اقلیتوں کے بارے اکثریت کا مائینڈ سیٹ

مصنف : نعیم احمد بلوچ

سلسلہ : پاکستانیات

شمارہ : ستمبر 2023

پاكستانيات

اقلیتوں کے بارے اکثریت کا مائینڈ سیٹ

نعيم بلوچ

پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے جو مائینڈ سیٹ ہے اس کے پیچھے مذہبی آراء اورہندستان کے سماجی رویوں کی ایک پختہ روایت موجود ہے۔پہلے مذہبی آراء کی بات کرتے ہیں۔ علماء پاکستان کی روایتی تعبیر میں ہمارے ہاں انسانوں کی بس دو ہی اقسام ہیں ۔ ایک مسلم اور دوسری کافر ۔ ان کافروں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک معاہد اور دوسری دارالکفر( غیر اسلامی حکومت)میں رہنے والے ۔ معاہد وہ کافر ہیں جو دارالاسلام ( مسلمانوں کی حکومت) میں رہتے ہوں جیسے پاکستان کے کافر معاہد ہیں۔ ان کے لیے لازم ہے کہ یہ دوسرے درجے کے شہری بن کر رہیں ۔ یہ جزیہ دے کر رہیں اور ان کے جان و مال اور عزت کی حفاظت مسلمانوں کی حکومت کا فرض ہے ۔ جزیہ کی ایک غرض یہی ہے ۔ ان سے زکوٰۃ وصول نہیں کی جائے گی۔ البتہ ہمارے بعض علماء کے نزدیک کیونکہ ہم نے انھیں فتح نہیں کیا اس لیے ان سے جذیہ نہیں لیا جائے گا لیکن یہ مطیع بن کر رہیں گے ۔ یعنی ان پر حکومت کی جائے گی یہ ایسی کسی پوزیشن میں نہیں ہوں گے کہ ان کی مسلمانوں پر کسی بھی حیثیت سے حکومت ہو۔ یہ دارالاسلام میں سربراہی نہیں کر سکیں گے ۔

یہ احکام سورہ توبہ کی اس آیت سے مستنبط (Derived ہیں :

جنگ کرو اہل کتاب میں سے اُن لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخر پر ایمان نہیں لاتے اور جو کچھ اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں کرتے اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے (ان سے لڑو) یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ سے جزیہ دیں اور چھوٹے بن کر رہیں۔ ( ترجمہ مولانا مودودی: توبہ : 29)

اس لحاظ سے ہمارے علماء کے نزدیک غیر اہل کتاب سکھ ، بدھ اور ہندو سب نجس اور نا پاک ہیں ۔ ان کے بارے میں فقہی احکام یہی ہیں کہ ان کو چھوا جائے یا وہ مسلمان کو چھوئیں مسلمان ناپاک ہو جائیں گے ۔ ان کے ساتھ مل کر کھانا جائز نہیں۔ جبکہ مسیحی اور یہودی اہل کتاب ہیں اور ان کی بیٹیوں سے شادی ہو سکتی ہے، ان کا ذبیحہ جائز ہے لیکن وہ کبھی بھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے ۔ ان سب کافروں سے چاہے وہ اہل کتاب ہوں یا غیر اہل کتاب ، بس اخلاقی لحاظ سے تعلقات ہو سکتے ہیں کوئی دلی محبت نہیں رکھی جا سکتی۔ اکثر علما کے نزدیک ان کو سلام کرنا بھی جائز نہیں۔ وہ سلام کریں تو بس یہ کہنا چاہیے کہ "وعلیکم" ۔ یہ اکرام مسلم ہے کہ کاروباری معاملات اور ملازمت میں بھی مسلمانوں کو کافر پر فضیلت اور فوقیت دی جائے ۔

کوئی انسان نما مذہبی شخص آنکھیں دکھانے سے پہلے فتاویٰ عالمگیری اور فقہ کی کتاب میں ذمہ اور معاہد کی بحث پڑھ لے۔ اور پھر بھی دم گھٹتا ہوا محسوس ہو تو بتا دے کہ ایک جہمنی ، کافر ، نجس اور امت مسلمہ سے باہر کھڑا شخص کس رویے کا سزاوار سمجھا جائے گا ؟ اور پھر ایسا بدبخت جس نے توہین قرآن و پیغمبر کی جرات کی ہو؟

