‏آزادی کا جشن ،بٹوارے کا نوحہ

مصنف : نامعلوم

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : ستمبر 2023

پاكستانيات

‏آزادی کا جشن ،بٹوارے کا نوحہ

مصنف  نامعلوم

روات سے آگے کلر سیداں روڈ پر آج کے کھنڈر اور کل کے مندروں کی یہ جوڑی دُکھی تھی جب منکیالہ کا سٹوپا دیکھنے کو جاتے مانی کو انہوں نے روک لیا تھا۔ صاحبو ! دُکھ انسانوں، جانوروں، پیڑ پودوں کا ہو یا پھر بے جان پتھروں اور عمارتوں کا، دُکھ تو دُکھ ہوتا ہے، ‏بےزبان، الفاظ سے عاری، گونگا، سلیم کوثر کی دکانِ گریہ کی طرح

دُکھ عبارت تو نہیں جو تجھے لکھ کر بھیجیں

یہ کہانی بھی نہیں ہے کہ سنائیں تجھ کو

تو نے پوچھا ہے مگر کیسے بتائیں تجھ کو

پار سال پاک و ہند کی آزادی پر بٹوارے کی یہ کہانی جب پہلے پہل انگریزی میں کہی گئی تو ان جڑواں کھنڈروں کی تصویر پر ‏تبصرہ کرتے ہوئے ایک صاحب کا کہنا تھا کہ دیکھو ! ہم نے تو ہندوؤں کی عبادت گاہوں کو سنبھال کر رکھا ہوا ہے، وہ وہاں ہماری مسجدیں شہید کر رہے ہیں۔

اس ’عبادت گاہ‘ کو ذرا غور سے دیکھیے، ان کے اندر مکان مالک اپنے جانور باندھتے ہیں اور بیرونی دیواروں پر ان کی عورتیں گوبر کی پاتھیاں لیپتی پوتتی ہیں۔ ‏برا مت مانیئے گا مگر افسوس، یہی ہے ہمارا ہندوؤں کی عبادت گاہ کا احترام۔ اندر پڑی دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں نے آنکھیں بند کیں تو ان کی آرتی اتارنے اور بھجن گانے والے ایک افتاد کی مانند پڑی آزادی کا تاوان بھرنے کو ہجرت کر گئے۔ کلر سیداں کے مندروں اور سرحد پار کی بابری مسجدوں کی ایک جیسی کہانی ہے۔

‏کلر سیداں کے ان مندروں سے تھوڑا اُدھر پورب کے کھلتے دروازے کی اور کہوٹہ سے کچھ پہلے تھوہا خالصہ کا گاؤں ہے۔ پرانی حویلیاں ڈھے گئیں، گردورارے کی جگہ جامع مسجد نے لے لی، مگر گدلے پانی سے بھرا اندھا کنواں آج بھی وہیں ہے، جہاں حملہ آور حیوانوں سے اپنی عزتیں اور بچے بچاتی سکھ عورتیں ‏قطار اندر قطار کود گئی تھیں۔ یہاں تک کہ کنویں کا پیٹ بھر گیا اور جب ڈوب مرنے کو کوئی جگہ نہ رہی تو اپنی عورتوں اور بچوں کی جانیں ان کے اپنے آدمیوں کی کرپانوں اور برچھیوں کا رزق ٹھہریں۔ تھوہا خالصہ تقسیم کے دنگوں کا وہ ناسور ہے جس کا داغ لاکھ دھوئیں، ہمارے سبز عماموں سے نہیں جاتا۔

‏گلاب سنگھ کی حویلی تو قصہ پارینہ ہوئی مگر گاؤں سے کچھ پرے خود رَو جھاڑیوں سے ڈھکے کنویں میں آج بھی بسنت کور کی ارداس بین کرتی ہے۔ بٹوارے کی لکیر کے اُس پار خالصوں کا ایسا ہی ایک تھوہا ’مُسلوں‘ کے خون اور تارتار ہوتی چُنیوں کے ہم رنگ بابے کے سکھوں کی پگڑیاں رنگتا آج بھی کھڑا ہو گا۔ ‏بٹوارے کے للاری کی ہٹی پر ایک ہی رنگ تھا، تھوک کے بھاؤ، سُرخ، گاڑھا، بہتے ہوئے خون کا رنگ۔

تقسیم کے دنوں میں زور پکڑتے دنگوں میں جب سرحد عبور کرنے کی خواہش رکھتی ریل گاڑیاں کاٹ دی جاتی تھیں، لاہور کو رینگتی ہونکتی ریل گاڑی میں اکیلے مانی کا مان سنگھ کی بکل اوڑھے ایک ناقابلِ یقین سفر۔ ‏امبرسر کے سفر میں ڈھاٹا باندھے ڈاکو کے روپ میں سفر کرتی ماجھے کی سکھنی ہرناموں جو اردگرد کے ہنگام سے بے نیاز چادر کی اوٹ میں ایک مسلمان لڑکے کو مولیوں والے پراٹھے کے نوالے کھلا رہی تھی۔

