سماجيات
بيچارہ باپ
افتخار تبسم
تم اور میں کبھی بیوی اور شوہر تھے؛پھر تم ماں بن گئیں اور میں باپ بن کے رہ گیا-تم نے گھر کا نظام سنبھالا اور میں نے زریعہ معاش کااور پھر تم"گھر سنبھالنے والی ماں" بن گئیں اور میں کمانے والا باپ بن کر رہ گیا۔۔۔۔بچوں کو چوٹ لگی تو تم نے گلے لگایا اور میں نے سمجھایا-تم محبت کرنے والی ماں بن گئیں اور میں صرف سمجھانے والا باپ ہی رہ گیا۔۔بچوں نے غلطیاں کیں تم ان کی حمایت کر کے "understanding mom" بن گئیں اور میں"نہ سمجھنے والا" باپ بن کے رہ گیا۔۔۔"بابا ناراض ہوں گے" یہ کہہ کر تم اپنے بچوں کی"best friend" بن گئیں۔۔۔ اور میں غصہ کرنے والا باپ بن کے رہ گیا....تم سارا دن بچوں سے راز و نیاز کرتے ہوئے اپنا مستقبل محفوظ بناتے ہوئے بچوں کے ذہنوں میں گھر کرتی چلی گئیں۔۔۔اور میں فقط گھر کا مستقبل بنانے کے لیے اپنا آج برباد کرتا چلا گیا۔
تمہارے آنسوؤں میں ماں کا پیار نظر آنے لگا اور میں بچوں کی انکھوں میں فقط بے رحم باپ بن کے رہ گیا۔۔۔تم چاند کی چاندنی بنتی چلی گئیں اور پتہ نہیں کب میں سورج کی طرح آگ اگلتا باپ بن کر رہ گیا۔۔۔تم ایک "رحم دل اور شفیق ماں" بنتی گئیں اور میں تم سب لوگوں کی زندگی کا بوجھ اٹھانے والا صرف ایک باپ بن کر رہ گیا۔یہ ایک انتہائی تلخ معاشرتی تصویر ہے۔
*بہت کم ایسی مائیں ملیں گی جو اپنے بچوں کے سامنے اُنکے باپ کا مقام بُلند کرکے رکھتی ہیں جو بچوں کو یہ بتاتی ہیں کہ کیسے اُنکا باپ اپنے آگے کا نوالہ اپنے بچوں کو کھلا کر خود بھوکا رہ جاتا ہے۔ کیسے ایک باپ سارا دن اپنے بچوں کے رزق کیلئے مارا مارا پھرتا ہے۔ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے کیا کیا قربانیاں دیتا ہے اور کن کن تکالیف کا سامنا کرتا ہے- کسطرح اُنکو اُنکے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے اپنے آپ کو برباد کر لیتا ہے خود کو ختم کر لیتا ہے۔ تب کہیں جاکر اولاد کسی قابل بنتی ہے۔*
*مگر اولاد کو یہ بتانے اور سمجھانے والی مائیں اُنکو یہ نہیں بتا پاتیں۔ اسی لیئے اولاد اُس وقت تک اس بات کو سمجھ ہی نہیں پاتی جب تک وہ خود باپ نہ بن جائے اور تب تک بہت دیر ہو چُکی ہوتی ہے۔*