دين و دانش
فتنہ اور سدِ ذرائع ، عورت كا چہرہ ڈھانپنا
حنيف ڈار
یہ تسلیم کر لینے کے بعد کہ نبئ کریم ﷺ سے لے کر چھٹی صدی کے مجتھد جناب سرخسی تک ھر فقہ کے امام اور اس کے تابع فقہاء نے عورت کو چہرہ اور ھاتھ کھولنے کی اجازت دی ھے ،حضرت ابن عباسؓ سے ایک آنکھ کے سوا باقی چہرہ ڈھکنے کی جھوٹی روایت ھاتھ سے چلے جانے اور ان کا حقیقی فتوی سامنے آ جانے کے بعد کہ ،،قال ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ فی المصنف 283/4 حدثنا زیاد ابن ربیع عن صالح الدھان عن جابر بن زید عن ابن عباس "(( ولا یبدین زینتھن ))" قال " الکف و رقعۃ الوجہ " یعنی اپنی زینت ظاھر نہ کریں سوائے اس کے کہ جو خود ظاھر ھو جائے یعنی ہتھیلیاں اور چہرے کی ٹکیہ ،،اب نئي گردان شروع ھوئی کہ فتنے کو روکنے کی خاطر " سد ذریعہ " کے طور پر عورت کو چہرہ چھپانے پر مجبور کیا جائے گا ،،، نیز یہ کہ اس زمانے میں فتنہ نہیں تھا لوگ ایماندار اور پرھیزگار و متقی تھے لہذا اس وقت اگر نہیں بھی چھپایا گیا تو کوئی بات نہیں ،آج کل فتنے کا دور ھے ،،،یہ رائے اور اس کی بنیاد پر وہ چیز حرام کرنا یا فرض کرنا کہ جسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حرام نہ کیا ھو یا فرض نہ کیا ھو بہت بڑی جرأت اور اس وعید کا مصداق ھے کہ " وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ (النحل -116) اور اپنی زبانوں کو آلودہ مت کرو جھوٹ کے ساتھ یہ کہہ کر یہ یہ حلال ھے اور یہ حرام ھے ، یہ اللہ پر جھوٹ باندھنا ھے ، بے شک جو لوگ اللہ پر جھوٹ باندھتے ھیں کبھی کامیاب نہیں ھونگے -قرآن حکیم بتاتا ھے کہ انسانی احساسات و جذبات ھر زمانے میں یکساں رھتے ھیں -(( زين للناس حب الشهوات من النساء والبنين ،،، آل عمران- 14 ) انسانوں کے لئے پرکشش بنائے گئے ھیں عورتیں اور اولاد -کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہترین دور میں فجر کی نماز پڑھنے آنے والی خاتوں کا ریپ نہیں کر دیا گیا تھا اور کرنے والا بھی مسلمان نکلا تھا ؟ کیا اس کے بعد سد ذریعہ کے نام پر خواتین کو کم از کم فجر اور عشاء کی جماعت سے روک دیا گیا تھا ؟کیا اس زمین پر پہلا قتل عورت کی خاطر نہیں ھوا تھا ؟ کیا وہ قاتل قابیل ، اللہ کے نبی کا بیٹا نہیں تھا ؟ کیا حضورﷺ کی یہ حدیث موجود نہیں کہ بنی اسرائیل عورت کی وجہ سے ھلاک ھوئے - گویا ھر زمانہ فتنے کا ھی تھا ،اور آپ کے بقول معاذ اللہ ، اللہ کو ھی یاد نہ رھا کہ عورت کو چہرہ ڈھکنے کا حکم دے دیتا، وما کان ربک نسیاً ،جبکہ اللہ فرماتا ھے کہ وہ کوئی بھی بات بھولتا نہیں ھے اور نہ کسی بات سے چُوکتا ھے ،، وما یضل ربی ولا ینسی -کیا فتنہ موجود نہیں تھا جو اللہ پاک نے فرمایا کہ آواز میں لوچ پیدا مت کرو کہیں دوسری جنس میں رغبت اور غلط فہمی پیدا نہ ھو جائے ؟ ذلکم اطھر لقلوبکم و قلوبھن ،، یہ تمہارے دلوں کے لئے بھی پاکیزہ تر ھے اور خواتین کے دلوں کے لئے بھی ،، یا اسی وقت فتنہ موجود نہیں تھا اور عورت میں مرد کی رغبت موجود نہیں تھی جب نبئ کریم ﷺ کی سواری پر نبئ ﷺ کے بدن مبارک کے ساتھ بدن ملا کر بیٹھے فضل ابن عباسؓ بنی خثمعہ کی عورت کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رھے تھے یہانتک کہ وہ عورت بھی ان کی طرف متوجہ ھوئی اور اللہ کے رسولﷺ نے بھی فضل ابن عباسؓ کی اس حرکت کو نوٹ فرما لیا-یہ وہ وقت تھا کہ جب سد ذریعہ کا قانون نازل ھونا چاھئے تھا کہ اے نبی ﷺ عورت کو کہہ دیجئے کہ یضربن بخمرھن علی وجوھھن ، چہرہ ڈھانپ لے ،، یا نبئ کریم ﷺ خود ھی سدِ ذریعہ کا قانون نافذ فرما کر اس عورت کو چہرہ ڈھکنے کا حکم دیتے - کچھ بھی نہیں ھوا نہ اللہ نے کچھ نازل کیا اور نہ نبئ پاک ﷺ نے عورت کو اس کے چہرہ ننگا رکھنے کے حق سے محروم کیا بلکہ جو کیا وھی قیامت تک قانون ھے کہ جس کی آنکھیں تھیں اسی کا منہ ھاتھ کے زور سے دبا کر دوسری طرف کر دیا -یہ ھے سدِ ذرائع ،، سد ذریعہ کے طور پر مرد ھی آنکھیں ھٹا لے یہی حکم پہلے نازل کر دیا تھا جس کی خلاف ورزی کر رھے تھے فضل بن عباس اور اسی حکم پر عمل کرایا نبئ کریم ﷺ نے اور قیامت تک اقراری سنت بنا دی کہ عورت چہرہ ننگا رکھے تو اس کا حق ھے آنکھیں مرد ھٹائے نہ ھٹائے تو اس کے منہ کا کچھ علاج کرو - یہی کیا تھا حضرت عمر فاروقؓ نے جب نوجوان کے بال کٹا کر اس کو مدینہ بدر کر دیا تھا ،، یہی وہ ناقابل تردید حقیقت ھے کہ امت کے فقہاء میں اگر کسی بات پر اتفاق ھے تو یہی بات ھے جس میں کسی فقہ کا اختلاف نہیں کہ امام ابوحنیفہ اور چھٹی صدی کے مجتھد سرخسی سے لے کر دیگر فقہوں کے مجتھدین قاضی عیاض ، امام نووی ، ابن مفلح ، اور شوکانی سب ایک جملے پر یک زبان ھیں کہ "(( لا یجب علی المراۃ ان تستر وجہہا فی طریقھا ، وانہ لا ینبغی الانکار علیھن اذا کشفن عن وجوھھن فی الطریق )) عورتوں پر رستے میں چہرہ ڈھانپنا واجب نہیں ھے اور اگر وہ چہرہ کھلا رکھتی ھیں تو کوئی ان کو روک ٹوک نہیں سکتا ،، البتہ اپنی مرضی سے کرتی ھیں تو اس میں کوئی حرج نہیں -
اسلام میں زیادہ تر قانون سازی نبئ کریم ﷺ کی اقراری سنت کے ذریعے ھوئی ھے اور دوسرے نمبر پر آپ ﷺ کے عمل سے ھوئی ،احکامات سے بہت کم قانون بنے ھیں -احکامات کتاب اللہ میں ھی آئے ھیں ، اب اللہ کے رسولﷺ کے سامنے فتنہ بپا ھوا اور مفتون حالتِ احرام میں آپ ﷺ کی سواری پر آپ کے ساتھ جڑ کر بیٹھا ھے اور چچا کا بیٹا ھے گویا فتنہ آپ ﷺ کے گھر پر حملہ آور ھوا ھے تو اللہ نے یا نبئ کریم ﷺ نے اس کا علاج کس طرح کیا ھے ؟ وھی جو اللہ نے پہلے ھی نازل کر دیا تھا کہ " قل للمومنین یغضوا من ابصارھم "مومنوں سے کہہ دیجئے نظر دھیمی کر لیں ،ڈس کونیکٹ کر لیں ، اور ھم کون ھونے ھیں اس علاج پر اپنی حکمتیں مسلط کرنے والے - آپ نے فضلؓ کا چہرہ موڑا ھے نہ عورت کو ملامت کی اور نہ آئندہ منہ ڈھکنے کا حکم دیا - اس وقت بھی سدل کا آپشن موجود تھا کہ وہ چہرے پر لگے بغیر کپڑا آگے لٹکا لیتی مگر نبئ پاک ﷺ نے اس کو یہ حکم بھی نہیں دیا کہ مبادا بعد والے اسی کو بنیاد بنا کر اس کپڑے کو ان پر واجب نہ کر دیں -حضرت عباسؓ نے جب پوچھا کہ آپ ﷺ نے اپنے چچا زاد کا منہ دوسری طرف کیوں پھیرا ؟ تو یہ سوال بتاتا ھے کہ عورت کا چہرہ ننگا رکھنا اور مرد کا اسے دیکھنا کوئی عجیب بات نہیں تھی بلکہ روٹین کی بات تھی اسی لئے تو عباسؓ کو تعجب ھوا ،، جس پر آپﷺ نے فرمایا کہ ایک جوان دوسری جوان سے الجھ بیٹھا تھا، اور ان دونوں کے معاملے میں شیطان اب امن سے بیٹھنے والا نہیں تھا-واضح رہے کہ وہ خاتون قربانی دے کر احرام سے فارغ ہو چکی تھی ۔ يہاں یہ دلیل بھی نہیں چل سکتی کہ اس نے احرام کی حالت میں چہرہ ننگا کر رکھا تھا ۔یہ وہ وقت تھا جب فقہی اصول کے تحت قانون کا تبیان ھونا چاھئے تھا (لاتفاق العلماء علی انہ لا یجوز تأخیر البیان عن وقت الحاجہ ) جس وقت قانون کی ضرورت ھو اس وقت اس کو بیان کرنے میں تاخیر جائز نہیں ،، کسی صاحب نے ابن عمرؓ کے سامنے کہا کہ " لعل النبی ﷺ امرھا بعد ذالک " شاید نبئ کریم ﷺ نے بعد میں کسی موقعے پر اس کو منع کیا ھو ؟ اس پر ابن عمرؓ نے کمال کا جواب دیا " اجعل " لعل " عند ذاک الکوکب ، لأن فیہ تعطیلاً للسنۃ التی منھا اقرارہﷺ " تو اپنی اس لعل یعنی " شاید " کو کسی اور سیارے پہ رکھ ،، کیونکہ اس سے نبی ﷺ کی اقراری سنت معطل ھوتی ھے ،یعنی نبی کی سنت کو تیریے شاید پر قربان نہیں کیا جا سکتا -
( التشدد فی الدین شرۤ لا خیر فیہ )، الخیر لا یأتی الا بالخیر و الشر لا تاتی الا بالشر ،، متفق علیہ
نبئ کریم ﷺ نے دین میں تشدد اور غلو سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ھے ،یہ بظاھر نیکی مگر آگے چل کر شر کے دروازے کھولنے والی چیز ھے -آپ ﷺ نے فرمایا " ان الدین یسرۤ ولن یشاد الدین احد الا غلبہ ،فسددوا و قاربو، ( البخاری )دین آسان ھے ، جس نے بھی دین میں شدت اختیار کی وہ مغلوب ھو گیا لہذا سیدھے ھو جاؤ اور قریب قریب ھو جاؤ-ایاکم والغلو فی الدین،فانما ھلک من کان قبلکم بالغلو فی الدین ( ابن خزیمہ و ابن حبان والحاکم )خبردار دین میں غلو سے بچ کر رھنا ،تم سے پہلے لوگ غلو کی وجہ سے ھی ھلاک ھوئے ھیں –