زندگی بھر کسی نے اتنی محبت سے میرے منہ میں نوالے نہیں ڈالے تھے۔ میری اپنی ماں نے کبھی مجھے اتنی محبت سے نہیں کھلایا تھا۔ ‏اس کی محبت نے مجھے حلال کر دیا ممتاز !‘

فسادات کی مارا ماری میں سکھوں کی کرپانوں سے الجھتا بچ نکلتا مانی جب سرحد پار پہنچتا ہے تو احمد بشیر کا روپ دھار ایمن آباد کے لالہ مایا رام کی کہانی کہتا ہے۔

سٹیشن سے تانگہ جب پرانے قبرستان کے پاس پہنچا تو انہوں نے تین لاشیں دیکھیں۔ ‏لالہ مایا رام، ان کا چھوٹا بھائی اور سولہ برس کی بیٹی سیتا، جن کا خون ابھی بہہ رہا تھا، مگر ان میں زندگی کی کوئی رمق نہیں تھی۔ ابھی کچھ دیر پہلے سٹیشن پر لالہ مایا رام نے کہا تھا: "لاہور میں خطرہ ہے مگر ایمن آباد میں تو بھگوان کی کِرپا ہے۔ کچھ روز اپنی ماں کے پاس رہ لے، پھر سیتا لاہور چلی جائے گی۔ رام رام!‘"

‏پھر مسجد کے نل پر تلوار پر لگی چربی دھوتا بھٹی پہلوان ’میں اکیلا کہاں تھا جی، شیخ اور بوبا قصائی ساتھ تھے میرے۔ مایا رام کو تکبیر میں نے پھیری۔ شیخ نے اس کے بھائی کے سینے میں برچھی ماری۔ بوبے قصائی کا شکار چھوٹا تھا مگر اس سے لڑکی کی گردن کٹتی ہی نہ تھی۔ نرم بہت تھی جی۔ اسے کافی دیر لگی۔

‏ایمن آباد کا تھانیدار سید ذوالفقار علی شاہ بادشاہ جس کا حکم تھا کہ ہندو جالندھر میں گاڑیاں کاٹتے ہیں، مسلمانوں کی جان لیتے ہیں اور قتل کا بدلہ قتل ہوتا ہے اور یہ اسلامی کام ہے۔ اسلامی کام کو بھٹی پہلوان اور بوبا قصائی کیسے ٹال سکتے تھے!

اور پھر ماجھے کی سکھنی ہرناموں کی کہانی کہنے والا ممتاز مفتی ‏الکھ نگری کی بند گلیوں میں ایمن آباد کی شیخانیوں کا ذکر یوں کرتا ہے۔ الکھ نگری جو ٹوآئی سی نے ٹل کی لائبریری سے بذریعہ فوجی ڈاک استور بھجوائی تھی اور ہم نے اسے پہلے پہل پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پر ہمالیہ کے ویرانے میں ایک اگلو میں پڑھا تھا۔ کتاب کے دوسرے ہی باب "چھبیس ہندنیاں" نے گھٹنے ٹیکوا دیے تھے۔ ‏’کل ایمن آباد سے ہندو ریفیوجی گاڑی گزر رہی ہے۔ گوجرانوالے کے لوگوں نے ایمن آباد کو خبردار کر دیا ہے کہ گاڑی لاہور نہ پہنچے۔ ایمن آباد کی عزت کا سوال ہے۔ اگر ہم گاڑی کو نہ روک سکے تو منہ دکھانے کے قابل نہ رہیں گے۔ گوجرانوالے کے لوگ طعنے دیں گے۔

عزت دار ایمن آباد میں گاڑی کٹی اور خون بھی بہا، ‏مگر ایمن آباد کی شیخانیاں بپھری شیرنیاں ثابت ہوئیں اور اس رات انہوں نے ایمن آباد کی گلیوں سے لوٹے گئے ’مالِ غنیمت‘ میں سے چھبیس ہندنیاں برآمد کروا لیں۔ جس شہر کے مردوں نے جان اور مال لوٹے، اسی شہر کی عورتیں قتلِ عام سے بچ جانے والی ہندو خواتین کی آبرو کی نگہبان ٹھہریں۔

‏پھر الکھ نگری میں ممتاز مفتی کا مشاہدہ، قدرت اللہ شہاب جس نے "یا خدا" لکھی تو اسے اس لڑکی نے بھی پڑھا جو ’دلشاد بن کر بھی دلشاد‘ نہ بن سکی تھی۔ اچھرہ کے پناہ گزین کیمپ میں ٹاٹ کے پردوں میں اٹی ان سے بھی بوسیدہ تپ دق کی مریضہ دلشاد۔ جس کے لیے آزادی ہوس کے پجاریوں کے چہروں کا بدل جانا تھا۔ ‏وہ عصمت جو سرحد کے اس پار بدمذہبوں نے تار تار کی، مملکتِ خداداد پہنچ کر اس کی عصمت دری مسلمان بھائیوں کے حصے میں آئی۔ شہاب کو جب وہ مِلی تو بے اختیار قلم کی جیبھ پھٹ گئی، ’لڑکی کیا تھی راکھ کا ڈھیر یا چوبِ خشک صحرا ـــ لگا کے آگ جسے کارواں روانہ ہوا۔

