سچی كہانی
عمر بھر کا سفر رائیگاں
تحرير – شہنيلہ
مجھے یہ کہانی انباکس بھیجی گئی ہے. شناخت چھپانے کے لیے نام اور واقعات میں ردوبدل کیا گیا ہے.
میرا نام نازش ہے. میری عمر اڑتالیس سال ہے. میں تین بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں. میرا تعلق ایک متوسط طبقے سے ہے. والد صاحب کا اپنا کاروبار تھا. گھر ذاتی تھا. والدہ گھریلو سیدھی سادی سی خاتون تھیں جو صرف قرآن پڑھنا جانتی تھیں لیکن گھر گرہستی میں طاق تھیں. والد صاحب بھی سنجیدہ مزاج کے شریف آدمی تھے. اسی کاروبار میں بچت کر کے دو دکانیں لے لی تھیں. جن کا کرایہ آتا تھا. گھر میں کبھی تنگی نہیں دیکھی. میں جب انٹر میں تھی تو والد صاحب کا انتقال ہوگیا. بھائی چھوٹے تھے. امی اس صدمے کو سہہہ نہ سکیں اور شدید بیمار پڑگئیں. بھائی بہن چھوٹے تھے. اس طرح میں اٹھارہ سال کی عمر میں ہی گھر کی بڑی بن گئی. گھر کو سنبھالنا، دکان کا کرایہ وصول کرنا، بلوں کی ادائیگی، گھر کا سودا سلف منگوانا، بہن بھائیوں کو دیکھنا. یہ سب خودبخود میری زمہ داری بنتا گیا. امی ٹھیک ہونے کے بعد بھی چھوٹے بہن بھائیوں کی طرح میری زمہ داری بن گئیں.ابو کے زمانے میں جن چیزوں کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں آئی تھی، اب ان پہ سوچ کر ہول اٹھتے تھے. دکانوں کے کرائے سے گھر نہیں چل سکتا تھا. میں نے ایک اسکول میں نوکری کرلی. ساتھ ہی پرائیویٹ پڑھتی رہی. شام کو ٹیوشنز. گھر سلیقے سے چلنا لگا. اسی طرح چھ سال گزر گئے. میں نے ایم اے کرلیا تو تنخواہ مزید بہتر ہوگئی.
ایک دن میری بڑی خالہ مجھ سے چھوٹی بہن کا رشتہ اپنے میٹرک فیل نکھٹو بیٹے کے لیے لے آئیں. خالہ کھاتے پیتے گھر کی تھیں. دونوں بڑی بہویں اپنی برابری کی لائی تھیں. چھوٹے بیٹے نے پڑھ کر نہیں دیا تھا. باپ کے ساتھ دکان پر بیٹھتا تھا. اگر اس کا رشتہ ہمارے ہاں کرتیں تو ایک تو مختلف جگہوں سے انکار کی بے عزتی نہ سہنا پڑتی دوسرے سارے خاندان پہ دھاک بیٹھتی کہ بغیر جہیز کے بھانجی کو بہو بنا لیا. امی نے جھٹ ہاں کی اور دو مہینے میں ہی رخصتی کردی. خالہ نے امی سے کہا کہ مجھے تو نازش سے ہی کرنا تھی لیکن نازش سکندر سے بڑی ہے. میں اپنے خالہ زاد سے پانچ مہینے بڑی تھی. خالہ کو اپنے نکمے بیٹے کے لیے نوکری کرتی، زمانے کی اونچ نیچ سمجھتی لڑکی نہیں درکار تھی. مجھے دبایا نہیں جاسکتا تھا. میری بہن تو بری کے زیور اور کپڑے کی چمک سے آسانی سے بہل گئی تھی.دوسری بہن کی شادی کے دوران ہی پھپھو کے سسرالی رشتہ داروں کو میری سب سے چھوٹی بہن پسند آگئی. لڑکا ملک سے باہر تھا. لڑکے کے والدین چاہتے تھے کہ بہو سسرال میں رہے اور ہمارے گھر سے بہتر چوائس کیا ہوسکتی تھی. یہاں کون تھا جو بہو کے حق میں بولتا. اس طرح ایک سال کے اندر اندر دونوں بہنیں رخصت ہوگئیں. میری کولیگز دبے لفظوں میں مجھے کہتی تھیں کہ تمہاری والدہ کو تمہارا پہلے سوچنا چاہیے تھا لیکن مجھے گھر کے حالات کا علم تھا. میری نوکری اور ٹیوشنز کے بغیر گھر نہیں چل سکتا تھا.خوش قسمتی سے دونوں بھائی پڑھنے میں اچھے تھے. سمجھدار تھے. انہیں علم تھا کہ اچھی تعلیم حاصل کر کے ہی اچھی نوکری ملے گی. دونوں نے کبھی اپنا وقت ضائع نہیں کیا اور تعلیم مکمل ہوتے ہی اچھا کمانے لگ گئے. امی کو فوراً ہی ان کے سروں پہ سہرا سجانے کا شوق ہوا اور دونوں کی شادی ایک ساتھ ہی کردی. اس دن میرے دل نے امی کے خلاف شکایت کی پہلی پرچی کاٹی کہ میرے علاوہ امی کو سب کی فکر ہے. بہنوں کو میکے آنے جانے کے لیے میری ضرورت تھی. ڈیلوری کے بعد آرام میری موجودگی میں ہی مل سکتا تھا. ان کے سسرال والوں کے ناز نخرے، دعوتیں میں ہی تو سنبھالتی تھی.گھر میں اب خوشحالی تھی. وہی سسٹم چل رہا تھا کہ امی کو فالج کا اٹیک ہوا. ہمیشہ کی طرح ساری زمہ داری مجھ پر ہی پڑی. بھائیوں نے مجھ سے نوکری چھوڑنے کو کہا کہ اب ہم کمانے لگ گئے ہیں آپ کو نوکری کی کیا ضرورت ہے. لیکن میں جانتی تھی کہ کمانے تو کب سے لگ گئے ہیں، اب امی کے فالج کے بعد میری نوکری پہ اعتراض ہوا ہے. بہرحال میں نے نوکری چھوڑ دی اور امی کی مکمل دیکھ بھال کی زمہ داری لے لی. ساتھ ساتھ گھر بھی دیکھتی رہی کہ بھابھیاں چھوٹے بچوں کے ساتھ مصروف تھیں.تمام بہن بھائیوں کی اپنی اپنی مصروفیات تھی. بہنیں ویک اینڈ پہ آتیں کہ امی سے ملنے آرہے ہیں کہ باجی کو تھوڑا سپورٹ کردیں لیکن باجی ان کے آنے کے بعد کچن کی نظر ہو جاتیں. امی خوش تھیں کہ ان کے تمام بچوں کو ان کا کتنا خیال ہے.