جو عورتیں چہرہ نہیں ڈھانپتی تھیں ،،
1-فاطمہ بنت قیس ،،
انہوں نے نبئ کریم ﷺ سے مشورہ لیا کہ میرا کوئی وارث نہیں میں عدت کہاں گزاروں ؟ آپ نے پہلے تو ام شریک کا مشورہ دیا کیونکہ وہ بڑی سخی اور دیالو خاتون تھیں پھر فرمایا کہ ام شریک کے مہمان بہت آتے ھیں اور تیرا دوپٹہ ڈھلک جاتا ھے مجھے پسند نہیں کہ ایسا ھو اور مہمان دیکھیں لہذا تو ابن ام مکتوم ( نابینا صحابی) کے گھر منتقل ھو جا کیونکہ تیرا دوپٹہ ڈھلک بھی جائے تو وہ دیکھ نہیں پائیں گے ،، ( مسلم
( واضح رھے وہ حدیث ضعیف ھے جس میں حضورﷺ سے منسوب کیا گیا ھے کہ آپ نے اپنی دو ازواج کو فرمایا تھا کہ ابن ام مکتوم نابینا ھے تم تو نابینا نہیں ہو-
2- سھل ابن سعد کہتے ھیں کہ ابو سید الساعدی نے نبئ کریم ﷺ اور آپ کے اصحابؓ کو شادی میں بلایا -اس دن کھانا پکایا بھی اور کھلایا بھی ام اسید نے جو کہ دلہن بھی تھیں اور مہمانوں کی خادمہ کا کام بھی کر رھی تھیں ،، ( بخاری و مسلم و غیرھم )
3- اسماءؓ بنت ابی بکرؓ
زبیر غریب آدمی تھے مجھے گھر کے ساتھ ساتھ کھیتی باڑی اور گھوڑے کے دانے پانی کا بندوبست بھی خود ھی کرنا پڑتا تھا ، میں ایک دن اس زمین کے ٹکڑے سے جو رسول اللہ ﷺ نے زبیرؓ کو دیا تھا گھٹلیاں اٹھا کر لا رھی تھی کہ رسول اللہﷺ اور آپ کے اصحاب کہیں سے آئے ،رسول اللہ ﷺ اونٹ پر تھے ،، آپ ﷺ نے مجھے آواز دی اور پھر اونٹ کو بٹھانے کے لئے " أخ أخ " کیا تا کہ مجھے اپنے پیچھے بٹھا لیں ،،مگر میں شرما گئ اور چلتی گئ ( بخاری و مسلم و احمد و ابن سعد ) ظاھر ھے کھلے چہرے کے ساتھ ھی پہچان کر آواز دی -
4- عن جابرؓ نبئ کریم ﷺ ایک انصاری عورت کے یہاں تشریف لائے تو آپ کے لئے کھجوروں کے درمیان جگہ بنائی گئ اور پانی چھڑکا گیا ، پھر اس عورت نے بکری ذبح کی اور کھانا تیار کیا ،نبئ کریمﷺ نے بھی کھایا اور ھم نے بھی آپﷺ کے ساتھ کھایا پھر وضو کیا اور ظھر کی نماز پڑھی، پھر اس عورت نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ کھانا بچ گیا ھے کیا آپ شام کا کھانا بھی ادھر ھی نہیں کھا لیتے ؟ آپ نے حامی بھر لی ،پھر عصر کے وقت کھانا دیا گیا ھم سب نے کھایا اور پھر رسول اللہ ﷺ نے تازہ وضو نہیں کیا اور عصر کی نماز پڑھی ( ابو یعلی و طحاوی فی شرح المعانی )
5- عن ربیع بنت معوذؓ فرماتی ھیں کہ ھم رسول اللہﷺ کے ساتھ غزوے پر جایا کرتی تھیں ، لشکریوں کو پانی پلاتی تھیں اوران کے لئے کھانا بناتی اور زخمیوں کا علاج کرتیں اوران کو اٹھا کر مدینہ لاتیں ( بخاری 2883)
6- عن ام عطیہ کہتی ھیں کہ میں سات غزوات میں نبئ کریم ﷺ کے ساتھ گئ ، میں ان کے سامان کا خیال رکھتی ، ان کے لئے کھانا بناتی مریضوں کی مرھم پٹی کرتی اور ان کی دیکھ بھال کرتی ( مسلم 5/199 بخاری 324و ابن ابی شیبہ 525/12 )