‏احمد ندیم قاسمی کا "پرمیشور سنگھ" ہو یا قرۃ العین حیدر کا "آگ کا دریا"، امرتا پریتم کی ہُوک ’اج آکھاں وارث شاہ نوں‘ ہو یا امبر (@notyourpastry) کی عنایت "بھیشم ساہنی کا تمس"، یا پھر خشونت سنگھ کا ’سانوں آ مِل یار پیاریا‘ کے سُروں میں رنگا "ٹرین ٹو پاکستان"، ‏بٹوارے کی کتھا گنجل در گنجل الجھتی چلی جاتی ہے تو اس گرہ کی پرتیں منٹو کا ’کھول دو‘ کھولتا ہے۔ مگر صاحبو ! تصویر کا ایک اور رُخ بھی تو ہے۔

بھیرہ پُھلاں دا سہرہ کا بھیروچی ہندو گیان سروپ ہے جو عمر کے آخری پہر بھی شیخ فضل حق پراچہ کو نہیں بھولا کہ بھیرہ کے ہندوؤں اور سکھوں کی زندگیاں ‏شیخ صاحب کی قرضدار ہیں جو ہجرت کے سمے مسلمان بلوائیوں کے سامنے ڈٹ گئے تھے کہ بھیرہ کے گلی کوچوں میں ناحق خون نہیں بہے گا۔

چک نمبر چورانوے ر۔ب اٹی کے چوہدری عبدالعزیز تھے جو جالندھر کے نہال گڑھ سے ہجرت کر کے لائلپور آئے تھے۔ ہمارے نانا کی سنائی بٹوارے کی کہانیوں میں ان یار بیلی ‏سکھوں کا ذکر ہوتا تھا جو انہیں اور باقی مہاجروں کو نہال گڑھ کی سرحد تک اپنی حفاظت میں چھوڑنے آئے تھے۔

بٹوارے نے پنجاب اور بنگال کے دھڑوں کو تقسیم کرتی جو خون آشام لکیر کھینچی تھی اس کی کوکھ سے صرف دنگوں نے جنم لیا تھا۔ ایک گاڑھے، بہتے خون کے سُرخ رنگ نے سارے مذاہب کے رنگوں کو ‏نگل لیا تھا۔ کیسری، بسنتی، سبز، سفید سب سرخی مائل ہو گئے تھے کہ بٹوارے کے للاری کی ہٹی پر ایک ہی رنگ تھا، تھوک کے بھاؤ، سُرخ، گاڑھا، بہتے ہوئے خون کا رنگ۔

عبداللہ حسین نے "اداس نسلیں" میں بٹوارے پر ایک باب معنون کیا ہے۔ روشن محل کی ایک شام۔ عنقریب منقسم ہونے والے ہندوستان کے ‏اونچے طبقے کے روشن خیال لوگ ایک بشاشت، لاتعلقی اور اطمینان قائم کرنے کی کوشش میں جو کہ اونچے روشن خیال طبقے کا خاصہ ہے ایک ممکنہ فساد کا سرسری سا ذکر کرتے ہیں۔ ’آپ جانتے ہیں کہ حالات خراب ہو رہے ہیں۔ بٹوارہ ہونے والا ہے۔ شائد فساد بھی ہو جائے‘ ‏(عبداللہ حسین کے لفظوں میں)

مسعود، برمن جی کو یہ کہتے ہوئے بے ساختہ بولا ’آپ بھی تو ہندو ہیں۔

میں ۔۔۔ آں؟‘ برمن جی بوکھلا گئے۔ پھر آہستہ آہستہ ان کے عمر رسیدہ چہرے پر اداسی پھیل گئی۔ ہاتھ ہوا میں اٹھا کر وہ آہستہ آہستہ بولے: ’میں اگر تمہارے گھرانے میں پیدا ہوا ہوتا تو یقین کرو کہ ‏اسی جوش وخروش، تعصب اور ایمان کے ساتھ تمہارے مذہب کی پیروی کرتا اور اس خاطر مرنے مارنے پر تیار ہو جاتا۔ تم بتاؤ، اگر میرے گھر میں پیدا ہوئے ہوتے تو کیا میرے ماں باپ کے مذہب کے لیے وہ سب کچھ نہ کرتے جو اب اپنے مذہب کے لیے کر رہے ہو۔ ہمارے مذہب کی بنیاد کیا ہے؟ اتفاق؟

‏کیا عشقِ خانہ سوز کے دل میں چھپی ہے آگ

اک سارے تن بدن میں مرے فق رہی ہے آگ

پاؤں میں پڑ گئے ہیں پھپھولے مرے تمام

ہر گام راہِ عشق میں گویا دبی ہے آگ

افسردگیٔ سوختہ جاناں ہے قہر میرؔ

دامن کو ٹک ہلا کہ دلوں کی بجھی ہے آگ