دين و دانش
دُعا، استخارہ، خواب، کرامت
مولاناامين احسن اصلاحی
مولانا امین احسن اصلاحی سے ایک سوال کیا گیا جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خواب بھی ہدائت کا ایک ذریعہ ہے اور رات کو نوافل پڑھکر با وضو ہو کر سوتے ہیں کہ اچھے اچھے خواب آئیں۔نبی پاکﷺ کی زیارت ہو، استخارہ کے متعلق کہتے ہیں کہ ہر معاملہ میں کیا جانا چاہیے،چاہے فیصلہ عقل کا متقاضی ہو،اسی طرح ذکر کی اہمیت کیا ہے ؟ کرامت کیا ہے وغیرہ وغیرہ۔
جواب :آپ کے جو دوست یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالی سے دُعا کی ہے کہ اگر جماعت۔۔۔ ہی صحیح راستہ پر ہے تو مجھے اسی کے مطابق چلا دے ان سے کہئیے کہ کسی معاملہ میں حق معلوم کرنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی شریعت کےاصولوں کے سامنے رکھ کر ان پر پوری طرح غور کرے اگر غور کرنے سے اس کا دل کسی ایک طرف مطمئن اور یکسو ہو جاے تو اس طریق کو اختیار کر لے اور اگر تردد باقی رہے تو شرح صدر کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرے اور تلاش وتحقیق میں پوری سرگرمی سے مصروف بھی رہے۔ مجرّد دُعا کر بھروسہ کر لیا اور اپنے فکر و عقل کو سے کام نہ لینا صحیح شرعی طریق نہیں ہے۔ یہ کوئی معقول حرکت نہیں ہے کہ تحقیق حق کے لئے اللہ تعالی نے علم و عقل اور قوت استدلال کے جو ذرائع بخشے ہیں اور اپنی آیات اور اُسوۂ انبیاء کی جو نعمتیں عنائت فرمائی ہیں ان سب سے قطع نظر کر کے آدمی محض اللہ سے ہدائت و راستی کی آرزو کر کے اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہونا چاہے۔ جس شخص نے خدا کے دئے ہوئے چراغ کو گُل رکھا اور روشنی کی دعا کی یا خدا کی دی ہوئی آنکھ موندے رکھی اور راستہ دیکھنے کی التجا کرتا رہا اس نے اللہ کی بخششوں کا کفران کیا۔ اسے کب حق پہنچتا ہے کہ اللہ اس پر مزید بخششیں فرمائے۔ ایسا رویہ دین سے بے پروائی اور عدم دلچسپی کی دلیل ہے اور اس میں کسی سنجیدگی کا شائبہ تک نہیں ہے۔ خود یہ حضرات دنیا کے کسی چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں فکر و عقل کو معطل کر کے محض دعا پر بھروسہ نہیں کر سکتے لیکن اسے فریب نفس کے سوا ااور کیا کہا جائے کہ دین جیسے نازک معاملہ میں عقل کی آنکھیں بند کر کے محض دعاوں سے مقصد حاصل کرنے کی فکر کی جاتی ہے۔ وہ حق جس پر پوری زندگی کی درستی و نا درُستی اور آخرت کے ابدی راحت و الم کا دار و مدار ہے اس کی تلاش میں چراغ گل کر کے آنکھیں مون کر کان بند کر کے ذہن کے دروازوں پر قُفل لگار کر آدمی نکلے اور مجرد دعا کی لاٹھی سے راستہ ٹٹولنا چاہے۔ حد درجہ مُضحکہ انگیز حرکت ہے ! عقل و فکر اور چشم و گوش کا اوّلین فطری مصرف یہی ہے کہ ان کی مدد سے حق کو اور دین کی سیدھی راہ کو پہچانا جائے اور اگر یہ اعلیٰ درجہ کے قویٰ اسی پاکیزہ مصرف پر صرف نہ ہوئے تو پھر کیا ان کو نظامِ کُفر کی پہچان اور اس کی اطاعت کے لئے صرف ہونا ہے؟ سوچتی ہوئی عقل اور کھُلی ہوئی آنکھوں کے ساتھ طلب ہدائت کی دعا کیجئیے تو وہ انشاء اللہ نشانہ پر بیٹھے گی۔
2۔ خواب کے متعلق آپ نے جو سوال کیا ہے اس کی حقیقت تو اس حدیث ہی سے (بشرطیکہ وہ صحیح ہو) واضح ہو جاتی ہے جس کا یہ لوگ حوالہ دیتے ہیں۔ اس حدیث سے خود معلوم ہو جاتا ہے کہ خواب تحقیقِ حقیقت ِ حق کے صحیح ذرائع کا صرف چھیالیسواں حصّہ ہے باقی پینتالیس حصے کتاب و سنت کی نصوصِ صحیحہ ہیں عقلِ سلیم ہے، علم و فکر اور استدلال کی قوتیں ہیں۔ پس آدمی کے فیصلوں کا تمام تر انحصار ان چیزوں پر ہونا چاہیے نہ کہ اس چیز پر جس کی حیثیت حدیث ہی کی رُو سے ذرائع علم کے محض چھیالیسیں حِصّہ کی ہے-ہمارے نزدیک خواب کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ اگر آدمی اچھا خواب دیکھے تو اس سے بشارت حاصل کرے اور اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اللہ تعالیٰ کی پناہ ڈھونڈھے۔ زندگی کے عملی معاملات میں جو لوگ خواب کو دلیل بناتے ہیں وہ محض وہمی قسم کے لوگ ہیں۔ خدا کے سامنے انسان کی ذمہ داری اور جواب دہی کا سارا انحصار اس کے علم وقل ہی کی بناء پر ہے اور انہی کے نہ ہونے کی وجہ سے حیوان اور مجنون لوگ اس ذمہ داری سے مُستثنیٰ کئے گئے ہیں، نہ اس لئے کہ وہ خواب نہیں دیکھ سکتے۔
استخارہ کا تعلق ان امور سے نہیں ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کی شریعت کے قطعی فیصلے موجود ہیں خدا اور رسول کی کہی ہوئی باتوں کے کرنے اور ان کی منع کردہ باتوں کے نہ کرنے سے متعلق جو شخص استخارہ کرتا ہے وہ احمق ہے اور اگر آپ صحیح تر الفاظ میں کہنے کی اجازت دیں تو میں عرض کروں گا کہ وہ ایمان سے خالی بھی ہے کیونکہ وہ در اصل اللہ اور رسول کا پیرو نہیں بلکہ اپنے خوابوں اور توہمات کا پیرو ہے اور اس کے نزدیک منصوص اور مسلّم احکام شریعت بھی اس وقت تک قابل قبول نہیں ہیں جب تک اس کا خواب ان کی تائید نہ کر دے۔
استخارہ کا تعلق صرف ان امور سے ہے جن میں انسان شرعاً و عقلاً کسی فیصلہ کُن نتیجہ پر نہ پہنچ سکے ایسے امور میں بلا شبہ اپنے تذبذب و تردّد کے ازالہ کے لئے اللہ تعالیٰ سے مسنون طریقہ پر استخارہ کرنا چاہئیے نہ کہ ان معاملات میں جن کے بارہ میں اللہ اور رسول کے صریحی احکام موجود ہیں۔