اب آتے ہیں عوام کی طرف ۔ ایک بہت بڑی اکثریت ( شاید 95فیبصد )ان " کافروں" کو عملی طور پر " شودر " سمجھتی ہے۔ اس کی وجہ ہماری سماجی تاریخ ہے ۔

یاد رہے ہندو مذہب میں کاسٹ سسٹم مذہب کا حصہ ہے اور اب اس میں بہت بدلاؤ آچکا ہے لیکن جس زمانے میں آج کے مسلمانوں کے آباؤ اجداد مسلمان ہوئے تھے وہ خاصا مختلف دور تھا۔ اس میں برہمن ، ویش ، کھشتری اور شودر کی تقسیم بہت گہری تھی۔ اس میں خاص طور مسیحیوں کو شودروں کی طرح بھنگی ، چوڑے ، خاکروب وغیرہ ہی سمجھا جاتا تھا۔ شودروں اور ملیچھوں کی طرح ان کی بستیاں بھی علیحدہ ہی رکھی جاتی تھیں ۔ اس حوالے سے معاشرے میں سید ، راجپوت ، پیر ، حکمران ( اشرافیہ ) اونچی ذات یعنی برہمنوں کے ہم پلہ اور دوسرے مختلف پیشوں اور عہدوں کے لحاظ سے ویش اور کھشتری تھے ۔

اس وقت بھی ہمارے معاشرے کی یہی تقسیم ہے اور عملی طور پر یہی مائنڈ سیٹ ہے ۔

معاشرے کی اسی علمی، مذہبی ،سماجی اور فکری حالت میں جڑانوالہ کا سانحہ ہوا ہے ۔ اور تمام اقلیتوں سے اسی مائنڈ سیٹ سے معاملہ کیا جاتا ہے۔

برابری ، انسانی حقوق ، مساوات وغیرہ کو ماننے والے شاید پورے پاکستان میں چند پزاروں کی تعداد میں ہوں گے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی بہت بڑی اکثریت اسی مائینڈ سیٹ کی حامل ہے ۔

باقی سب جو مرضی زبانی کلامی کہیں وہ اسی طرح کا سچ ہے جس طرح کا سچ یہ ہے کہ یہاں جمہوریت ہے ، عدلیہ ازاد ہے اور پاکستان کی افواج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ نیوٹرل ہے ۔

یاد رہے کہ مذہب کے حوالے سے جو رائے بیان ہوئی ہے مجھے اس سے سو فیصد اختلاف ہے ۔ ہمارے نزدیک اس وقت دنیا میں کوئی کافر نہیں پایا جاتا۔اس لیے سورہ توبہ کی متذکرہ ایت غیر متعلق ہے ۔ دارالاسلام اور دارالکفر کی بحث ختم ہو چکی۔ وہ ختم نبوت سے متعلق ہے۔ اب صرف مسلم اور غیر مسلم کی تقسیم ہے ۔ اور وہ دونوں ہر حوالے سے ، جی ہاں ہر حوالے سے برابر ہیں ۔

ریا نگوڑا آئین تو پاکستان محمد علی جناح نے مذہب کو سیاسی نعرے کے طور پر استعمال کرکے حاصل کیا ۔ اسلامی پاکستان ، دو قومی نظریہ وغیرہ کا نعرہ نہرو ، گاندھی اور سردار پٹیل جیسے کانگریسی رہنماؤں کے پچھواڑے میں آگ لگانےکے لیے اور مسلم عوام کے لیے یہ نعرہ ایک چھنکنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ چنانچہ اسمبلی کی پہلی تقریر میں اس چھنکنے کو بے کار سمجھ کر پھینک دیا تھا ۔ اور کہا تھا کہ اب مذہب ذاتی معاملہ ہے ، پاکستان ایک قومی ریاست ہے ، سب لوگوں کے حقوق چاہے وہ مسلمان ہیں یا نہیں ، سو فی صد برابر ہیں ۔ اور یہی درست ہے ۔ لیکن عملی طور پر پاکستان ایک مذہبی ریاست ہے اور تمام غیر مسلم کافر ،پلید ، نا پسندیدہ ، جہنمی اور نا قابل التفات ہیں ۔ ذات دی کوڑھ کرلی تے چھتیراں نوں جپھے!!! اس لیے ان ساتھ یہی ہو تا رہے گا۔ لکھ لیں !