امی سات سال بستر پر رہیں اور پھر دنیا سے رخصت ہوئیں. امی کے انتقال کے چند ماہ بعد اچانک میری دونوں بھابھیوں کو میری تنہائی کا خیال ستانے لگا. دونوں بھابھیوں کا مشترکہ خیال یہ تھا کہ سارے زندگی باجی نے اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھا ان کے لیے قربانیاں دیں. اب بہن بھائیوں کو ان کے لیے سوچنا چاہیے. میرے لیے رشتے دیکھے جانے لگے. قرعہ فال ایک باسٹھ سالہ دکاندار کے حق میں کھلا جس کی بیوی کے انتقال کو دو برس ہوگئے تھے. تین بیٹیاں ہی تھیں جو اپنے اپنے گھروں میں تھیں. بقول میری بھابھیوں کے کوئی جھنجھٹ ہی نہیں. باجی راج کریں گی. تو باجی راج کرنے کے لیے ایک چھلکا سے سیٹ اور چار لان کے سوٹوں کے ساتھ جو بری میں آئے تھے اپنے گھر پہنچ گئیں.اپنے گھر استقبال کے لیے تین بیٹیاں ، تین داماد اور سات نواسے نواسیاں موجود تھے. کچھ ہی دنوں میں اندازہ ہوا کہ صاحب کو نہ تو بیوی کی کمپنی میں کوئی انٹرسٹ ہے اور نہ ہی یہ شادی companionship کے لیے کی گئی ہے. یہ شادی گھر سنبھالنے کے لیے کی گئی ہے. اپنی اور اپنی بیٹیوں کی خدمت کروانے کے لیے کی گئی ہے. شادی کے بعد دو بیٹیوں کی ڈیلوریز ہوئیں. ظاہر ہے اب ابا کا گھر سنبھالنے والی آگئی ہے تو آرام بھی وہیں ہوگا. ہر جمعے کو تینوں بیٹیاں بچوں کے ساتھ شام میں میکے آتی ہیں اور ہفتے کی شام ان کے شوہر ان کو لے جاتے ہیں. ظاہر ہے دامادوں کا کھانا بھی ادھر ہی ہوتا ہے اور پروٹوکول والا ہی ہوتا ہے. ابا بیٹیوں کے آنے سے بے تحاشہ خوش ہوتے ہیں کہ ان کے سُونے گھر میں بچیوں کی وجہ ہی سے تو رونق ہے.
باقی رہی میں تو مجھ سا خوش نصیب کون ہوگا جسے اس عمر میں ٹھکانہ مل گیا. میرے شوہر کا کہنا ہے کہ چونکہ ہر ہفتے بچیوں کے کھانے پینے کا انتظام ہمارے ہاں ہوتا ہے تو ہمیں باقی دنوں میں کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے. کبھی کہیں لے جانے کا کہوں تو مہنگائی کے رونے روئے جاتے ہیں. ان کے خیال میں شاپنگ کپڑے میک اپ وغیرہ جوانوں کے چونچلے ہیں. ہم تو اپنی زندگی گزار چکے. اب ہمیں سادگی اختیار کرنی چاہیے. میرا دل کرتا ہے کہ ان سے کہوں آپ نے وہ چونچلے اپنی جوانی میں کرلیے ہیں میں نے نہیں. میرے دل کی خالی دیواروں کا کیا. لیکن یہ بات میں کہہ نہیں سکتی کیونکہ غصے کے تیز ہیں اور غصے میں وہ کسی بات کا لحاظ نہیں رکھتے. میکے کے حالات یہ ہیں کہ دونوں بھائیوں نے امی کا گھر بیچ کر اپنے اپنے گھر لے لیے ہیں. امی کا گھر بیچ کر اپنا لینے میں واحد رکاوٹ میں ہی تھی، جسے بآسانی دور کردیا گیا ہے. کہہ دیا ہے کہ دکانوں میں بہنوں کا حصہ دے دیں گے. کب دیں گے اس بابت راوی خاموش ہے.
شہنیلہ آپ میری کہانی ضرور لکھیں. ان قربانی دیتی بیٹیوں کو ضرور سمجھائیں کہ آپ کے گھر والے آپ کے بارے میں نہیں سوچتے تو آپ اپنے بارے میں ضرور سوچیں. والدین کی خدمت فرض ہے لیکن صرف آپ پر نہیں سب بہن بھائیوں پر. جس طرح وراثت کے حصے میں شریعت یاد رہتی ہے اسی طرح خدمت میں بھی شریعت یاد کروائیں. یاد رکھیں اس زندگی اور اس کی خوشیوں پر آپ کا بھی اتنا ہی حق ہے جتنا آپ کے بہن بھائیوں کا.