7- عن انس کہتے ھیں کہ ام سلیمؓ نے حنین میں خنجر تان رکھا تھا جو کہ وہ ساتھ لے کر گئ تھیں ، ابوطلحہؓ نے انہیں دیکھ لیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺ وہ دیکھیں ام سلیم خنجر لئے کھڑی ھیں ، رسول اللہ ﷺ ان کے پاس آئے اور پوچھا کہ یہ خنجر کس لئے بھئ ؟ ام سلیم نے جواب دیا کہ یہ اس لئے کہ اگر کوئی مشرک میرے پاس سے گزار تو اس کا پیٹ پھاڑ دونگی ،، ان کی اس بات پر رسول اللہ کھل کر ھنس دیئے ،،( مسلم 196/5)
8- عن انسؓ ام سلیم دیگر انصاری خواتین کے ساتھ غزوات پر جایا کرتی تھی اور لشکریوں کو پانی پلاتیں اور مریضوں کا علاج اور دیکھ بھال کرتی تھیں (طبرانی ،ترمذی،ابن حبان، ابی داؤد )
9-عن ابن عباسؓ خواتین رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوات پر جایا کرتیں ،مریضوں کی مرھم پٹی کرتیں اور مال غنیمت میں سے ان کو حصہ دیا جاتا تھا ( مسلم )یہ سلسلہ نبئ کریم ﷺ کی وفات کے بعد بھی جاری رھا -
10-اسماء بنت یزید الانصاریہ فرماتی ھیں کہ میں نے جنگ یرموک میں لوگوں کے ساتھ حصہ لیا اور خیمے کے بانس سے سات رومیوں کی جان لی ( اخرجہ سعید بن منصور فی " السنن و الطبرانی فی المعجم الکبیر)
11-عن خالد بن سیحان ،،میں نے تُستر کے معرکے میں ابی موسی کےساتھ شرکت کی ھمارے ساتھ چار خواتین تھیں جو زخمیوں کی مرھم پٹی اور دوا کا بندوبست کرتیں اور ان کو مالِ غنیمت میں سے حصہ دیا گیا ،،( ابن ابی شیبہ 527/12، البخاری فی تاریخ153/1/2 )
12-عن عبداللہ ابن قرط الازدی ،،میں نے خالد بن ولید کے ساتھ رومیوں سے جنگ میں شریک تھا ، میں نے دیکھا کہ خالد بن ولید کی بیوی اور ان کے دیگر ساتھیوں کی بیویوں کو دیکھا کہ وہ مستعدی کے ساتھ دوڑ دوڑ کر سپاہیوں کو پانی پلاتیں ( اخرجہ سعید باسناد صحیح ، 2788، الالبانی )
13- عن ابی بلج یحیی بن ابی سلیم ،کہتے ھیں کہ میں نے سمراء بنت نہیک کو دیکھا کہ جو کہ صحابیہؓ تھیں ، ان پر ایک زرہ تھی اور موٹا دوپٹہ سختی سے باندھا ھوا تھا اور ھاتھ میں چابک تھا وہ لوگوں کو تربیت دے رھی تھیں ، اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کر رھی تھیں ( الطبرانی )
یہ چندواقعات ھیں جو کہ نقل کیئے گئے ھیں یہ بتانے کے لئے کہ نبئ کریم ﷺ اور آپ کے اصحابؓ نے عورتوں کو موم کی گڑیا بنا کر گھروں میں نہیں بٹھا دیا تھا بلکہ ان کو جنگی تربیت دی گئ اور جنگوں میں شریک کیا گیا ان سے میڈیکل اور پیرا میڈیکس کا کام لیا گیا اور مال غنیمت میں حصہ بھی دیا گیا اور یہ سارے کام شٹل کاک میں نہیں ھوتے بلکہ اس کے لئے چہرے اور ھاتھ خالی رکھے جاتے ھیں تو یہ کام ھوتے ھیں -