہ کرائے جس کی قراءت اچھی ہو، پھر وہ جو سب سے بڑا عالم ہو، پھر وہ جو سب بڑا متقی ہو۔۔۔۔۔۔ اچھا پھر؟پھر وہ جس کی بیوی خوب صورت ہو، پھر وہ جس کا عضوِتناسل سب سے لمبا ہو۔ حضرت عیسیؑ آئیں گے تو صرف اور صرف ابو حنیفہ ہی کے مذہب کے مطابق فیصلے دیں گے۔ حضورؐ نے فرمایا: محمد بن ادریس شافعی نام کا ایک آدمی میری امت کے لیے ہزار شیطانوں سے بھی زیادہ ضرر رساں ثابت ہو گا۔اگر میں اپنی بیوی کی مرغی اُس سے ایک لاکھ اشرفی کے عوض ادھار خرید لوں تو میں ایک لاکھ اشرفی کا مقروض ہو جاؤں گا اور میرا قرض میری دولت سے زیادہ ہو جائے گا یوں مجھ پر زکوۃ فرض نہیں ہو گی۔کپڑے پہنتے ہوئے شلوار پہلے پہننی چاہیے یا قمیص، میں فلاں تفسیر کو پڑھ رہا ہوں کیا میں اُس کو پڑھ سکتا ہوں؟“
فقہ نے خدا اور بندے کے رشتے کو جج اور ملزم کا رشتہ بنا دیا۔ خدا کو ایسے جج کا منصب دیا، جس کے ہاں رومن لا سے زیادہ بڑا اور دقیق دفترِ قانون تھا، جس میں ادنی سے ادنی اور محال سے محال تر جزئیات کی بھی دقیق اور ناقابلِ تغیر تفصیلات درج تھیں۔جب کہ بندہ خدا کے کٹہرے میں کھڑا تھا، اُس نے فقیہ کو اپنا وکیل کر رکھا تھا ، جو مختلف طرح کے tricky حيلوں کے ذریعے استغاثہ کی داڑھی کے تنکے پر دفعات لگواتا اور اپنے مؤکل کی آنکھ کا شہتیر تک غائب کرا دیتا۔ جج دلوں اور نیتوں کا حال تک جاننے کے باوجود قانونی ہتھکنڈوں میں جکڑا ہوا ہے۔ وہ ہر شے کا ادراک رکھتے ہوئے بھی وکیل کی ”فنی مہارتوں“کے آگے بے دست و پا ہے۔
فقہ کی بے اعتدالیوں نے خدا کی دلچسپیوں کی ایسی تصویر کشی کی جس میں وہ خدا کی بجائے تعزیراتِ ہند کی دفعات کا مصنف دکھائی دینے لگا جب کہ تصوف نے اُسے معشوقانہ نزاکت کے اُس منصب پر بٹھادیا جہاں مطالبے اور حکم کا سوال ہی ناپیدا تھا۔چناں چہ صوفی اور فقیہ کے درمیان لڑائیاں تیز ہو گئیں۔ فقیہ صوفی کی زندقے کی حد تک پہنچی ہوئی ظاہر بیزاری سے یوں اکتایا کہ اعلان کر دیا: ”جس حدیث کے راویوں میں کوئی صوفی آجائے تو اُس سے ہاتھ دھو لو۔“ جب کہ صوفی فقیہ کی شریعت ”سازی“ اور حیلوں سے ایسا تنگ آیا کہ ہاتھ جوڑ کے کہنے لگا: علموں بس کریں او یار! فقیہ جزئیات کے خم و پیچ میں ایسا الجھا کہ کل کا سرا ہی اُس سے کھو گیا ، جب کہ صوفی نے تجریدی (Abstract) کلیات کی تتلی پر دھپ سے دونوں ہاتھ رکھے، مٹھی دبائی اور پھر انگلیوں کے درمیانی سوراخ سے جھانک کر دیکھا تو اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔ بھلا سائے اور روشنی کو کس نے پکڑا ہے!
فقیہ نے متکلم کے ساتھ مل کر عقیدے کی بڑی بڑی دستاویزیں وضع کیں۔ متكلم کا خدا فقیہ والےسے بھی دو ہاتھ آگے نکلا، اُس نے ذات و صفات کے لاینحل مسئلوں کو ایمانیات کا جزو بنادیا۔متکلم نے بابرتی، نسفی اور المہند بنائیں۔ اِن انسانی تصانیف کو ایمان اور حق کا معیار قرار دیا اور بتایا کہ جو اُن کی کسی سطر سے منحرف ہے وہ ضال ہے، مبتدع ہے بلکہ کافر ہے ۔ ومن شك في كفره فهو كافر. صوفی بالکل ہی مست تھا، اُس نے کہا کر پھڑ نکتہ چھوڑ کتاباں نوں، کر بند کفر دیاں باباں نوں (نکتہ پکڑو، کتابوں کو چھوڑو، کفر کے ان ابواب کو بند کردو۔) کسی نے سوال کیا حضور! راہ کی کون سی ہے؟ جواب دیا: ”در آئی در کفرِ حقیقی و بر آئی از اسلامِ مجازی“ (کفرِ حقیقی میں داخل ہو جاؤ، اسلامِ مجازی کو چھوڑ دو۔)
لڑائیاں جب ایک مدت سے تجاوز کر لیں تو فریقین میں صلح کے امکانات بڑھ جاتے ہیں: فقہیوں کے حلقے سے غزالی اٹھے اور صوفیاء میں سے قشیری، طے ہوا کہ حقیقت اِن دونوں کے درمیان ہے۔ تھیسس اور اینٹی تھیسس کو ملا کر ایک نیا بیانیہ تشکیل دیا گیا جو اپنے ایک بلیغ نمائندے کے الفاظ میں یوں تھا کہ ”شریعت بغیر طریقت کے سفسطہ ہے جب کہ طریقت بغیر شریعت کے زندقہ“ شریعت اور طریقت کے تلازم کا یہ بیانہ رفتہ رفتہ غلبہ پاتا چلا گیا۔لیکن فقیہ اور صوفی کے یہ جھگڑے مکمل طور پر ختم نہیں ہو سکے، مدتوں ان کا چھتیس کا آنکڑا رہا اور طرفین سے اس طرح کی آوازیں بلند ہوتی رہیں کہ ”جس نے حصول الوصول کے بعد بھی عبادت کا ارادہ کیا اُس نے شرک کیا۔“ اور ”صوفی کا الہام فقیہ کے فتوے کے آگے بالکل بے معنی ہے۔“ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ فقیہ آج بھی خدا کو حموربی کا قانون ساز شمس دیوتا بنانا چاہتا ہے جب کہ صوفی آج بھی اُسے گوتم بُدھ کی مجہول سچائی بنانے پہ تُلا ہے۔ یہ دو فطرتیں ہیں جو ہر دور میں ظہور پذیر ہوتی ہیں اور اپنی تُندی و شوخی میں ہر حد سے گزرنے کی کوشش کرتی ہیں۔سچائی بہر حال کہیں درمیان میں ہی ہوتی ہےیا درمیان ہی میں ہونی چاہیے۔